اناپرستی سے ہے بربادئ قوم یقینی

خدا وند عالم نے بشریت کے لئے وقتاً فوقتاً پیغمبر بھیجے تاکہ بنی آدم کی ہدایت کا چارہ جوئی کر سکیں ظاہر سی بات ہے کہ پیغمبروں کوان تمام صفات و کمالات سے مزین کیا گیا کہ جو انسان کی رشد و ہدایت کے لئے نہایت ہی لازمی ہوا کرتی ہیں۔ان پیامبران الٰہی کی بعثت کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ اانسانی نفوس کی پاکیزگی اور تزکیہ نفس کے ذریعے ایک صالح انسانی معاشرے کو تشکیل دیں۔

ازقلم : سید ماجد رضوی ،ماگام

خدا وند عالم نے بشریت کے لئے وقتاً فوقتاً پیغمبر بھیجے تاکہ بنی آدم کی ہدایت کا چارہ جوئی کر سکیں ظاہر سی بات ہے کہ پیغمبروں کوان تمام صفات و کمالات سے مزین کیا گیا کہ جو انسان کی رشد و ہدایت کے لئے نہایت ہی لازمی ہوا کرتی ہیں۔ان پیامبران الٰہی کی بعثت کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ اانسانی نفوس کی پاکیزگی اور تزکیہ نفس کے ذریعے ایک صالح انسانی معاشرے کو تشکیل دیں۔

’’یقیناً خداوندعالم نے صاحبان ایمان پر احسان کیا ہے کہ وہ انکے درمیان  انہیں میں سے ایک رسولؐ بھیجاہے جوان پر آیات الہیہ کی تلاوت کرتاہے انھیں پاک وپاکیزہ بناتاہے اورکتاب وحکمت کی تعلیم دیتاہے اگر چہ یہی لوگ پہلے سے بڑی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔‘‘۔(سورہ مبارکہ آل عمران آیت 164)پیامبرانِ خدا کے اسی مشن کی آبیاری کے لئے آئمہ معصومین ؑ نے اپنی جد وجہد مختلف ادوار میں جاری رکھی۔ان کے اقوال و افعال اور تابناک کردار کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ انہوں نے انسانی نفوس کے تزکیہ اور اصلاح معاشرہ کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا ۔ ان مقدس ہستیوں نے انسانی اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کے لئے ہر قسم کی قربانی پیش کی۔چنانچہ رسول خداؐ کا قول مبارک ہے میں تمہیں اچھے اخلاق کی وصیت کرتاہوں کیونکہ خداوندعالم نے مجھے اسی غرض کے لئے بھیجاہے (مستدرک ج ۲ص ۲۸۳)۔

اس سلسلے میں امام علی ؑ فرماتے ہیں کہ

’’اگرمیں بہشت کی امیدنہ رکھتاہوتااوردوزخ کی آگ سے نہ ڈرتاہوتااورثواب وعقاب کا عقیدہ بھی نہ رکھتاہوتاتب بھی یہ امرلائق تھا کہ میں اچھے اخلاق کی جستجوکروں کیونکہ اچھے اخلاق کامیابی اور سعادت کا راستہ ہے۔( مستدرک ج ۲ص ۹۹)

صادقِ آل محمد کا فرمانا ہے کہ :۔

’’جس شخص کا اخلاق خراب ہووہ اپنے آپکوعذاب اورمصیبت میں مبتلا،کر لیتاہے (جامع السعادث ج ا ص ۲۷۳)

جیسا کہ ابتداعاًعرض کیا گیا ہے کہ انیباء کرام ؑ خصوصاًپیغمبراسلام ؐ ایک مقدس مقصدتک رسائی کے سلسلے میں لوگوں کی ہدایت ورہنمائی اوران کی فکری ، روحانی ، اخلاقی الغرض ہمہ جہت تطہیرکے لئے مبعوث کئے گئے اسلامی اخلاق کی جس تحریک کی بنیادپیغمبراکرمؐ نے رکھی وہ اپنے تعمیری پہلو،گہرائی وگیرائی کے لحاظ سے یگانہ وبے مثل ہے اوراس پہلو میں بھی یکتاہے کہ انسانی نفس کی تمام باریکیوں اور گہرائیوں کو مدنظررکھاگیاہے اورہر اس جنبش وحرکت اورفکروادراک جس کا سرچشمہ انسانی نفس کے اندرموجودہے پر خاص توجہ دی گئی ہے ،تاکہ انسان ان پر عمل کرکے گمراہی سے بچ سکے ۔اوردنیاوآخرت میں سعادت حاصل کرسکے ۔انسان جب قانون الہیٰ سے دورہوتاہے ذاتی اورمزاجی دین پر عمل کرنے لگتاہے ۔تو مختلف قسم کی معنوی بیماریوں میں مبتلاہوجاتاہے ۔جس طرح انسان ظاہر ی بیماریوں میں مبتلاء ہوجاتاہے اور جن کی تشخیص ڈاکٹرکرتے ہیں۔ اسی طرح انسان باطنی بیماریوں میں بھی مبتلاء ہوجاتاہے جوظاہربین نگاہوں سے نہیں دیکھی جاسکتی ہیں۔لیکن یہ بیماریاں ظاہری بیماریوں سے مہلک ترین ہوتی ہیں جن اخلاقی اور نفسیاتی بیماریوں سے انسانی معاشرہ اورقوم وملک تباہی و بربادی کے دھانے پر پہنچتی ہے ان میں سے عجب ،خودپسندی ،انانیت ،تکبروغیرہ جیسی روحانی بیماریاں نمایاں ہیں۔

عُجب:۔ ایک ایسی بُرائی ہے جو حُب نفس سے پیداہوتی ہے چونکہ انسان کی تخلیق ہی حُب نفس پر ہوئی ہے ۔اورتمام انسانی خطاؤں اوراخلاقی بُرائیوں کا سرچشم حُب نفس ہے اس لئے اپنے چھوٹے بڑے اعمال کو بھی بڑاسمجھنا ایک انسان کے لئے ایک فطری کمزوری ہے اوردیگر اولادآدم ؑ کی نسبت اپنے اعمال و افعال سمیت اپنے آپ کو بر تر و بہتر سمجھنا ایک آدمی کا خاصہ ہے۔ اور اپنے سوا ہر کسی کو ہیچ سمجھنا اس کا مرغوبِ خاصہ ہے یہاں تک کہ کبھی کبار اُسکے بُرے اعمال بھی اسکی اپنی نظرمیں اچھے معلوم ہونے لگتے ہیں۔(امام خمینیؒ چہل حدیث ص ۱۰۰)۔اس بری صفت کا تعلق باطن سے ہوتاہے ۔

خودپسندی: اپنے اعمال کو بڑاسمجھنااور یگانہ و بے مثل خیال کرنا اوراس پر خوش ومسرورہونا نازکرناخودکوحد تقصیرسے خارج سمجھناخودپسندی کی علامت ہے ۔جس شخص سے بھی یہ علامت ظاہر ہو جائے تو اس کا دائرہ فکر محدودہو کر رہ جاتا ہے اور اس کی برائی بھی اس کے سامنے اچھائی کا خوش کن لبادہ اوڑھ کر آتی ہے۔ اور وہ اپنی برائیوں پر بھی مسرورہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے عیوب کو ہنر سمجھتا ہے اور اپنی کمزوری کو طاقت کا سرچشمہ تصور کرنے لگتاہے اسکے برعکس ’’خودی‘‘روح کی عظمت او رشخصیت کی وسعت کی علامت ہے جوانسان کو انکساری وفداکاری پر آمادہ کرتی ہے اورخداوندعالم کے سامنے سرخم کرادیتی ہے۔

انانیت: ائمہ معصومینؑ کی تعلیمات کی روشنی میں علماء کرام نے انانیت کے حوالے سے جو کچھ بیان فرمایا ہے ا س کے مطابق جب ایک انسان انانیت کا شکار ہو جاتا ہے تو وہ خودکو تمام قسم کی تنقید و نصیحت سے مبرا سمجھتا ہے ۔اور خود کو ہر فن مولا سمجھنا اس کی مجبوری بن جاتی ہے۔ یہ صفت رزیلہ بعض اوقات اپنی تمام تر حدود کو پار کر جاتی ہے اور ایک حقیر بندہ بھی خدائی کا دعویٰ کر بیٹھتا ہے ۔

تکبر:امام خمینی ؒ کی تعبیر کے مطابق تکبر کامطلب یہ ہے کہ انسان کے اندرایک ایسی نفسیاتی حالت وکیفیت پیداہوجائے جس کی وجہ سے وہ اپنے کو دوسرے سے اونچااوربڑاسمجھنے لگے اور اسکا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اس انسان سے ایسے اعمال وآثارظاہر ہونے لگتے ہیں لوگ کہتے ہیں یہ شخص تکبرکرتاہے (چہل حدیث ص ۱۱۱)

یہ متذکرہ بالاباطنی بیماریوں میں سے بدترین بیماری ہوتی ہے علمائے کرام نے اس موضوع پر مختلف قسم کی بحثیں کی ہیں فلسفیوں نے فلسفیانہ انداز میں اور عرفاء نے عارفانہ انداز میں تکبر کی علامتوں کو بیان فرمایا ہے۔ ان حضرات کی مختلف تعبیروں کے مابین ایک خفیف سا فرق ہے کہ جسے درک کرنے کے لئے ایک خاص نظر درکار ہے۔مگر ایک بات طے ہے کہ تکبر ہر گروہ کے مطابق اعلیٰ درجہ کی بد صفتی شمار ہوتی ہے یہ شیطان کے حربوں میں سے ایک خطرناک اور آزمودہ حربہ ہے۔ کیونکہ اسی تکبر کے نتیجے میں ابلیس بھی بارگاہ الٰہی سے ہوا ہے۔

انانیت ایک ایسی مہلک ترین نفسیاتی اور معنوی بیماری ہے جو قوم وملک بلکہ پوری انسانیت کو فتنہ وفسادمیں مبتلاکرکے تباہ وبربادکرتی ہے اور انسانی معاشرہ کو کھوکھلاکرتی ہے ۔امام خمینیؒ اپنی ایک تقریر میں انانیت کے بارے میں فرمانے ہیں ۔

’’ایساکام کریں جویہ پردے آپ اورخداکے درمیان حائل ہیں یہ ہٹ جائیں سب سے بڑایردہ آپ لوگوں کی اناہے انسان خودحجاب میں ہے آپ کی انانیت خود حجاب ہے آپ لوگ یہ سوچئے آپ کو سکون قلب حاصل کرنا ہے آپ کو آرام و آسائش سے ہمکنارہوناہے نہ تذلذل وتشویش سے۔ دنیامیں انسان کو جوتشویشیں لاحق ہوتی ہیں وہی اس سے دوزخ میں روکے رکھتی ہیں یہ جو تشویشیں انسان کو لاحق ہیں یہ جہنم کا صرف ایک پہلوہے کو شش کریں یہ تشویشیں برطرف ہوجائیں تشویشوں کا برطرف ہونا یہ نہیں ہے کہ ایک عہدہ اورمنصب ہے تو ایک اورعہدہ ومنصب مل جائے نہیں دوسراعہدہ تشویش کا موجب ہے کو شش کیجئے کہ انسان کے نفس میں جووحشت ہے وہ ان مسائل کو جوخودپسندی کے نیتجے میں پیش آتے ہیں انکو برطرف کرے اپنی انا کا خاتمہ کرے آپ کی اناحائل ہے اگریہ اناختم ہوجائے توتمام تشویشیں برطرف ہوجائیں گی انسان بہت سے کام انجام دیتاہے اور یہ خیال کرتاہے کہ وہ خداکے لئے انجام دے رہاہے رضائے خداکے لئے اس عہدے پر ہوں اورخداکے لیے فلاں کام کررہاہوں لیکن یہ صرف اس کا خیال ہے انسان اپنے نفس سے بہت زیادہ محبت رکھتاہے اسی لئے خیال کرتاہے جوبھی کام کرتاہے اچھاہے اور جو بھی کام کرتاہے خداکرلئے کرتاہے لیکن اگر وہ کسی ایسے شخص کے پاس جائے جو خداشناش ہوتو وہ اس سے سمجھائے گاکہ تمہارایہ ساراکام اپنے لئے تھاخداکے لئے نہیں تھا اگر آپ اس مقام پر پہنچ جائیں کہ اپنی انانیت کو ختم کردیں اور پھر کوئی کام انجام دیں۔تو یہ کام یقیناًخداکے لیے ہوگا انبیاء ؑ کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں تھا۔

اگرتمام انبیاء ایک جگہ جمع ہوجائیں توان کے درمیان کوئی اختلاف دیکھنے کو نہیں آئے گا کیونکہ ان میں انانیت نہیں ہے ان کا ہدف و مقصد ایک ہے اور ان کے درمیان کسی قسم کے اختلاف نہیں ہیں‘‘۔

اگر انسان مفاد پر ستی وانانیت کی مہلک بیماری میں مبتلاء ہوگیاتووہ جان لیجئے وہ خداوندعالم پیغمبروںؑ ،اولیاء کرام،بندگان خدااور فرشتو ں سے دشمنی مول لے رہاہے اگرایساہوجائے کہ دنیااورنفس کی محبت نے ہم پر غلبہ حاصل کرلیا تو ہم نہ صرف حق و حققیت سے روز بروز دور ہوتے جائیں گے۔ بلکہ ہم خدا اور خاصانِ خدا کے دشمن ہو جائیں گے۔ ا وراس دشمنی میں دنیا و آخرت کی بربادی یقینی ہے۔ انانیت و تکبر ایک ایسا زندان ہے جسے انسان اپنے ہی ہاتھوں بناتا ہے مگر کسی غیر کو اس میں قید کرنے کے لئے نہیں بلکہ خود کو ہی اس میں عمر قید کر لیتا ہے انسان جو زندان ذات کا قیدی ہے اپنی تمام مادی ترقی آرام وآسائش کے باوجود بھی بے کیفی اور بے مائیگی کا شکارہے اور رہے گاانانیت ایک ایسی غلامی ہے کہ جس میں ایک انسان اپنی خواہشات کا غلام ہو کر رہ جاتا ہے ۔ اس کی آزادی اسے چھن جاتی ہے۔

اسی انانیت کی وجہ سے امام بارگاہیں و مساجد سالہا سال مقفل رہتی ہیں جس کی وجہ سے خون شہداء سے مزین مکتب آل رسول ؐ کو بدنام کیا جارہا ہے۔پیش نماز پھر غلام بن جاتے ہیں ۔انکو دین کی فکر سے زیادہ و ریالوں کی فکر رہتی ہیں۔جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اسی انانیت کی وجہ سے قومیں ہلاک ہوگئی احکام خداوندی آئین واصول کو بالائے طاق رکھاگیاقوم کو اپنی انانیت کی بناء پر فتنہ وفساد میں مبتلا ء کیاگیا کتنے گھرانے ویران کئے گئے قومی واجتماعی طاقت کو پارہ پارہ کیاگیا قومی سرمایہ اوقاف پرجابرانہ قبضہ کرکے میراث کی طرح بانٹ کر بیچا گیا ۔خاندانی جنگ قوم پر تھوپی گئی جس کی سزا قوم بھگت رہی ہے۔اور موجودہ دور میں بھی جن قومی معاملات و مسائل نے ایک الجھن کی صورت اختیار کر رکھی ہے باریک بینی سے دیکھا جائے تو ان میں بھی یہی انانیت کارفرماء دکھائی دے گی۔یہی وجہ ہے کہ دینی وقومی ادارے تباہی کے دہانے پرپہنچ گئے۔ اجارہ داری کا چلن اس قدر عروج پر ہے کہ چند امام بارگاہوں اور اقافوں میں چند ایک مخصوص خاندانوں کے بغیرکسی کو اجازت ہی نہیں کہ وہ وہاں پر کسی مذہبی عبادت یا تقریب کو انجام دے سکے۔ ماضی قریب میں فرقہ پر ستی کے ذریعے قوم کے حصے بکھرے کئے گئے۔ اورآج بھی اسی انانیت کے پیٹ سے نئی نئی تنظیمں جنم لے رہی ہیں۔اگر ماضی قریب میں قوم کو فرقہ پرستی کے نام پر بانٹا گیا اور آج تنظیموں کے نام پر بانٹا جارہا ہے نئے نئے ناموں پر نئی نئی تنظیمیں بنائی جارہی ہیں قوم کو فرقہ پرستی سے نجات حاصل کرنے کیلئے مجمع اسلامی کشمیر ایک امید کی کرن دکھائی دے رہی تھی اس کی خوب تشہیر و اہداف ومقاصد سے آشنا کیا گیا لیکن پھر اس کو بھی اقتدار کے پجاریوں و خود خواہی کے علمبرداروں نے پارہ پارہ کیا  اور یوں اجتماعی طاقت کو پارہ پارہ کیاجارہاہے قومی اداروں کو ذاتی ملکیت تصور کرنے کے پیچھے بھی اسی انانیت و خود پرستی اور خود خواہی کا کافی عمل دخل ہے۔ دین کی فکرسے زیادہ تنظمیوں کی فکر افراد قوم کو لاحق ہے۔تنظیم کے نام کو مثل بورڈاور دین کو دکان کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے تاکہ آمدنی آنے کا ذریعہ بنے ؟کیایہ ممکن نہیں ہے کہ تمام تنظمیں ایک ہی سایہ تلے مختلف شعبوں پر کام کریں اور یہ قوم ترقی کی راہ پر گامزن رہے ۔ایساممکن نہیں ہوسکتاجب تک اس میں ان تنظیموں سے وابستہ افراد و ارکان کی انا فنا کی گھاٹ نہ اتر جائے۔بغیر آئین واصول کسی بھی تنظیم یا ادارے کو قبول کرنا اندھی تقلید ہے جس کی اسلام نے سخت مذمت کی ہے۔

انانیت ہی انسان کی تباہی کا سرچشمہ ہیں اوراس پر کنڑول کرنا انسان کی نجات کا بہترین ذریعہ ہے اگرایک فرد نے حکم خداوندی وآئین الہٰی کے سامنے سر خم نہیں کیا توحقائق کا انکار کرے گا اوراس منصب کے استحقاق کادعویٰ اپنے تئیں کر ے گا کہ جس کاوہ کسی بھی طور مستحق ہی نہیں ہے۔وہ انا پرستی میں اس قدر اندھا ہو گا کہ ہر سیاہ و سفید کو اپنی ملکیت اور مملوک سمجھے گا۔ اناپرست انسان کے ہاتھ اگر طاقت و حکومت لگ جائے تو وہ ظلم و جبر کے تمام حدود پارکر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ انانیت انسان کو فرعون بنادیتی ہے ۔اور پھر وہ ایک ایسا دعوی ٰ کر بیٹھتا ہے کہ جس کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے طوق ذلالت اس کے گلے پڑھ جاتا ہے۔ وہ ایک حقیر و کمزور مخلوق ہوتے ہوئے بھی فرعون کا یہ دعویٰ دہرانے لگتا ہے۔ (فقال اناربکم العلیٰ سورہ مبارکہ نازعات آیت 24)

علامہ اقبال فرماتے ہیں:

مٹادے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے/کہ دانہ خاک میں مل کر گل وگلزار ہوتا ہے

مقالہ نگار ایک دانشجو اور کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں