کالے بادل پہلے سے نظر آرہے تھے

اب جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔شایدہندوستان اور پاکستان کی تقدیر میں یہ لکھا ہے کہ جنگ کے بعد صلح وسمجھوتہ اورمذاکرات کی ناکامی کے بعد ایک اور دور کی شروعات کی خاطر کوشش جاری رکھنا۔پاک بھارت قومی سلامتی مشیروں کے مابین ملاقات پر اس وقت پردہ گرا دیا گیا جب نئی دہلی میں مرکزی وزیر شسما سوراج اور پاکستانی وزیر سرتاج عزیز نے اسلام آباد میں ہنگامی پریس کانفرنسز کے دوران بھارت میں ہونے والی ہند پاک مشروں کی مجوزہ کانفرنس کو سپوتاژ کرنے کیلئے ایک دوسرے پر الزامات عائد کئے ۔دونوں کے لبوں پر ’’نرم‘‘الفاظ میں شرارت نظر آرہی تھی لیکن ساتھ ہی دونوں ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کرتے تھے۔برصغیر کی تقسیم اور ہند پاک کی آزادی کے بعد مسئلہ کشمیر نے دونوں ملکوں کو چین سے سونے نہیں دیا بلکہ اکثر و بیشتر بہتر تعلقات بنتے بنتے کبھی سرحدی تناؤ یا کبھی انکاونٹر پیش کی وجہ سے ملتوی ہوئے ۔شہر اوفا میں ہند پاک وزرائے اعظم ملاقات میںلفظ ’’کشمیر‘‘ کہیں نظر نہیں آیا جس کے بعد اہل کشمیر اور پاکستانی قوم نے سخت ناراضگی اور افسوس کا اظہار کیا۔اب کی بار کشمیر ہی خبروں کی سرخیوں میں چھایا رہا اورپاکستان نے حریت رہنماوں کو الگ الگ دعوتیں دیکر انہیں نئی دہلی پہنچنے کی تلقین کی۔مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستانی قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز تو نئی دہلی نہ پہنچ سکے لیکن حریت کے کئی لیڈران نے سرزمین ہند پر قدم رکھے جس کے فوراً بعد انہیں وہاں نظر بند رکھا گیا۔ہند پاک کے درمیان اگرچہ تلخی بڑھ گئی مگر وہ دوریاں مٹ رہی ہیں جو ماضی میں دونوں کے درمیان پائی جاتی تھی ۔مذاکرات تب تک ثمر آور ثابت نہیں ہونگے جب تک دونوں ممالک خلوص نیت کےساتھ مسئلہ کشمیر اور دوسرے تمام مسائل کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں گے۔

24ااگست2015