نہ جانے کب یہ خونی کھیل بند ہوگا!

یہاں امن کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، علم و دانش کومفادات کیلئے بیچا جاتاہے، اتحاد کے بجائے تفرقہ سکھایا جاتا ہے،پتھر اٹھانے پر گولیاں و پیلٹ چلائے جاتے ہیں،لیڈران قوم کو روشنی دکھانے کے بجائے چراغوں کو بجھانے میں آگے آگے نظر آتے ہیں،قدرتی وسائل کے تحفظ کے بجائے چور بازار ی کی منڈی لگائی جاتی ہے ،ثقافت کی تشہیر کے بجائے مغربی ثقافت کو عام کیا جاتا ہے، ترقی کے نام پر پسماندگی سیکھائی جاتی ہے،جوانوں کے ہاتھوں میں قلم کے بجائے بندوق تھمائی جاتی ہے۔
تحریر:مدیر اعلیٰ
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر روئے زمین پر کہیں جنت ہے تو کشمیر ہے۔وادی کشمیربیشمار قدرتی وسائل ، خوبصورتی اور ثقافت سے مالامال ہے اور جب بھی کوئی پہلی بار کشمیر کا دورہ کرتا ہے تو واپس نہ لوٹنے کا شوق بنا لیتا ہے مگر سرحدوں کی لیکیروں نے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر کے ہمارے وجود کو محدود بنارکھا ہے۔ایک لمبے عرصے سے جنت کہلانی والی وادی خون میں لت پت ہے اور کوئی پرسان حال نہیں۔یہ وادی روز اول سے ہی بیرونی سازش کا شکار بنی ہوئی ہے۔جب دنیا کے کسی بھی خطے پر نظر پڑتی ہے تو ظلم کے سوا کچھ نظرنہیں آتا ہے چاہیے وہ شام ہو،یمن ہو، فلسطین ہو ، برما ہو بحرین ہو، افغانستان ہو، عراق ہو ، پاکستان ہو یا کشمیر وغیرہ ۔اولاد آدم ایک دوسرے سے اس قدر کٹ گئے ہیں کہ ہم ایک دوسری کی خبر تک نہیں لیتے ۔کشمیر بھی دنیا سے اس قدر جدا ہوا کہ دور دور دور تک کشمیریوں کی صدائیں نالاں نہیں پہنچتی ۔یہاں امن کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، علم و دانش کومفادات کیلئے بیچا جاتاہے، اتحاد کے بجائے تفرقہ سکھایا جاتا ہے،پتھر اٹھانے پر گولیاں و پیلٹ چلائے جاتے ہیں،لیڈران قوم کو روشنی دکھانے کے بجائے چراغوں کو بجھانے میں آگے آگے نظر آتے ہیں،قدرتی وسائل کے تحفظ کے بجائے چور بازار ی کی منڈی لگائی جاتی ہے ،ثقافت کی تشہیر کے بجائے مغربی ثقافت کو عام کیا جاتا ہے، ترقی کے نام پر پسماندگی سیکھائی جاتی ہے،جوانوں کے ہاتھوں میں قلم کے بجائے بندوق تھمائی جاتی ہے۔قوم کو بیدار کرنے کے بجائے ہڑتالوں کی عادت سے سلایا جاتا ہے ۔غریب کو مزید غریب بنا کر امیر ،امیر ترین بن رہا ہے خیر بہت کچھ ہوتا ہے جسے یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔یہ ظلم ، استحصال اور جبرہابیل و قابیل کے زمانے سے شروع ہوا اور مظلوم ظالم کے مقابل سامنے آیا۔ہم سے پہلے قوموں نے انبیاء کو قتل کیا اور امت نے پیغمبر آخر الزمان (ص) کی اہلبیت ؑ کو بھی نہ بخش دیا، ظلم کے تمام ریکارڈ توڑ کر تاریخ اسلام کے صفحات کو خونی کر دیا۔ہر بنی نوع انسان کا عقیدہ یہ ہے کہ ایک منجی آئیں گے اور دنیا عدل و انصاف سے پُر ہوگی،ظالم کے ظلم کا خاتمہ ہوگا اور مظلوم کو اس کا حق ملے گا،امیر و غریب میں فرق مٹ جائیگااورحضرت سبھی کو ہدایت کی طرف دعوت دیکر ایک خالص معاشرہ کی بنیاد ڈالیں گے ۔ہر یک آپ جناب کا منتظر ہے گویا مسلمان ہو یا غیر مسلمان ۔ وہ بھی ہماری آمادگی کیلئے انتظار کی گھڑیاں گزار رہے ہیں ۔ہم سے زیادہ اس ستم و جبر سے انہیں تکلیف پہنچتی ہوگی ۔خیر خدا ہی بہتر جانتا ہے کب آپ جناب کو اجازت ملے گی پردہ ہٹانے کی۔ان کی غیر موجودگی میں اس دور کے علمائے دین، لیڈڑان، قلمکاروں، استاتید، دانشوروں اور سماج سے جڑے ہر فرد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے ظلم کو مٹانے انسانیت کے دفاع کیلئے اپناکردار ادا کریں ۔ باطل کیخلاف حق کی صدیو ں پرانی شروع کی گئی تحریک کو آگے لیجائیں۔ اس قوم کی کامیابی یقینی ہے جس کیی تحریک منافقت، مفادات، اور ڈکٹیشن سے پاک ہو اوررہبران کسی کا ایجنٹ بننے کے بجائے اپنی قوم کا ایجنٹ بن کر مضبوط لائحہ عمل مرتب دیکر قوم کی ترجمانی کریں اور ملت کا ہر فرد اپنی ذمہہ داریوں کا احساس بھی جان لینگے ہے۔