آصفہ قتل کیس اوروکلاء کی شرمناک حرکت

وکلاء کااحتجاج کرنااورجموں بندکی کال دیناتب صحیح قراردیاجاتا اگراس کیس کوکرائم برانچ حل کرنے میں ناکامیاب رہتی۔ اب چوں کہ ملزم قانون کے شکنجے میں پھنس چکے ہیں اورانہوں نے اقرارجرم بھی کردیاہے اس لیے وکلاء کااحتجاج بے سودہوکر رہ جاتاہے۔بہترہوتااگریہ وکلاء ریاست اورخاص کرکشمیرمیں پھیلی ہوئی بدامنی کے خلاف احتجاج کرتے۔ایساکرنے پرشاید کسی کولگتاکہ کوئی توہے جوظالموں کے خلاف احتجاج بلندکررہاہے لیکن آصفہ عصمت ریزی کے مجرموں کے حق میں احتجاج کرنے کاکوئی جوازہی نہیں بنتا۔

از قلم:پروفیسرشہاب عنایت ملک
ٓآصفہ قتل اورعصمت ریزی کیس نے پوری انسانیت کواس وقت شرمسارکیاجب کرائم برانچ کی ایک خصوصی ٹیم نے پورے کیس کی تحقیقات مکمل کرنے کے بعدکٹھوعہ کی عدالت میں رپورٹ پیش کردی۔جس وقت کرائم برانچ کی ٹیم عدالت میں چارج شیٹ پیش کرنے جارہی تھی۔ٹھیک اْسی وقت جموں میں مقامی وکیلوں کی ایک ٹولی نمودار ہوئی اورکرائم برانچ کی ٹیم کوعدالت میں چارج شیٹ داخل کرنے سے روکنے کی کوشش کرنے لگی۔ انصاف دلانے والے ان نام نہاد وکلاء نے کرائم برانچ کے خلاف نعرہ بازی بھی کی اوراس کیس کو سی بی آئی کے حوالہ کرنے کی پرزورمانگ بھی۔ وْکلاکاپیشہ ہمارے سماج میں بڑامدبرپیشہ ماناجاتاہے۔عوام کواس پیشے سے کافی اْمیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔وکلاء کاشماردانشورطبقے میں ہوتاہے۔بڑے بڑے مسائل کوسلجھانے میں وکلاء اہم کرداراداکرتے ہیں لیکن آصفہ قتل کیس کے سلسلے میں اس پیشے پربہت سارے سوالات کھڑے ہوجاتے ہیں۔ رسانہ گاؤں کی آصفہ کو جس بے دردی سے قتل کیاگیا اْس سے ہم سب واقف ہیں۔ گجرطبقہ سے تعلق رکھنے والی معصوم آصفہ کی عزت محض اس لیے تارتارکی گئی تاکہ اس علاقے کی اقلیتوں میں خوف وہراس پیداکرکے انہیں علاقہ چھوڑنے پرمجبور کیاجاسکے۔ عصمت ریزی کے بعد آصفہ کابے رحمانہ قتل انسان کے رونگھٹے کھڑے کردیتاہے۔ وزیراعلیٰ نے جب اس کیس کی تفتیش کرائم برانچ کے سپرد کی تومقامی ہندوتنظیم ’’ہندوایکتامنچ‘‘ کاقیام آناً فاناً عمل میں لایاگیا۔فرقہ پرستوں نے اس کیس کوسی بی آئی کے حوالے کرنے کے لیے مختلف جلوسوں اورجلسوں کاانعقاد کیا۔یہی نہیں پی ڈی پی بھاجپاسرکارمیں شامل دوفرقہ پرست وزراء نے ان جلسوں میں فرقہ وارانہ تقاریرکے ذریعے سے پوری ریاست میں ایک عجیب طرح کاماحول پیداکرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجودکرائم برانچ کی تحقیقاتی ٹیم بڑی دلیرانہ طریقے سے اس سنسنی خیزکیس کی تفتیش کوآگے بڑھاتی رہی۔وہ صحیح سمت میں تفتیش کوآگے بڑھاتے رہے اور کسی کے دباؤ میں آئے بغیردیانت داری سے کیس کی تفتیش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دن رات محنت کرتے رہے اورآخرکار ان وحشیوں کے گریبانوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے جنھوں نے یہ ناپاک حرکت انجام دی تھی۔اْدھرفرقہ پرست ملزموں کوبچانے کی بھرپورکوشش میں مختلف حربے استعمال کرنے میں عمل پیرا رہے۔ ہندوستانی جھنڈے کے سائے میں نکالے گئے جلوسوں کاجب کوئی اثرنہیں ہوا توفرقہ پرستوں نے خواتین کاحربہ استعمال کیا اورانہیں دھرنے پربٹھادیا۔ ظلم کی حمایت کرنے والے یہ فرقہ پرست جب پوری طرح ناکامیاب ہوئے توسماج کاسب سے بڑامعتبرپیشہ یعنی وکلاء میدان میں اْترااورچارج شیٹ دائرکرتے وقت کرائم برانچ کے اہلکاروں کے سامنے احتجاج اورانہیں چارج شیٹ دائرنہ کرنے کی کوشش کرکے پوری انسانیت کوشرمسارکردیا۔ اس بات سے صاف ظاہرہوتاہے کہ انصاف دلانے والے یہ نام نہاد متبرک وکلا کس قدراپنے پیشے کوبدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس واقعہ سے ان معتبروکلاء کی بھی شبیہ خراب ہوئی ہے جوایمانداری سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ہوناتویہ چاہیئے تھاکہ سماج کایہ معتبرشعبہ آگے آکر آصفہ قتل اورعصمت ریزی کیس کی مذمت کرکے ملزموں کوکیفرکردارتک پہنچانے میں اپنامثبت رول اداکرتالیکن ہوااس کے برعکس۔ چندوکلاء کی ٹولی نے یہ گھناونی حرکت کرکے اس پیشے سے وابستہ سب ہی افرادکوداغ داربناڈالا۔ حددیکھئیے جموں بارایسوسی ایشن نے 11 اپریل کو جموں بندکی کال دی ہے اس میں بھی آصفہ عصمت ریزی کیس پہلامدعا ہے۔حالانکہ بارایسوسی ایشن کی جموں بندکی کال کوپونچھ راجوری اورچناب ویلی کی بارایسوسی ایشنوں نے یکسرمستردکردیاہے لیکن جموں بارایسوسی ایشن کی فرقہ پرست ذہنیت کابخوبی علم ہوجاتاہے۔یہاں جموں بارایسوسی ایشن بھی آصفہ قتل کیس کوسی بی آئی کے حوالے کرنے کے حق میں اپنی آوازبلندکررہی ہے۔بارایسوسی ایشن کی اس حرکت سے ایسوسی ایشن کی شبیہ عوام میں بری طرح سے خراب ہوئی ہے۔ہوناتویہ چاہیئے تھاکہ جموں بارایسوسی ایشن خطہ پیرپنچال اورخطہ چناب میں ہوئی سیاسی زیادتیوں کے خلاف آوازبلندکرتی کیونکہ آزادی کے بعدریاست کے یہی دوخطے ہیں جوزندگی کے ہرشعبے میں پچھڑکررہ گئے ہیں ورنہ اگردیکھاجائے توجموں کے ساتھ آزادی کے بعدکسی بھی حکومت نے کسی قسم کی زیادتی کبھی کی ہی نہیں۔ اس کی مثال ہم یہاں ہوئے ترقیاتی کاموں سے دے سکتے ہیں لیکن آصفہ قتل کیس کے مجرموں کی حمایت میں کھل کر سامنے آنا اس بات کاثبوت پیش کرتی ہے کہ بارایسوسی ایشن بھی فرقہ پرستی کو ہی ہوادے رہی ہے۔بارایسوسی ایشن آصفہ قتل کیس پرسیاست کرکے سماج کوبانٹنے کاکام خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہے۔جموں کے سیکولر سوچ رکھنے والے ذی حس عوام بارکی اس حرکت سے حیران وپریشان ہیں۔ان کاماننا ہے کہ وکلاء کی اس طرح کی گھناونی سیاست دوفرقوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کاسبب بن سکتی ہے۔بارکوچاہیئے تھاکہ وہ سرحدوں پرہورہے پاکستان کی طرف سے ظلم وتشددکے خلاف احتجاج کرتی اورامن کی خاطرحکومت کوپاکستان پربات چیت کرنے پرمجبورکرتی۔بے روزگاری کے خلاف آواز بلندکرتی لیکن آصفہ کوانصاف دلانے کے بجائے ایسوسی ایشن جس طرح ملزموں کی حمایت میں کھڑی ہوئی ہے اس سے حالات مزیدخراب ہونے کااندیشہ ہے۔جموں کے امن پسند شہریوں اورتجارت پیشہ طبقہ کایہ بھی کہناہے کہ جموں بارایسوسی ایشن کی اس بیہودہ حرکت سے دوفرقوں کے درمیان دوریاں بھی پیداہوسکتی ہیں جس کاخمیازہ جموں کے تجارت سے وابستہ طبقے کوہی بھگتناپڑے گا کیونکہ ان کاکاروباربراہ راست کشمیرسے جڑاہواہے اورکشمیریوں کیلئے آصفہ قتل کیس ان کے جذبات سے جڑا ہواہے جس کی مثال کشمیرکے ان علیحدگی پسنداورمین اسٹریم لیڈروں کے ان بیانات سے دی جاسکتی ہے جن میں انہوں نے اس شرمناک واقعے کوکڑے الفاظ میں تنقیدکانشانہ بنایاہے۔یہی نہیں عوام میں اس واقعہ کولے کرزبردست غصہ پایاجارہاہے۔بارکی اس حرکت سے جموں اورکشمیرکے درمیان دوریاں بھی بڑھاسکتی ہیں اوریہ دوریاں جموں کے مفادمیں کسی طرح بھی ٹھیک نہیں ہیں۔
وکلاء کااحتجاج کرنااورجموں بندکی کال دیناتب صحیح قراردیاجاتا اگراس کیس کوکرائم برانچ حل کرنے میں ناکامیاب رہتی۔ اب چوں کہ ملزم قانون کے شکنجے میں پھنس چکے ہیں اورانہوں نے اقرارجرم بھی کردیاہے اس لیے وکلاء کااحتجاج بے سودہوکر رہ جاتاہے۔بہترہوتااگریہ وکلاء ریاست اورخاص کرکشمیرمیں پھیلی ہوئی بدامنی کے خلاف احتجاج کرتے۔ایساکرنے پرشاید کسی کولگتاکہ کوئی توہے جوظالموں کے خلاف احتجاج بلندکررہاہے لیکن آصفہ عصمت ریزی کے مجرموں کے حق میں احتجاج کرنے کاکوئی جوازہی نہیں بنتا۔