ایران میں حالیہ فتنہ اورعالم اسلام میں ہلچل!

امت مسلمہ ایک جسم کے مانند ہے اور اگرایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورے جسم میں درد محسوس ہونا چاہیے۔اگر علمائے کرام، دانشورو صحافی حضرات ، جوانان اور عوام اپنی طاقت و قابلیت کو امت و انسانیت کی فلاح کیلئے مثبت انداز میں استعمال کریں تو دشمن جرات نہیں کریگا مسلمان ممالک کے اندر مداخلت کرنے کی اور ہمارے وسائل بھی ہمارے ہاتھ باقی محفوظ رہیں گے ۔
از قلم:وسیم رضا
سرینگر حال قم ایران
بسمہ تعالی
جہاں تک مجھے یادہے میں بچپن سے ہی دین کا شوقین تھا اور میری فطرت نے مجھے دین مبین اسلام سے اطاعت اور وفاداری کا سبق سکھایا ہے۔اگرچہ میری پیدائش ایک اہلسنت گھرانے میں ہوئی تاہم زمان طفلی سے ہی میرے ذہن میں جو بھی آئندہ کی تصویر بنتی یا خیال ابھرتا وہ دین کے حدود کے اندر اور فرقہ بندی سے آزاد ہوا کرتا تھا۔اگر امت کا ہر فرد زندگی کو مسلکی تعصب، کینہ، لجبازی ، نسل پرستی، رنگ، ذات و مذہبی منافرت سے پاک ہو کر تلاش و قیام کرے تو اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے نمود ہوگی اور مسلمان امن وحق کے سفیر قرار پائیں گے جس کے مقابل میں دشمن کھبی تفرقہ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکے گا۔ ہماری سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔ہمیں درست اور مستند معلومات کے تناظر میں واقعات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بصیرت کے نہ ہونے کی وجہ سے دشمن ہمارے جذبات کو مجروح کرنے کیلئے مختلف انداز میں کھیل اور منصوبے انجام دیتا ہے اور اس انتظار میں رہتا ہے کہ کب ہم اپنے رد عمل کو غلط طریقے سے ظاہر کریں اورہماری اجتماعی پہنچان داغدار بن جائے۔
خیر ایران میں کیا ہو رہا ہے، پوری دنیا میں موضوع سخن بنا ہوا ہے، بہت سارے دوستوں نے مختلف ممالک خصوصاً کشمیر سے ٹیلی گرام، فیس بک اور واٹس ایپ پر فون کالز اور پیام ارسال کئے اور اصل معلومات جاننے کا تقاضا کیا،ان کی حالت گفتگو سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اسلامی انقلاب کی پائیداری کیلئے فکرمند اور حامی ہیں تاہم کچھ دوستان نے ایسی خبریں و پوسٹس ارسال کیں کہ جن سے لگ رہا تھا کہ نادانی کی بنا پر وہ ایسے محسوس کر رہے ہیں شاید انقلاب و نظام اسلامی تمام ہوا اور اب بس جشن منانے کی تیاری کرنی چاہیے۔
نور حق شمع الہی کو بجھا سکتا ہے کون
جس کا حامی ہو خدا اس کو مٹا سکتا ہے کون
1979ء میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کیساتھ ہی ایران میں ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا تختہ الٹ گیا، امریکہ اور برطانیہ کی داخلی معاملات میں دخل اندازی کی کہانی بھی دفن ہو گئی ۔شاہ ایران رضا شاہ پہلوی امریکہ کا منظور نظر تھا۔سال 1971ء سے پہلے تک برطانیہ خلیج فارس کے بہت سے عرب علاقوں پر سامراجی کنٹرول رکھا کرتا تھا لیکن 1971ء میں اس نے یہاں بعض عرب قبائلی شیخوں کے ساتھ معاملہ /سودا کرکے انہیں چھوٹی چھوٹی ریاستوں یا مملکتوں میں تبدیل و تقسیم کر دیا اور خود یہاں سے جانے کا اعلان کر دیا۔امریکہ نے اپنے مفادات کی ماموریت کی ذمہ داری رضا شاہ اور سعوری بادشاہت کے حوالے کردی۔امام خمینیؓ نے اسلامی انقلاب کے بدولت امریکہ کے ہزاروں سالہ شیطانی خوابوں اور منصوبوں کو خاک میں ملاکر اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔ایرانی عوام نے 98%ووٹنگ سے نظام ولایت فقیہ کو دستور قانون قبول کرکے تمام مادہ پرست نظریات کو مسترد کردیا۔ نظام ولایت فقیہ کے زیر اسلامی جمہوریہ ایران نے علم، سائنس، ٹیکنالوجی، دفاع اورپیداوار وغیرہ کے میدانوں میں کافی پیشرفت کی۔انقلاب سے پہلے کھانے پینے کی تمام اشیاء خارج سے ایران وارد ہوتی تھی۔ گوشت آسٹریلیا سے، مرغ فرانس سے، انڈے اسرائیل سے، سیب وغیرہ لبنان سے اور دودھ وغیرہ ڈنمارک سے آتے تھے۔ایران کے دیہات اور گاؤں میں لوگ سال میں ایک بار چاول کھاتے تھے ۔بجلی نظام کا اصلاً عوام کیلئے کوئی انتظام نہ تھا ،تعلیم حاصل کرنے کی شرح بہت کم تھی، اکثرگھوڑے اور اونٹ کے ذریعہ سفر کرتے تھے اور ایک خاندان میں صرف ایک گاڑی پائی جاتی تھی۔غرص ہر میدان میں عوام کو کمزور اور پسماندہ بناکر یہاں کے قدرتی وسائل کو مغرب لوٹ لیتا تھا۔ بتاجاتا ہے کہ شاہ ایران کیلئے ہر روز بیرونی ریاست سے ایک ’’گلاب‘‘منگوایا جاتا تھا جس پر ایک بڑی رقم خرچ ہوتی تھی اور رضا شاہ اس گلاب کو سونے سے قبل سونگھتااور خواب اختیار کرتا۔
نظام ولایت فقیہ کے اساس کی رو سے ہر ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ ہے اور مسلمانون کے درمیان یکجہتی قائم کرکے کدورت کو دور کرنا انقلاب کا بنیادی ہدف ہے۔ ایران نے سب سے پہلے قابض ناجائز ریاست اسرائیل کو چلینج کیا اور فلسطینیوں کی سیاسی، سفارتی، اخلاقی اور مالی مدد کا کھلے عام اعلان کیا۔ اگر یوں کہا جائے کہ مسئلہ فلسطین کو ایران نے زندہ رکھا تو کچھ غلط نہیں؟امریکہ نے انقلاب کے بعد ہی صدام حسین کی وساطت سے ایران پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کی جس میں ایرانی قوم کو کافی نقصان سے دوچار ہونا پڑا اور عوام نے لاکھوں کی تعداد میں جانی قربانیاں پیش کیں۔ دفاع مقدس کے نام سے مشہور جنگ میں فتح کا سہراء ایران کو ہی حاصل ہوا۔ قبلہ اول اور فلسطین کی آزادی کی مدد کے جرم میں امریکہ نے استعماری قوتوں کے سہارے ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کیں لیکن ایران نے عظیم قائد و رہبرآیت اللہ العظمی امام سید علی خامبہ ای (مدظللہ) کی بدولت دشمن کے سامنے کبھی گھٹنے نہیں ٹیکے اور ہر سازش کا جواب استقامت سے دیا۔ایران نے 38سالہ دور میں آزادانہ طور ترقی کے جو منازے طے کئے اس کی مثال کسی اور جگہ دیکھنے کو نہیں ملے گی۔
ایران کے مختلف شہروں بشمول تہران، مشہد، اصفہان، شیراز اور قم وغیرہ میں کئی روز قبل پیش آئے احتجاجی مظاہروں کو دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے اپنی سرخیوں کی زینت بنالیا اور کئی ممالک میں ٹی وی چینلز پر بحث و مباحثوں کا آغاز شروع کیا گیا۔وادی کشمیر کے کئی اخبارات کے’’اداریہ‘‘و ’’مضامین‘‘ایران میں حالیہ فتنہ کے حوالے سے لکھے بھرے ملے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے جب لیبیا، عراق، تیونس، مصر اور شام میں حکومت مخالف مظاہرے برپا ہوئے تو امریکہ اوراسرائیل و اتحادی ممالک نے فوراً جنگ کا آغاز کیا اور فتنہ گروں کی حمایت کیلئے میدان میں کود پڑے۔ دوسری طرف عالمی سطح پر میڈیا اداروں نے شعوری و غیر شعوری طور شام کیخلاف اس جنگ میں اپنی دلچسپی اور ہمدردی کا ثبوت بھی اپنے منفی تبلیغات سے نمایاں کیا۔تاریخ گواہ ہے شامی عوام کی حمایت کے بجائے ہم نے ظالمین کی پیت تھپتھپائی ۔اگرچہ ماہ نومبر 2017ء میں داعش کو شام میں نابود کیا گیا جس کیلئے شام کو کافی جانی و مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا اور اسے اپنی ساخت کو بحال کرنے کیلئے ایک عرصہ درکار ہے۔ شام کی آبادی کے تناظر سے مسلمانوں کی تعداد 87%ہے جس کے لحاظ سے 75%اہلسنت اور شیعہ 12%قابل ذکر ہے۔مغربی حمایت یافتہ میڈیا خصوصاً بی بی سی، العربیہ، الجزیرہ وغیرہ نے شام کو مسلکی رنگت چڑھانے کی کوشش کی جبکہ وقت نے ثابت کیا کہ شام میں امریکہ و اسرائیل کو بدترین شکست کا سامنا ہوا اور فتح شامی عوام کی ہو ئی۔شام میں اہلسنت کے برجستہ علمائے دین کو شہید اور تاریخی اثاثوں کو منہدم کیا گیا،حتی داعش نے کئی مقامات پر صحابہ و دینی رہنماوں کو قبور کی بے حرمتی کی ۔اسی طرح یمن میں70%سنی شافعی اور 30% زیدی بے گناہ مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہانے والے آلسعود کیخلاف میڈیا اور عالمی اداروں کی آنکھوں پر سیاہ پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ عالم اسلام کے حکمرانوں نے کبھی سعودی عرب کے شاہ سے یہ جرات نہیں کی کہ کس جرم بے گناہ میں یمنیون پر حملہ کیا گیا جبکہ انسانیت کے بڑے دشمن ڈونلڈ ٹرنپ کو تحفوں سے نوازا جاتا ہے۔بحرین میں آل خلیفہ کے ہاتھوں امریکہ و اسرائیل کی پشت پناہی میں جو خونریزی کا بازار گرم ہے اس کی مثال کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ استعماری حمایت یافتہ میڈیا مختلف طریقے سے مسلمان ممالک کے اندر جنگ لڑرہا ہے اور جھوٹی کہانیاں گھاڑ کر عوام میں ایک دوسرے کیخلاف نفرت اور کدورت بڑھانے میں اہم کردار نبھاتا ہے۔’’صحافت‘‘ جمہوریت کا چوتھا ستون کہلاتا ہے اور اصل ذمہ داری عوام کی صحیح رہنمائی اور سماج کو خرافات و برائیوں سے پاک کرنا ہے جس سے ایک مضبوط قوم کی تشکیل یقینی ہے۔
مظاہروں کا آغاز سب سے پہلے ایران کے شہر مشہد مقدس سے ہوا کہ درجنوں افراد نے مہنگائی اور بیروزگای کے خلاف دھرنے کا اہتمام کیا۔ مہنگائی کے خلاف ہونے والے مظاہرے کچھ ہی دنوں کے اندر ایران کے مختلف شہروں میں پھیل گئے۔ یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی کی سربراہی والی حکومت نے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کی بات کی۔ موجودہ دام ایرانی کرنسی کے مطابق فی لٹر پڑول ایک ہزار تومان (تقریبا 20روپیہ انڈین) ہے جبکہ موجودہ حکومت کا ارادہ تھا کہ اس کو بڑھا کر ایک ہزار پانچ سو تومان (30 روپیہ انڈین) کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ روزمرہ استعمال کی اشیاء میں بھی مہنگائی کی گئی مخصوصا انڈوں کی قیمت تو دگنی ہو گئی۔ان مسائل کے تناظر میں مختلف شہروں میں مہنگائی کیخلاف مظاہرے شروع ہوگئے۔یہ مسائل طبعی ہیں اور ہر ملک میں عوام اپنے جائز مطالبات کو لیکر احتجاج کرنے کا حق رکھتی ہے۔یہاں گرانی اور بیروزگاری کیخلاف مظاہرین کی تعداد کم تھی لیکن شرپسند عناصر اس فرصت کی تلاش میں تھے کہ کب مظاہروں کو متشدد بنایا جائے۔ اگر خلوص کیساتھ مہنگائی پر احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کیاہوتا تو ایران کے 8کروڑ آبادی سڑکوں پر نکل آتے جیسا کہ رہبر معظم و مراجع اعظام نے کئی بار عوام کی جائز مانگوں کو پورا کرنے پر حکومت پر زور دیا۔ایرانی قانون کے مطابق عوام کو احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے جو کہ فتنہ آرائی سے پاک ہو۔قرآن نے اسلام کے دشمنوں کو احمق قرار دیا ہے۔ان مظاہرین نے مہنگائی کے بجائے نظام کیخلاف نعرہ بلند کئے اور پلے کارڈس پر جو اشعا ر درج تھے ان میں ’’ نہ عزہ و نہ لبنان، جانم فدای ایران‘‘ اور’’ نہ اسلام و نہ قران جانم فدای ایران‘‘ وغیرہ جس کے معنی ہمیں نہ فلسطین چاہیے نہ حزب اللہ، ہمیں ایران عزیز چاہیے اور ہمیں نہ اسلام چاہیے نہ قرآن بلکہ فقط ایران۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے ایران میں سبھی ادیان آسمانی کو اپنے دین کے تبلیغ کی اجازت حاصل ہے البتہ انتہائی کم تعداد میں استعماری فرقہ ’’بھائی‘‘ کو یہاں کسی بھی قسم کی مذہبی آزادی نہیں ۔اس کے علاوہ دوسرے طبقہ جو شیعوں میں یہاں منافقین کہلاتا جن کے حامی مختلف یورپی ممالک میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور امریکہ واسرائیل ان کی سخت حوصلہ افزائی اور مدد کرتا ہے ۔تاہم ایرانی قوانین کے مطابق سبھی شہریوں کو برابری کی سطح پر زندگی گذارنے کا حق حاصل ہے۔
ہفتے کے روز پیش آنے والے واقعات میں ایک چیز مشترک تھی کہ احتجاج کے دوران حکومتی معاشی پالیسیوں کو نشانہ بنانے کے بجائے نظام کو نشانہ بنایا گیا۔یہ ریلیاں بنا کسی لیڈر کے مارچ کر رہے تھے اور یوں کہا جائے بے لگام گھوڑے کے مانند۔۔ کئی مقامات پر مساجد اور امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا گیا ، کئی شہروں میں سرکاری و عوامی املاک کو نذر آتش کیا گیا اور مذہبی مقدسات کی توہین بھی کی گئی۔
خیراس نقشہ کو بہتر انداز میں سمجھنے کیلئے کچھ باتوں کی طرف توجہ دینا لازم ہے۔اول یہ کہ مظاہرین کی تعداد 2009ء کے تہران کے مظاہروں سے کہیں کم تھی۔ایران تاریخ سال 1388 شمسی کے مطابق (2009ء) میں تہران میں ہونے والے مظاہروں جو احمدی نژاد کے دوسری بار جیتنے کیخلاف اٹھے تھے، لیکن بعد میں پرتشدد کارروائیاں سامنے آئیں، عناصر کی طرف سے روز عاشورہ کی توہین کی گئی جس کے باعث عام عوام نے شرکت سے معذرت کرلی اور گھروں میں بیٹھ گئے تھے اور فتنہ گروں سے برائت کا اعلان کیا۔اتفاق سے یہ مظاہرے ایسی تاریخوں میں پیش آئے جب ایرانی قوم سال 1388یعنی 2009ء میں پیش آئے فتنہ آرائی کی شکست کی سالگرہ منا رہے تھے۔ اسی طرح سال 1377میں بھی پرتشد واقعہ پیش آیا۔ان مظاہروں کی بڑے پیمانے پر کواریج میں یورپی، اسرائیلی اور عربی میڈیا پیش پیش رہا۔یہاں مشاہدہ کیا گیا ویب سائٹس اور تیلی گرام پر کئی گروہ بنائے گئے تھے جن کی مدیریت خارج از ایران انجام دی جاتی ہے۔تازہ رپورٹ کے مطابق روس کے ایک یہودی جنہوں نے حالیہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن ہاہو سے ملاقات کی تھی ایک ٹیلی گرام گروہ کے مدیر تھے جو نظام کیخلاف منفی پروپگنڈہ میں مصروف عمل تھا اور آن لائن ’’پیڑول بمب‘‘ بنانے کی ٹرینگ دے رہا تھا جس کے بعد ایران حکومت نے ٹیلی گرام اور دیگر کئی سماجی ویب سایٹوں پر عارضی پابندی لگا دی۔کبھی کبھی ہنسنا اور کبھی رونا آتا ہے ذرائع ابلاغ کے مسؤلین کی حرکتوں پر کہ کاپی پیسٹ کرتے وقت یہ بھی خیال نہیں رکھتے کہ خبر میں متن نظام کا خلاف نقل ہوا ہے پر تصویر نظام کے حق میں چاپ ہوئی ہے۔یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ مصر کے حالیہ دھماکے میں ہلاک شدگان کی تصویر پر عبارت لکھ کر اسے ایران کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ایک عربی ٹی وی ویژن چینل نے فلم 2009ء کی نمایش کی اور خبر میں بیان کیا کہ ایران میں پولیس وسیکورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر جنایت انجام دی۔ایران پلیس و سپاہ نے جس صبر، استقامت اور دوراندیشی کا مظاہرہ کیا اس کیلئے واقعا سلام اور تحسین کے حقدار ہی۔ ایرانی قانون کے مطابق پولیس عوامی دھرنوں میں دخالت نہیں کرسکتی تاہم فتنہ گرائی کے نسبت دفاع ضروری ثابت ہے ۔بلوائیوں نے کئی مقامات پر پولیس چوکیوں پر حملہ کرکے اسلحہ چھیننے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں پولیس کو طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔کئی مقامات پر فتنہ گروں نے اسلحہ ہاتھوں میں لیکر پولیس کو نشانہ بنایا۔ٹیلی گرام کے ذریعہ منفی اور جھوٹا پروپیگنڈہ جس انداز سے گردش کررہا تھا انسانی عقل حیرت میں رہ جاتی ہے۔ میں ایران کے شہر مقدس قم کے خیابان بلوار امینﷺ میں ساکن ہوں اور یہاں 30دسمبر2017کے حوالے سے ٹیلی گرام پر افواہیں عام تھی کہ شام 6بجے سے پورے شاہراہ کو بلاک کیا جائے گا اور کس بھی گاڑی کو چلنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ کچھ ایرانی دوستوں نے دھرنوں کے نزدیک نہ جانے کی سفارش کی کیونکہ احتمال فتنہ گر نشانہ بنالیں چونکہ کشمیری ہوں اور جنم نامساعد حالات و مظاہروں کے بیچ ہوا ہے، شام نماز کی ادائیگی کے بعد شاہدالحسینی نامی دوست کے ہمراہ حرکت شروع کی اور پیدل حرم حضرت فاطمہ معصومہ (س) پہنچ گئے۔کئی کلومیٹر کے سفر کے دوران ہم نے کسی بھی قسم کا کوئی مظاہرہ دیکھنے کو نہ ملا اور میرے دوست نے مجھ سے سوال کیا شاید غلط خبر ہے تاہم واپسی آتے ہوئے شام 8 بجے کے نزدیک زنبل آباد کے قریب درجنوں کی تعداد میں افراد کو نعرہ بازی کرتے ہوئے دیکھا جواول مہنگائی اور پھر نظام کیخلاف نعر بلند کررہے تھے۔ پولیس نے انہیں گھیرے میں لیتے ہوئے ایک طرف محدود کر رکھا تھا اور دوسری طرف ٹریفک، کاروبار وغیرہ معمول کی طرح چل رہا تھا۔اتنے احتجاج کرنے والے نہ ملے جتنے تماشا گیر موجود تھے جو ان کی ’’ایکٹنگ‘‘ کو دیکھ رہے اور ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے یہ فتنہ گر ہیں اور خدا ہمارے سربازوں(پولیس اہلکاروں) کی حفاظت فرمائے۔
ایک رفیق نے واقعہ نقل کیا کہ 30دسمبر کے روز تہران سے ایک جوان قم دھرنے میں شرکت کی غرض سے آیا تھا اور یہاں شاہراہ پر چلتی گاڑیوں سے لفٹ مانگ رہا تھا کہ اچانک ایک گاڑی والے نے اسے سوار کیا۔راستے میں پوچھا کہاں جانا چاہتے ہوں کہ جوان نے در جواب کہا ’’فلک بستنی‘‘جو زنبل آباد میں ایک مشہور’’آئیس کریم پارلر‘‘ ہے۔گاڑی والا متوجہ ہوا کہ جوان ناشاسا ہے اور جوان بڑی جلدی اپنی منزل پہنچنے کیلئے فکر مند تھا ۔خوف اور گھبراہٹ کے سایہ میں جوان نے کہا کہ مہنگائی اور بیروزگای پر احتجاج ہونے والا ہے جہاں پہنچنے لازم ہے ۔جوان سے پوچھ تاچھ کی گئی اور اس نے کہا 200تومان دئے گئے تھے صرف اس لئے کہ احتجاج میں شرکت کرلوں جبکہ معلوم نہیں یہاں کیا ہو نے والا ہے؟
ایک اور دلچسپ بات یہ کہ امریکا اور اسرائیل نے بنا کسی تاخیر فتنہ گروں کو حق اور اپنی ہمدردی کا اعلان کیا۔ اگر فی الفرض مہنگائی پر احتجاج ہورہا تھا جو کہ ہر ممالک کے حسب معمول ہے۔امریکی صدر ڈڈنلڈ ٹرمپ اور صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو بے چینی کیسی پائی جاتی تھی؟مسٹر ٹرمپ شاید بھول گئے کہ صدر بننے کے فوراً مسلمان ممالک کے شہریوں پر امریکہ کے داخل ہونے پر پابندہ عاید ہونے والوں میں ایران سر فہرست تھا۔دوسری جانب اسرائیل حکومت فتنہ گروں کی حوصلہ افزائی کی اور زور دیا اسلامی نظام کے خاتمے میں ہی ایران ترقی کر سکتا ہے۔اس دوران سپاہ پاسداران کے چیف کے مطابق تین سے چار روز میں ہونے والے تمام مظاہرین کے تعداد کل ملاکر 15000 ہزار تک بتائی گئی اور حکومت نے اعلان کیا کہ ان سے اب سختی کیساتھ نپٹا جائیگا۔
رہبر معظم امام خامنہ نے ملت سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ کوئی میرے خلاف نعرہ لگائے یا میری تصویر کی اہانت کرے ؟آپ صبر کا مظاہرہ کریں کیونکہ یہ لوگ ناداں اور بی بصیرت ہیں۔اپنی قوت کو دشمن کی شکست کیلئے استعمال کریں ،یقیناًامت مسلمہ اسرائیل کی نابود اور فلسطین کی آزادی کا مشاہدہ کریگی ۔
ایرانی عوام نے بصیرت کے بدولت فتنہ گروں سے برائت اور نظام ولایت فقیہ سے تجدید و وابستگی کا اعلان کرتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں سبھی شہروں میں ریلیاں نکالیں اور واضح کر دیا ہم اسلامی نظام کی حفاظت اور دنیابھر کے مظلوموں کی حمایت کرنے سے دستبردار نہیں ہونگے۔امریکہ ،اسرائیل و اس کے ہمنوا اگر جتنی بھی سازشیں اور منصوبے بنائیں گے ہم اپنے رہبرامام خامنہ ای و مراجع اعظام کی قیادت میں فتح کا پرچم بلند اور باطل کو شکست سے دوچار کرینگے ۔عالمی میڈیا کو چاہیے ان ریلیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے منفی پروپگنڈا کی روش کو خیر آباد کہیں کریں کیونکہ قرآن کریم کے سورہ حجرات کی آیہ 6میں ارشاد فرماتے ہیں:

اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو۔
امت مسلمہ ایک جسم کے مانند ہے اور اگرایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورے جسم میں درد محسوس ہونا چاہیے۔اگر علمائے کرام، دانشورو صحافی حضرات ، جوانان اور عوام اپنی طاقت و قابلیت کو امت و انسانیت کی فلاح کیلئے مثبت انداز میں استعمال کریں تو دشمن جرات نہیں کریگا مسلمان ممالک کے اندر مداخلت کرنے کی اور ہمارے وسائل بھی ہمارے ہاتھ باقی محفوظ رہیں گے ۔
آخر پر تاریخی اسلام کا ایک واقعہ نقل کرتا ہوں جو ہم سب کیلئے ہر زمانے میں جہالت سے نکلنے کا وسیلہ ثابت ہو سکتا ہے کہ جب امیر المومنین امام علی بن ابیطالب (ع) کو مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا تو شام میں یہ سخن عام تھی کہ علی مسجد میں کیا کر رہا تھا ؟کیا علی بھی نماز پڑتا تھا؟اس زمانے میں نہ انٹرنیٹ تھا اور نہ ٹیلی گرام، وٹس ایپ ، فیس بک وغیرہ کہ لمحوں میں جہان کے حالات اور و اقعات ایک جگہ سے دوسری جگہ نشر و منتقل ہوتے ہیں۔وہ علی ؑ جو پیغمبروںؐکے دوشہ مبارک پر سوار ہوکر مکہ میں بت گراتا ہے اور غدیر خم کا مولا قرار پایا ،جب منفی پروپگنڈہ امام علی ؑ جیسی شخصیت کیخلاف دہن بہ دہن اثر ڈال سکتی ہے تو آج کے دور میں منفی پروپگنڈہ کیوں نہیں؟والسلام
مقالہ نگار المصطفی ؐ انٹرنیشنل یونیورسٹی حوزہ علمیہ قم میں دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ’’ولایت ٹائمز‘‘ کے ڈائریکٹر و مدیر اعلیٰ ہیں۔ای میل: impressionist23@gmail.com