کربلا عالم انسانیت کیلئے ایک بہترین درسگاہ؛جناب زینب (س) ایک چنندہ خاتون تھیں جس کی بدولت ہی اسلام محمدی ؐ اور کربلا زندہ رہا؛ امام خمینیؒ اتحاد امت کے پہلے نقیب:سفینہ بیگ

پی ڈی پی کی خواتین ونگ کی سربراہ ،معروف وکیل اور خاتون سیاست داں محترمہ سفینہ بیگ نے ’’ولایت ٹائمز ‘‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر میم افضل کے ساتھ ایک خصوصی انٹریو کے دوران انقلاب کربلا ، حضرت زینب ؑ کا رول ،انقلاب ایران اور سیاست میں خواتین کے رول کے متعلق موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ قارئین کی خدمت میں پیش ہیں اس گفتگو کے چند اہم اقتباسات:

سوال: کربلا کے انقلاب سے آپ کس حد تک متاثر ہیں؟
جواب: کربلا کے سانحہ کو ہم ایک واقعہ کی حد تک محدود نہیں رکھ سکتے۔ میری یہ سوچ ہے کہ جس وقت یہ انقلاب رونما ہوا اور جن حالات میں یہ واقعہ پیش آیا ان کی رو سے یہ کوئی طاقت کی جنگ نہیں تھی۔ کوئی یہ سوچے گا کہ یذید کو ہٹاکے امام حسین ؑ اقتدار کو حاصل کرنا چاہتے تھے یہ سب اس حد تک محدود نہیں تھا۔ واقعہ کربلا کو مطالعہ کرنے کے بعد یہی عیان ہوتا ہے کہ یذید نیایک الگ قسم کا اسلام شروع کردیا تھا۔یہ لوگ ظاہری طور دین پرستی کا دکھاوا اوردعویٰ کرتے تھے مگر حقیقت میں دین اسلام سے کافی دور تھے۔ظاہراً وہ قرآن کی تلاوت بھی کرتے تھے مگر اس میں اخلاص نہیں ہوتا تھا،مسلمانوں کے دل و دماغ کو ان کی طرف راغب کرنے کیلئے دکھاوٹی نمازیں بھی ادا کرتے تھے اور آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰؐ کو بھی ظاہراً مانتے تھے مگر دل سے وہ پیغمبر آخر الزمان ؐکی تائید بھی نہیں کرتے تھے۔ وہ لوگوں میں یقین پیدا کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کے متعلق کوئی شک وشبہ نہ رہے۔پیغمبر اکرمؐ جو پیغام پروردگار عالم سے لے کر آئے تھے یزید اس کی تبلیغ و تشہیر اور عمل آوری میں ایک رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے تھے۔ کربلا میں امام حسین ؑ اور ان کے رفقا کی شہادتوں نے ان حائل رکاوٹوں کا خاتمہ کرکے یذید کے بتائے ہوئے دین کے منافی اصول و عقائد کا قلع قمع کردیا۔ میدان کربلا میں سب جانتے تھے کہ اس جنگ کا نتیجہ کیا ہونے والا تھا کیونکہ ایک طرف لاکھوں کی تعداد میں یزیدی لشکر جنگ کیلئے تیار تھی اور دوسری طرف امام حسین ؑ کو صرف 71 رفقاء کی حمایت حاصل تھی۔امام عالی مقام کے ہمراہ آپ کے مقدس خانوادے کی خواتین بھی ہیں وہ بھی قربانی پیش کرنے کیلئے تیار ہیں اور انہیں یہ بخوبی یہ معلوم ہے کہ یہ قربانی کس بڑے مقصد کے حصول کیلئے دی جارہی ہے۔واقعہ کربلا عالم انسانیت کو کئی دروس سے مستفید کرتا ہے۔ کربلا ہمیں حقیقی اسلام، صبرو استقلال، جذبہ ایثار و قربانی، امن وامان، انصاف پسندی، اخوت اور بھائی چارگی سے کما حقہ آشنا کراتاہے۔
سوال: اسلام انسانیت کی انتہا ہے اور حضرت امام حسین ؑ نے جو یزیدکے خلاف اسٹینڈلیاتو انہوں نے حق اور باطل کے درمیان خط فاصل کھینچ لیا۔اس کو آپ کیسے دیکھتی ہیں ؟
جواب: جو قربانی امام حسین ؑ اور افراد خانہ نے پیش کی وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی قربانی کسی اور سے بھی لے سکتا تھا مگر سمجھنا یہ ہے کہ انہیں نواسہ رسول ؐ کی قربانی ہی کیوں پسند آئی۔ امام حسین ؑ اور ان کے اقرباء کے ذریعہ ہی دین اسلام زندہ رہ سکتا تھا۔ حق و حقیقت کو زندہ و جاویداں رکھنے کیلئے نواسہ رسول ؐ کی قربانی رنگ لائی اور دین اسلام کی صحیح اندازمیں تبلیغ و تشہیر ہوئی۔اور اسلام کی روح زندہ رہی۔کربلا میں جس طرح امام ؑ کو شہید کیا گیا وہ رہتی دنیا تک تمام مدبر ،باشعور اور باضمیر لوگوں کے دلوں میں خیمہ زن رہ کر ان کی آنکھوں کو اشک بار بھی کرتا رہے گا اور انہیں حق اور صداقت کا شیدائی بھی بناتا رہے گا۔ مختصر میں یہ کہوں گی کہ کربلا میں امام عالی مقام ؑ اور آپؑ کے اعوان وانصار نے حق وانصاف کی سر بلندی کیلئے بیش بہا قربانی پیش کی۔
سوال: جناب زینب سلام اللہ علیھا جو ثانی الزہرا اور شریکۃ الحسین کے القاب سے مشہور ہیں نے مصائب و آلام برداشت کئے۔ آج کے اس جدید دنیا میں جناب زینب کے کردار کی کیا اہمیت ہے؟
جواب: حضرت زینب (س) کا رول صرف ایک خاص مذہب کے ساتھ محدود نہیں ہے بلکہ آپ کا کردار پوری انسانیت کیلئے مشعل راہ بھی ہے اور سودمند بھی۔انسانیت کی بقاء کیلئے جناب زینب سلام اللہ علیھا کے کلیدی کردار کو الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔میں آپ(س) کے رول کے حوالے سیکربلا سے پہلے بھی اور اس واقعہ کے انجام پذیر ہونے کے بعد بھی مختصر روشنی ڈالنا چاہوں گی۔سب سے بڑی بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مسلمان نہ صرف شیعہ سنی فرقوں میں منقسم ہوچکے ہیں بلکہ فرقوں میں بھی نئے نئے فرقے وجود میں آرہے ہیں۔ جناب زینب (س) تمام انسانیت کیلئے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں۔جناب زینب(س) جب دنیا میں آئی تھیں تو پیغبر اسلام نے جبرائیل سے پوچھا کہ بچی کا کیا نام رکھا جائے جس پر اللہ تعالیٰ سے حکم صادر ہوا کہ اس کا نام زینب رکھا جائے۔ تاریخی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ وہ ایک چنندہ خاتون تھیں جس کو پروردگار عالم نے چن کر بحیثیت نمایندہ پیدا کیا تھا۔جب جناب زینب(س) کی عمر چھ سال کی تھی تو آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ آپ(س) نے اپنے والد امیرالمومنین علی ابن ابیطالب ؑ کی خصوصیات کو اپنے وجود میں درک کیا تھا اور آپ رفتار اور گفتار میں اپنے والد محترم کی تمثیل تھی۔لیکن میرا ماننا ہے کہ آپ(س) میں جو لیڈر شپ کوالیٹیز تھیں وہ آپ(س) نے اپنی والدہ حضرت فاطمۃ الزہرا(س) سے سیکھی تھیں۔آپ (س) نے اپنی والدہ محترمہ کی تقریروں سے متاثر ہوئی تھی۔آپ (س) نے اپنی والدہ کو سیاسی طور متحرک دیکھا اور کسی بھی قسم کی ظلم وزیادتی کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے دیکھا۔ آج ہم جو کہتے ہیں کہ عورتوں کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ان کا کام صرف کچن تک محدود ہے لیکن جناب زینب (س) نے یہ تحریک پیش کی کہ ایک عورت سماج میں سیاسی طور ایک متحرک رول ادا کرکے معاشرے کو ایک مثالی معاشرہ بناسکتی ہے۔ جناب زینب (س) کی پرورش خاتون جنت حضرت زہرآ نے کی تھی اور وہ انسانیت کیلئے اپنی ذمہ داریوں کو انجام دینے کیلئے اپنے نیک صفات اور مخلص بھائی کے ہمراہ ہوچکی تھی۔ حضرت زہرا(س) نے جناب زینب(س) کو بچپن سے ہی سیاسی، سماجی اور روحانی تربیت سے روشناس کرادیا تھا۔ جناب زینب (س) عورتوں کو قرآنی تعلیمات کے ساتھ بنیادی اصولوں سے آگاہ کرتی تھی۔ جو مصائب و آلام جناب زینب(س) نے برداشت کئے اور جس صبر کا اس عظمت والی شخصیت نے مظاہرہ کیا اس کی مثال تاریخ اسلام میں کہیں نہیں مل سکتی۔ جناب زینب(س) کی بدولت ہی کربلا کی حقیقت دنیا کے سامنے آگئی اور اما م عالی مقام ؑ کا پیغام دنیا میں پہنچ گیا اور زندہ وجاوید بھی رہا۔میری فکر کے مطابق اسلام ایک لبرل مذہب ہے اور ہمیں حقیقی معنوں میں انسانی زندگی گزر بسر کرنے کی تاکید بھی کرتا ہے اور تربیت بھی۔ مختصر یہ کہ حضرت زینب(س) صبرو استقامت ، حق و صداقت، ذہانت و ذکاوت اور وقار و عظمت کی پیکر ہیں۔
سوال: یزید کے دربار میں جناب زینب(س) نے ایک شاندار خطبہ دیا جو ایک سٹینڈ ہے ظلم و بربریت کے خلاف۔اس کو آپ کس طرح دیکھتی ہیں؟
جواب: آج کل کے زمانے میں بھی عورتیں قیادت کی باگ ڈور سنبھالنے کے متعلق متذبذب ہیں۔ مسلمان ممالک میں ایسی عورتیں آٹے میں نمک کے برابر ہیں جو لیڈر شپ کے میدان میں اترکر اپنے صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہیں۔ جناب زینب نے کربلا کے واقعہ کے بعد بھی جس ہمت کا مظاہرہ کیا مجھے نہیں لگتا کہ کوئی دنیا میں ایسا کارنامہ انجام دے سکتا ہے۔ عام انسان اس درد بھرے اور المناک واقعہ کو سن نہیں پاتا ہے۔ ہمیں خود اندازہ کرنا چاہیے کہ اتنے مظالم کے بعد بھی وہ ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہی۔ جناب زینب(س) نے کسی تلوار یا کوئی خطرناک ہتھیار یذید کے خلاف استعمال نہیں کئے بلکہ اس نے اپنے خطبوں اور کردار و عمل کے ذریعے اس وقت کے ظالم حکمرانوں کو شکست دے دی۔ تواریخ میں اس کی مثال نہیں مل سکتی جہاں ایسی شخصیت کا تذکرہ ہو جو اپنے بھائی کے کٹے ہوئے سر مبارک کے پاس شجاعت اور بہادری سے کھڑی ہو۔ جناب زینب(س) کا یذید کے دربار میں خطبہ دینا بذات خود یذید کی ہار تھی۔میرے خیال سے یزید کے محل و محفل میں حضرت زینب(س) کا وہ شاندار خطبہ یزید کی شکست و فاش کا بین ثبوت ہے اور حضرت زینب(س) کی فتح اور نصرت کا برملا اعلان ہے۔ جس طرح کہتے ہیں کہ کربلا میں امام حسین ؑ کے پرچم کا ہی حقیقی معنوں میں بول بالا رہا میں سمجھتی ہوں کہ کربلا سے پہلے اور کربلا کے بعد بھی حضرت زینب(س) کی شجاعت اور حقانیت کا بول بالا ہے۔ عالم اسلام و انسانیت کو سب سے زیادہ کنٹری بیوشن جناب زینب (س) کا ہی ہے۔
سوال: خواتین کا معاشرہ سازی میں اہم کردار ہوتا ہے۔ اس کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے۔
جواب: دیکھیے ، میں اس پر سماجی لحاظ سے بھی اور مذہبی لحاظ سے بھی بات کرنا چاہوں گی۔ پیغمبر اکرمؐ کے زمانے سے جو دین اسلام کی ترقی و ترویج ہوئی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ عرب میں عورتوں کے ساتھ برا سلوک ہوتا تھا۔ عورتوں کو زندہ دفنایا جاتا تھا۔ اس وقت عورت کو جو مقام حاصل ہے وہ صرف اور صرف اپنے مذہب سے حاصل ہوا ہے۔ دنیا میں ہر مذہب اچھائی کی دعوت دیتا ہے اور برائیوں سے دور رہنے کا درس دیتا ہے۔ آج کل جس انداز سے ہمارے مذہب دین اسلام کو پیش کیا جاتا ہے مجھے لگتا ہے کہ یہ ناانصافی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اس مذہب میں عورتوں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، کوئی کہتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔ لیکن آج عورت کو جو مقام حاصل ہے وہ صرف اسلام کی دین ہے۔اس طرح کے بیانات صرف اور صرف کذب بیانی ہے۔ دنیا میں مسلمان اسکالروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ حقیقی اسلام کی تصویر دنیا کے سامنے رکھیں۔ سماجی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اسلامی ممالک میں عورتوں کی اچھی خاصی رپرزنٹیشن ملے گی چاہے وہ طبی شعبہ ہو، ٹیکنالوجی کا شعبہ ہو یا اور کوئی شعبہ ہو۔میں ایران کی بات کرتی ہوں ایران میں جملہ شعبہ ہائے حیات میں خواتین کی نمایندگی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں کشمیر میں پریشان کْن حالات کی وجہ سے عورتیں سیاسی رول ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ باقی شعبوں میں عورتوں کی ریپریزنٹیشن ہے لیکن سیاست میں عورت کا رول یہاں محدود کیا گیا ہے۔ کشمیر کی سیاست کو دو تین چیزوں کے ساتھ جوڑا جاتا ہیجس کی وجہ سے عورتیں سیاست میں آنے سے کتراتی ہیں۔حالانکہ میرا ماننا ہے کہ سیاست میں عورت کا ہونا لازمی ہے۔ہمارے معاشرے ۰۵ فیصد آبادی عورتوں کی ہے لہذا فیصلہ سازی میں اگر ۰۵ نہیں ۰۳ فیصد ہی خواتین کا حصہ ہو تو معاشرہ میں خود بخود ایک تبدیلی رونما ہوگی۔ پالیسی میکنگ میں عورت کا ایک اہم رول ہوتا ہے۔ جب پالیسی سازی میں خواتین کا رول ہی نہیں ہوگا تو انسانی وسائل کو کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے اور جب انسانی وسائل ہی اچھی طرح سے استعمال میں نہیں لائے گئے تو ظاہر ہے کہ معاشرے پر منفی اثرات ہی مرتب ہونگے۔
سوال: ایک شورش زدہ علاقہ (Conflict Zone) میں سب سے زیادہ مسائل بلکہ مصائب خواتین کے ہوتے ہیں۔ظاہر ہے کہ متاثرہ خواتین کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ایک خاتون لیڈر کا ہونا ضروری ہے جو ان کے مسائل کو بہتر سمجھ سکتی ہے۔آپ کا اس کے متعلق کیا نظریہ ہے ؟
جواب: شورش زدہ (Conflict Zone) میں ایک عورت سب سے زیادہ مسائل و مشکلات سے دوچار ہوجاتی ہے۔ عورت کوصرف جسمانی طور پرتکلیف نہیں پہنچتی ہے بلکہ ایک عورت کو سب سے زیادہ نفسیاتی اور جذباتی طور پر ٹھیس پہنچتی ہے۔ تشدد کے ماحول میں ایک خاتون جو نفسیاتی طور پر نازک ہوتی ہے کے جذبات و احساسات چور چور ہوجاتے ہیں۔جب ایک خاتون تشددکی شکار ہوجاتی ہے مثال کے طور پر کسی کا شوہر مارا جاتا ہے تو اس کے گھر پر پانچ دس تک لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ اس کے اپنے گھر والے بھی کسی قسم کی مدد کیلئے نہیں آتے ہیں۔دوسروں کی بات ہی نہیں ہے۔یہ متاثرہ خاتون پھر اقتصادی ، نفسیاتی، جذباتی بلکہ جسمانی طور پر بھی محتاج ہوجاتی ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ نوے کی دہائی سے آج تک جو ہمارے یہاں حالات رہے ان حالات کا سب سے زیادہ خمیازہ عورت کو بگھتنا پڑا۔لیکن بدقسمتی سے یہاں کسی نے عورت کی پریشانیوں کی طرف توجہ نہیں کی۔ نہ ہی کسی سیاسی جماعت ، حکومت نے خواتین کے مسائل کے حل کے حوالے سے موثر اقدام کئے اور نہ ہی سول سوسائٹی اس حساس معاملے کی طرف متوجہ ہوئی۔بلکہ میرے خیال میں تو کسی نے کبھی اس کے متعلق ذکر تک نہیں کیا۔ کون پوچھتا ہے چاہے کوئی سیکورٹی اہلکار کی گولی سیمرے یا عسکریت پسندوں کی گولی سے، کسی کا شوہر مرے یا بیٹا اور جو پیلٹ گن وغیرہ سے زخمی ہوگئے ان کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ عورتوں کے اقتصادی مسائل کو خاص طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی زندگی میں تھوڑی بہت سہولیت آسکے۔یہاں خواہ کوئی بھی پارٹی برسر اقتدار آجائے اس حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ متاثرہ خواتین کیلئے ایک باضابطہ حکمت عملی مرتب کرے۔حکومت نے خواتین کی بہبودی کیلئے سوشل ویلفیر سیکٹر میں اسکیمیں متعارف کی ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت متاثرہ خواتین کو آئڈنٹی فائی (Identify) کرکے ان کی ہمہ گیر فلاح و بہبودی کیلئے ایک مخصوص پالیسی مرتب کرے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت متاثرہ خواتین کیلئے خصوصی کونسلنگ کا اہتمام کرے، ان کی بازآبادکاری کیلئے پالیسیاں بنائے اور ان کے علاج و معالجے کیلئے خصوصی لیڈی ڈاکٹروں کا اہتمام کرے۔ اس کیلئے بجٹ میں مخصوص فنڈس مختص رکھنے چاہیے۔نامساعد حالات کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں نفسیاتی بیماریوں کا گراف تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ہمارے نوجوان اور خواتین ڈپریشن کے شکار ہورہے ہیں۔جب ایک معاشرے میں جوان اور خواتین ڈپریشن کے دلدل میں پھنسے ہوں تو ایسے معاشرے کے حال کا خدا ہی حافظ ہے۔ہم اس چیز کو دانستہ یا نادانستہ طور پر نظر انداز کررہے ہیں ایسے میں سول سوسائٹی کا ایک اہم رول بنتا ہے کہ اگر وہ ہڑتال اور احتجاجوں سے زیادہ اس معاملے کی طرف متوجہ ہوں گے تو یہ ان کا معاشرے کیلئے سب سے بڑا کنٹریبیوشن (Contribution) ہوگا۔ ہمیں سماج کیلئے یک جٹ ہوکر کام کرنا چاہیے۔
سوال: نامساعد حالات کی وجہ سے ہمارے سماج میں (Half Widows) یا (Half Mothers) کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔آپ بحیثیت ایک لیڈر کے معاشرے کے اس بدنصیب اور بے کس طبقے کی بہبودی کیلئے کیا منصوبہ یا پروگرام رکھتی ہیں؟
جواب:دیکھیے ! میں اس پر ایک لیڈر کی حیثیت سے نہیں ایک خاتون کی حیثیت سے بات کروں گی۔بحیثیت ایک قوم اور ایک معاشرے کی اس حوالے سے ہم سب کی اپنی اپنی استطاعت کے تحت ذمہ داری بنتی ہے۔ ہمیں اپنی سیاسی آئیڈولوجی کو یکطرف رکھ کراس مسئلے کے حل کیلئے ایک ساتھ کھڑا رہنے کی ضرورت ہے۔ کیوں نہ ہم سیاسی اختلافات سے قطع نظر یک جٹ ہوکر اس پر کام کریں۔ہمیں اس معاملے پر مدد کیلئے دوسروں پر نظر نہیں رکھنی چاہیے اور نہ ہی اس معاملے کے حل کیلئے دوسروں سے امیدیں رکھنی چاہیے۔ہمیں دوسروں کے سہارے جینے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں ایسے انسانیت سوز معاملوں کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ کنن پوشپورہ کا سانحہ ہمارے لئے ایک سوال ہے؟ کیا اس سانحہ میں شکار لڑکیوں کے ساتھ ہمارے نوجوانوں میں سے کوئی شادی کیلئے تیار ہے؟ سب سے پہلے ہم نے ان کونظر انداز کرکے ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتنا شروع کیا۔یہ بات ڈر اور خوف کے باعث کہنے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ہم میں سے کوئی بھی ان بچیوں کو اپنانے کیلئے تیار نہیں ہے۔ہم دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یہ نہیں کیا گیا، وہ نہیں کیا گیا لیکن ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر یہ دیکھنا چاہیے کہ کشمیر میں ایسے کتنے نوجوان موجود ہیں جو ان سے شادی کرنے کیلئے تیار ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے منقسم ہونے سے ریاست جموں وکشمیر کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔سیاست سے قطع نظر ہمیں اس چیز کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تشدد مسائل کا حل نہیں۔مذہبی حوالے سے بھی دیکھا جائے تو تشدد کی کہیں بھی جگہ نہیں ہے۔تشدد سے مسائل الجھتے اور ابھرتے ہیں، سلجھتے نہیں ہے۔تشدد سے یہاں نہ صرف انسانی جانوں کا بے تحاشا زیاں ہوا بلکہ ہمارے معاشرے کے تانے بانے بھی بکھررہے ہیں۔اس طرح ہمارے سماج میں Half Widows رہ جائیں گی۔اپنے لوگ ان کا ہاتھ تھامنے کیلئے سامنے نہیں آئیں گے۔میں بحیثیت ایک انسان کے، سیاسی نظریہ سے قطع نظر، ہم فکر خواتین کے ساتھ اپروچ کروں گی اور معاشرے کی ان ستم رسیدہ خواتین کی فلاح و بہبودی اور بازآبادکاری کیلئے ایک منصوبہ بند مرتب کرنے کی کوشش کروں گی۔
سوال: انقلاب ایران امام خمینیؒ کی قیادت میں برپا ہوا تھا۔ آپ اس کو کس نظر سے دیکھتی ہیں؟
جواب: امام خمینی ؒ ایک ایسی قدآور اور نابغہ دہر شخصیت ہیں کہ میرے پاس آپؒ کی شخصیت پر روشنی ڈالنے کیلئے الفاظ ہی نہیں ہیں۔امام خمینیؒ کا انقلابات اسلامی میں کوئی ثانی نہیں ہے۔آپؒ کا ویژن بہت بڑا تھا اور آپؒ کسی بڑے Issue پر کام کرنا چاہتے تھے۔انقلاب اسلامی ایران کو جو لوگ ایران تک ہی محدود رکھتے ہیں میں اس سے بالکل بھی متفق نہیں ہوں۔شاہ کے زمانے میں ایران میں کمیونزم بڑھ رہا تھا لوگ اسلام کے بنیادی اصولوں سے دور ہوکر مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگے جارہے تھے تو اس وقت امام خمینیؒ کا مشن اور مقصد شاہ کو ہٹاکر اقتدار پر براجمان نہیں ہونا تھا بلکہ اسلامی اقدار و اصولوں کی تجدید نو کرکے اسلامی اصولوں کے تحت حکومت قائم کرنا تھا۔ امام خمینیؒ اسلامی حکومت کے قیام کے لئے میدان عمل میں محو جدوجہد تھے۔امام خمینیؒ صرف ایران میں ہی اسلامی حکومت کے قیام کے خواہان نہیں تھے بلکہ آپؒ کا ایک عالمگیر نظریہ تھا آپؒ ایک متحدہ اسلامی دنیا کے متمنی تھے۔ میں امام خمینیؒ سے کافی متاثر ہوں۔وہ تمام مسلمان ممالک میں اسلامی حکومت کا قیام چاہتے تھے۔ جو سٹینڈ امام خمینیؒ کا شروع سے رہا وہی آخر تک رہا۔ انہوں نے انسان کی سیاسی وسماجی ذمہ داری کو اسلامی قانون سے چلانے کی کوشش کی۔ وہ شریعت اسلامی کے مطابق حکومت تشکیل دینا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ایسے اشخاص حکومت کریں جو شرعی اعتبار سے قابل ہوں۔آپؒ چاہتے تھے کہ حکمرانوں میں انتظامی صلاحتیں موجود ہونی چاہیے اور اقتدار کی گدی پر ایسے لوگ براجمان ہونے چاہیے جو منصف مزاج ، مدبر ، دور اندیش اور رقیق القلب ہوں۔کیونکہ جب حکومت کی باگ ڈور ایسے حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہوگی تو سماج میں پنپ رہی تمام بدعات و برائیوں کا قلع قمع ہونا یقینی بن جائے گا اور ایک پرامن اور پرسکون معاشرہ معرض وجود میں آئے گا۔ بدقسمتی سے طاغوتی سازشوں کی وجہ سے ان کا مقصد ادھورا رہ گیا۔ امام خمینیؒ ایک روحانی شخصیت تھے جو جانتے تھے کہ مسلم دنیا عظیم طاقت بن کر ابھر سکتی ہے۔ کیونکہ مسلمان ممالک کے پاس وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں۔ جو وقت وہ مسلم دنیا کی یکجہتی میں صرف کرنا چاہتے تھے وہ ایران اور عراق کی جنگ میں برباد ہوگیا۔میں سمجھتی ہوں کہ اگر انقلاب کے بعد امام خمینیؒ کا وقت ایران و عراق جنگ میں ضائع نہ ہوجات تو آج اسلامی دنیا کی حالت اور تقدیر ہی الگ ہوتی۔امام خمینیؒ صرف ایک سیاسی رہنما نہیں تھے بلکہ آپ ایک بزرگ ترین روحانی شخصیت کے مالک تھے۔آپؒ کی بات ایک اثر رکھتی تھی لہذا دشمن جانتے تھے کہ امام خمینیؒ اسلامی دنیا کو متحد کرکے ایک طاقتور ترین عالمی طاقت بنا سکتا ہے۔لہذا آپ کے خلاف سازشیں کی گئیں تاکہ آپؒ کے منصوبے ناکام ہوجائیں۔آپؒ پر جنگ تھوپ دی گئی لیکن میں آپؒ کے اس دوراندیشی کی داد دیتی ہوں کہ آپ نے دانائی و وسعت نظری کا مظاہرہ کرکے اس جنگ کو جیت لیا۔آپؒ اتحاد و یکجہتی کے زبردست حامی و علمبردار تھے۔آپ جانتے تھے کہ دشمن مسلمانوں کو فرقوں میں بانٹنے پر کمر بستہ ہے۔آپؒ جانتے تھے کہ جب تک مسلمان متحد نہیں ہوجائیں گے تب تک ان کا استحصال جاری رہے گا۔کیونکہ دشمن مسلمانوں کو شیعہ سنی گروہوں میں بانٹ کر ان پر حکومت کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔امام خمینیؒ شیعہ سنی اتحاد کے علمبردار تھے اور آپؒ پہلی وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے اتحاد کا نعرہ بلند کرکے عالم اسلام کو ایک ہی پرچم کے تلے اکٹھا ہونے کی آواز بلند کی۔

سوال: خواتین کیلئے بالعموم کشمیری خواتین کیلئے بالخصوص آپ کا کیا پیغام ہے؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے عورت کو مرد کے لحاظ سے بہت ساری خصوصیات سے نوازا ہے۔ ایک عورت ماں، بہن اور بیوی کا کردار دنیا میں ادا کرتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے عورت کو صبرواستقامت اور رحم دلی کی خصوصیات سے نوازا ہے۔ عورت کو اپنا رول محدود نہیں رکھنا چاہیے۔ عورت خواہ وہ کسی بھی پیشے سے وابستہ ہو کو اپنی فیملی کو ترجیح دینی چاہیے۔عورت کو بچوں کی بہترین تربیت و پرورش پر دھیان دینا چاہیے۔عورت کا قوم کی معماری میں بڑا رول ہے۔ جس قسم کی تربیت ایک ماں اپنے بچوں کو کرتی ہے اسی قسم کا سماج بھی ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے عورت کا نیشن بلڈنگ میں ایک اہم رول بنتا ہے۔عورت انسان ساز بھی ہے اور معاشرہ ساز بھی۔عورت کا رول گھر کی چاردیواری تک ہی نہیں بلکہ آپ پر سماجی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔میں امام خمینیؒ کی اس بات سے متفق ہوں کہ جو آپ نے کہا کہ اگر ایک عورت کسی بھی میدان میں خواہ وہ تعلیمی ، سیاسی یا کوئی دوسرا میدان ہو ،کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دبایا جائے گا تو وہ بھی ایک جبروزیادتی ہے۔ لہذا میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں پہلے اپنے گھروں میں بیٹے اور بیٹی میں امتیازی سلوک برتنے سے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ جب ہم بیٹے اور بیٹی کو برابر کے حقوق دیں گے تو معاشرے میں بھی ان کیساتھ امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔ اورجب ہمارے معاشرے میں یہ رجحان پیدا ہوگا تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔یہی میرا خواتین کے نام پیغام ہے۔

حق اشاعت © 2018 . جملہ حقوق ولایت ٹائمز کے لیے محفوظ ہیں