چچنیا میں “اہل سنت کون ہیں” کے عنوان سے کانفرنس پر سعودی حکمرانوں اور وہابی مفتیوں کا غم و غصہ لامحدود، ایسی کانفرنس جس نے تکفیریت کو اسلام کی بدنامی کا سبب گردانا۔
خبررساں ایجنسی ’’ ابنا ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق مورخہ 25 اگست سے، چ?چنیا میں 200 سنی علمائے دین کی موجودگی میں “اہل سنت کون ہیں” کے عنوان سے کانفرنس پر سعودی حکمران اور وہابی مفتی بدستور سیخ پا ہیں اور ان کا اظہار غیظ و غضب بدستور جاری ہے۔
مذکورہ کانفرنس میں وہابی، سلفی، سعودی اور قطری مولویوں کو اہل سنت کے طور پر شرکت کی دعوت نہیں دی گئی اور ان کو اہل سنت کے دائرے سے خارج رکھا گیا جس کی وجہ سے قطر اور حجاز کی حکومتیں اور وہاں کے وہابی اور تکفیری مولوی، مسلسل غیظ و غضب کا اظہار کررہے ہیں۔چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی میں منعقدہ کانفرنس کا آغاز چیچن صدر “احمد قدیروف” کے افتتاحی خطاب سے شروع ہونے والی کانفرنس میں “اہل سنت” کی جامع تعریف پیش کرنے کی کوشش کی گئی اور ایسی تعریف سامنے آئی جس میں وہابیت، سلفیت اور تکفیریت کی گنجائش نہیں ہیں۔ شرکاء نے کانفرنس کے اختتامی اعلامیے میں اہل سنت کی تعریف پیش کی جو کچھ یوں ہے: “اہل سنت اعتقادات اور کلامی مذاہب میں اشعری اور ماتریدی ہیں اور فقہی مذاہب میں “حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی ہیں، اور پاک اہل تصوف علم و اخلاق اور تزکیہ نفس کے لحاظ سے امام جنید بغدادی اور ان جیسے دوسرے بزرگوں کی مانند ہیں۔۔۔”۔ اس کانفرنس اور اختتامی اعلامیے میں زور دیا گیا کہ وہابیت اور سلفیت امت اسلامی میں تفرقے اور انتشار اور اسلام کی بدنامی کا باعث ہیں۔ نیز اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ “انحرافات اور اہل سنت کی تعریف میں انحراف اور اس کے دائرے کے خطرے سے دوچار ہونے کا سد باب کرنا، بہت اہم اور ضروری مسئلہ ہے، ایسا مفہوم جس کو انتہا پسند ہائی جیک کرنا چاہتے ہیں اور اس کو اپنے تک محدود کرنا چاہتے ہیں۔ اس کانفرنس کی ایک خاص مصر کی جامعۃ الازہر کے سربراہ ڈاکٹر شیخ احمد الطیب کی شرکت تھی جس کی وجہ سے اہل سنت کے دعویداروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس کانفرنس کو سعودی اور مغربی ذرائع ابلاغ کی طرف سے شدید مقاطعے (Boycott) کا سامنا تھا چنانچہ اس کے بہت سے نکات ابھی سامنے نہیں آئے ہیں جن کے سامنے آتے ہی وہابی مفتیوں اور سعودی حکمرانوں کے رد عمل بھی سامنے آتا رہے گا جس میں مزید شدت بھی آسکتی ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ سعودی حکمران اور وہابی مفتی یکے بعد از دیگرے اس کانفرنس پر اپنا رد عمل ظاہر کریں گے۔ “عربی 21” نامی نیوز ویب سائٹ نے لکھا: اہل سنت کی تعریف کو اشعریت اور ماتریدیت تک محدود کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اہل حدیث اور سلفیت دائرے اہل سنت سے خارج ہیں۔ اہل سنت کی تعریف کا دائرہ واضح ہونے کے بعد سلفی مولوی بہت زیادہ غضبناک ہیں اور وہابی مفتی “سعد البریک” نے اس کانفرنس کے بارے میں کہا ہے: “یہ کانفرنس اہل سنت کے خلاف ایک سازش اور ہمارے ملک (سعودی حکومت) اور ہمارے عقیدے کی اعلانیہ دشمنی ہے”۔سعودی انجمن علما نے بھی موقف اپنایا کہ “چ?چنیا کے دارالحکومت گروزنی میں “اہل سنت کون ہیں” کے عنوان سے کانفرنس اسلامی مذاہب میں مذہبی فتنہ انگیزی کی غرض سے منعقد ہوئی ہے۔سعودی عرب کے ایک اور مفتی “محمد السعیدی” نے کہا ہے کہ “یہ کانفرنس عالم اسلام اور بطور خاص سعودی عرب کے خلاف سازش کے مترادف ہے”۔ مشہور سعودی قلمکار اور “العرب” چینل کے ڈائریکٹر “جمال قاشقجی” نے اپنے ٹویٹر پیج پر لکھا: “گروزنی کانفرنس” عنقریب تنازعات اور کئی فرقوں میں تقسیم ہونے پر منتج ہوگی؛ گویا شرپسند ہاتھ پس پردہ کام کررہے ہیں، اور گویا پانچویں صدی ہجری کا حنبلی اور اشعری فتنہ ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔
نیز مصر کے سلفیوں اور سعودی وہابیوں نے جامعۃ الازہر کے سربراہ ڈاکٹر شیخ احمد الطیب کے خلاف شدید تشہیری یلغار کا آغاز کیا ہے۔ (محمد بن عبدالوہاب کی اولاد میں شامل) سعودی قلم کار “محمد آل الشیخ” نے لکھا ہے: گروزنی کانفرنس جس نے سعودی عرب کو اہل سنت کے دائر ے سے خارج کردیا ہے ۔ میں شیخ الازہر کی شرکت، مصر کے ساتھ ہمارے رویئے اور اس ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت میں تبدیلی کا سبب ہوگی اور مصر السیسی کی حکمرانی میں تباہی کی طرف گامزن رہے گا۔
قابل ذکر ہے کہ مصر کے صدر السیسی نے آل سعود کی بھاری مالی امداد سے اس ملک کے منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف بغاوت کرکے حکومت پر قبضہ کیا اور السیسی کو ہمہ جہت سعودی حمایت حاصل رہی ہے!!