الطاف حسین ندوی
بھارت کا’’ نادراجتماعی ضمیر ‘‘کیا کبھی مطمئن ہوگا؟یا وہ’’ بھولی بھٹکی روح‘‘ کی طرح ہزاروں انسانوں کا خون پی لینے کے بعد بھی پیاسی رہے گی ؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اگربھارت نے ’’محمد مقبول بٹ‘‘کی پھانسی کے وقت تلا ش کیا ہوتا تو شاید محمد افضل گورو کی باری ہی نہ آتی۔مگر یہ بھارت ہے جس میں ہر قتل کے بعد نئے قتل تک سوچ و بچار کے دروازے بند کئے جاتے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ لوگ عقل نہیں رکھتے ہیں نہیں نہیں ایسا بالکل نہیں ہے ،یہ ہیں تو عقلمند پر ’’خون پینا اور پلانا‘‘ان کی فطرت میں داخل ہے۔ ان کی مذہبی کتابوں میں بھی دیویوں اور دیوتاؤں کی خوشنودی کے لئے’’انسانوں کی قربانی چڑھانے‘‘کی محیر العقول داستانیں موجود ہیں لہذا کسی کو پولیس ،فوج اور عدالت کے ہاتھوں قتل کرانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔
بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں انسانی قدروں میں صرف ذات پات کی بنیاد پر دوہرا میعار اپنایا جاتا ہے ۔یہاں انسان کو جنم دن سے ’’پوتراور ناپاکی‘‘کا ایسا انوکھا تصور پایا جاتا ہے کہ سلیم العقل انسان کو تصورسے ہی’’ گِن‘‘آنے لگتی ہے ۔یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں یہ ہوش اڑانے والا مذہبی تصور اب تک قائم ہے کہ ’’برہمن ‘‘کا جنم بھگوان کے منہ سے جب کہ شودر کا پاؤں سے ہوا ہے ۔اس ناکردہ گناہ کی سزا ہندوستان کا شودرہزاروں سال سے بھگت رہا ہے اور کسی کو مجال نہیں ہے کہ ہندوستان میں رہتے ہو ئے ان ’’دیو مالائی قصہ کہانیوں ‘‘پر یہ کہتے ہو ئے سوال اٹھائے کہ
آخر انسان پیدا ہونے میں کیا ایک مختار مخلوق ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو پھر شودر اور برہمن کا تصور ہی نہیں پایا جاتا۔کہا جاتا ہے کہ ’’پرجا پتی نے اپنے منہ سے برہمنوں جبکہ پیر سے شودروں کی تخلیق کی ہے ‘‘پھر اسی بنیادپر یہ بھی فیصلہ ہوا کہ کس ذات کا فرد کون کون سے کام انجام دے سکتا ہے!دنیاوی کام بھی ذات پات کی بنیاد پر تقسیم کئے گئے ہیں ۔ہر نیچ اور گندھا کام شودر اور ہر اچھا اور اعلیٰ کام برہمن ہی انجام دے گا یہی وجہ ہے کہ بھارت میں اب تک ہزاروں نہیں لاکھوں شودر عورتوں اور بچیوں کو اعلیٰ ذات کے بد معاشوں اور غنڈوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر عوام کے سامنے نذر آتش کر دیا اورپھر اس جرم کا دفاع مذہب کی آڑ لیکر کیا گیا ۔آگے چل کر ہم اس کی چند مثالیں پیش کریں گے تاکہ اس معاملے کی اصل نفسیات صاف صاف نظر آجائے ۔JNUمیں جاری مسئلے کو سمجھنا اب آپ کے لئے آسان ہو جائے گا کہ بھارت بھر میں ’’نریندر مودی کے وزیر اعظم‘‘بننے کے بعد صورتحال پہلے سے بھی زیادہ خوفناک کیوں بنتی جارہی ہے ؟اس کا احسا س بھارت میں اب مسلمانوں ،سکھوں،عیسائیوں ،بودھوں کے بعد نچلی ذات کے ہندؤں، کمو نسٹوں کے ساتھ ساتھ سیکولر اور لبرل قسم کے ہندؤں کو بھی ہو نے لگا ہے کہ اب ان کی بھی خیر نہیں ہے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ اگر معاملہ اسی طرح جاری رہا اور وہ گہری نیندسو گئے تو ایک دن وہ ضرور آئے گا جب ملک پورے طور ہندؤ راشٹر میں تبدیل ہو چکا ہوگا ۔محمد افضل گورو ایک بے قصور انسان تھا جس کو ’’قربانی کا بکرا ‘‘بنا دیا گیا ۔دہلی کے نالائق حکمران کبھی بھی سچائی جاننے کی کوشش نہیں کرتے ہیں ۔یہ کام ہمیشہ دہلی کی متعصب پولیس اور ہندؤانتہا پسندوں کے قبضے میں’’ غلام اور نوکر میڈیا ‘‘انجام دیتا ہے ۔وہ عدالت سے پہلے ہی فیصلے سنا دیتے ہیں ۔یہ بھارتی میڈیا کا وہ خوفناک چہرہ ہے جس سے دنیا اب تک ناواقف ہے پھر جب ملزم کوئی مسلمان ہو تو ان کی مردانہ چیخ و پکار بہت بڑھ جاتی ہے ۔JNUمیں زیر تعلیم طلباء دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بھارت کا اصل چہرہ جمہوری نہیں بلکہ مطلق العنانیت اور ڈکٹیٹرانہ ہے ،جو جمہوریت کے نام پر شور برپا ہونے والی آوازوں کے بیچ دب جاتاہے ۔RSSبھارت کو ہندؤ دیش قرار دینے کے لئے بے چین نظر آتی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ اگر یہ’’سنہری موقع‘‘بھی گنوا دیا گیا تو پھر شاید کبھی بھی ایسا موقع فراہم ہی نہ ہو ۔JNUطلباء کاپر امن احتجاج ان کا قانونی حق ہے ۔یہ چونکہ ہندو دہشت گردوں کو راس نہیں آتا لہذا طلباء کا خون پینے کے لئے بے تاب ’’سنگھ پریوار‘‘طرح طرح کے حربے آزما ء رہا ہے ۔حیرت کی بات یہ کہ کشمیر میں بھارت کے خلاف کسی جلسے کے نعرے’’ JNUاحتجاج‘‘ کی آواز کے ساتھ ڈب کر کےمیڈیا کی مدد سے شرمناک کھیل کھیلا گیا کہ تصور سے ہی روح کانپنے لگتی ہے اس لئے کہ بھارت کی جھوٹی جمہوریت کے منہ کومسلمانوں اور اقلیتوں کا خون لگ چکا ہے ۔یہ معاملہ بھارت میں صرف نچلی ذات کے ہندؤں کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ یہ مصیبتیں دوسری اقلیتوں مثال کے طورپر مسلمانوں ،عیسائیوں اور سکھوں جھیلنی پڑ رہی ہے ۔جن کی جان ،مال اور عزت کی کوئی قدرو قیمت بھارت میں نہیں ہے اور نہ ہی بھارت کی متعصب ایڈمنسٹریشن اور عدالتیں اس معاملہ میں کو ئی کاروائی کر پاتی ہیں ۔اعلیٰ ذات کا صاحب اقتدار طبقہ جیسے اور جس طرح چاہتا ہے ملک کے قانون کے ساتھ کھیلتا ہے اور ملک کا قانون ان کے لئے بازیچہ اطفال بنا ہوا ہے ۔قانون ہے تو شودروں اور اقلیتوں کے لئے ؟کبھی کوئی برہمن قانون کی زد میں نہیں آتا ہے ۔اس کی چند ایک مثالیں آپ کو خود ہی بتا سکتی ہیں کہ بھارت کس بدترین انسانی المیہ سے گذرتا ہوا ملک ہے ۔23جنوری 1999ء کے دن بجرنگ دل کے’’ مہندر اور دارا سنگھ‘‘نے ایک عیسائی پادری ’’گراہم اسٹینز‘‘کو اپنے دو بیٹوں ’’دس سالہ فلپ اور چھہ سالہ ٹموتھی ‘‘سمیت گاڑی میں سوتے ہوئے زندہ جلا ڈالا ۔27فروری2002ء کو’’ سابرمتی ایکسپریس‘‘ میں 59ہندوں کو دوران سفر’’گودرا‘‘ٹرین اسٹیشن پر تمام دروازے اور کھڑکیا ں بند کرتے ہوئے زندہ جلا ڈالاگیا۔ جس کے متعلق بغیر کسی تحقیقات کے الزام مسلمانوں پر تھونپ دیا گیا اور کئی برس گذر جانے کے باوجود حکومت کو ملزمین کا کچھ بھی پتہ نہیں چلا ۔ سچائی یہ ہے کہ یہ کھیل مسلمانوں کے قتل عام کے لئےکھیلا گیا تھا تاکہ کھل کر قتل عام کرنے کا ایک جواز فراہم ہو سکے ۔اسی بنیاد پر گجرات میں 2002ء کا مشہور قتل عام کا سانحہ پیش آیا۔ جس میں2500مسلمان مردوں ،عورتوں اور بچوں کو قتل کردیا گیا ۔الزام ملک کے موجودہ وزیر اعظم اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے موجودہ صدر امت شاہ پر عائد ہوا مگر بھارت کی انوکھی عدالت نے دونوں کو کلین چٹ تھما دیا،اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے عوض انھیں ملک کے اعلیٰ ترین مناصب تک پہنچا کر نہ صرف’’انتہا پسندوں‘‘کی حوصلہ افزائی کی گئی بلکہ دوسروں کے لئے بھی ایک مثال قائم کر کے اسی راستے پر چلنے کی عملی ترکیب و ترغیب دیدی گئی ۔ کون نہیں جانتا ہے کہ31اکتوبر 1984ء اور 3نومبر 1984ء میں سکھوں کے ساتھ کیا ہوا۔صرف دہلی میں اکیس سو اور دہلی سے باہر سات سو سکھ مارے گئے ۔اس وقت کے سیکولر وزیر اعظم اور گاندھیائی اہنسا کے نامی پجاری راجیو گاندھی سے سکھوں کے قتل عclip_image003ام کے بارے میں دریافت کیا گیا تو اس کا جواب بھی کسی’’سنگھی سپاہی ‘‘سے کم شرمناک نہیں تھا اس نے کہا ’’جب کو ئی بڑا درخت گرتا ہے تو زمیں ہلتی ہے ‘‘۔مظفر نگر (یو،پی)قتل عام کل کی بات ہے ۔مگر کسی نے بھی مجرمین پر ہاتھ نہیں ڈالا سوائے اس کے کہ ہر قتل عام کے بعد کمیشن قائم کیا جاتا ہے جس کی رپورٹ دہائیاں گذر جانے کے بعد ’’جذبات ٹھنڈے‘‘پڑتے ہی سامنے آتی ہے کہ جن پر الزام تھا وہ تو دودھ کے دھلے صاف و پاک نکلے ،البتہ یہ محسوس کیا گیا کہ مسلمانوں نے بعض ’’نریندر مودی جیسے صاف دل ‘‘انسانوں پر غیر ضروری شک کیا ہے جو انتہائی قابل افسوس اور ناقابل برداشت ہے ۔25دسمبر2015ء کومحمد اخلاق نامی ایک مسلمان کو دادری (یو،پی) میں صرف گائے کے گوشت کھانے کے جھوٹے الزام کی بنیاد پر قتل کردیا گیا ۔9اکتوبر2015ء کوکشمیر کے دو نوجوانوں کو ٹرک سمیت سڑک پرہندو دہشت گردوں کی بھیڑ نے پیٹرول چھڑک کر جلا ڈالا جن میں زاہد نامی ایک نوجوان زخموں کی تاب نہ لا کر’’صفدر جنگ ہسپتال دہلی‘‘میں چل بسا ۔ اسے قبل انہی جنونیوں نےرامپور،بھاگلپور،ممبئی،مراد آباداور سینکڑوں دیہاتوں اور درجنوں شہروں میں مسلمانوں پر بڑے بڑے حملے کئے ہیں اور ہر جگہ ہندوستانی پولیس ان کے ساتھ تھی ۔بھارت کی تاریخ میں ایک بھی ایسے برہمن یا اعلیٰ ذات کے ہندو کا نام نہیں ملتا ہے جس کو کورٹ نے ایسے وحشیانہ کاروائیوں پر سزادی ہو ۔بھارت کی پولیس ،ایڈمنسٹریشن ،عدالتیں ،میڈیا اور پارلیمنٹ صرف اور صرف برہمنوں کے قبضے میں ہے اور یہ جمہوریت کے نام نہاد ستون ہر وقت انہی کی خدمت میں مصروف نظر آتے ہیں ۔JNUکے طلباء نے احتجاج کر کے کونسا بڑا جرم انجام دیا ہے کہ ہر سو ان کو مارو اور یہ غدار ہیں کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں ۔پروفیسر عبدالرحمان گیلانی کو بھی قتل کرنے کی تمام تر کوششیں جاری ہیں ۔اسے قبل پارلیمنٹ حملے میں ملوث کر کے کئی سال تک جیل میں ڈالا گیا جہاں رام جیٹھ ملانی کی کامیاب وکالت کے نتیجے میں اس کی جان بچ پائی ورنہ آج یہ مظلوم بھی افضل گورو کے ساتھ تہاڑ جیل میں دفن ہوتا ۔اس کے بعد اس پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ بال بال بچ گیا کہ اب JNUاحتجاج میں غداری کا مقدمہ ؟سوال درسوال کی اس صورتحال کا دوسرا رخ آپ دیکھیں گئے تو آپ کو یقین آجائے گا کہ دراصل یہ بھارت ہے جہاں ہر غیر ہندؤ اور غیر برہمن کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔اس کا مال اور آبرو بلکہ اس کی ہر شئی سستی ہے اور اگر کبھی کسی بڑے برہمن کو شوق ہو جائے تو وہ بھارت کے اجتماعی ضمیر کے اطمینان کے لئے اس کا خون بھی کر سکتا ہے ۔نہیں تو ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی ہے جہاں کسی برہمن کو سزا ملی ہو ۔عدم تحفظ اور عدام برداشت کی بدترین مثال اسے بڑھکراور کیا ہو سکتی ہے کہJNUطلباء یونین کے صدر کنہیا کمار کو عدالت میں ایک سنگھی غنڈے نے پولیس اور عدالت کی موجودگی میں تین گھنٹے تک اس قدر ماراکہ ’’غنڈے کے بقول‘‘تب تک اس کو نہیں چھوڑا یہاں تک کہ پیشاب سے اس کی پتلون گیلی نہیں ہوئی ۔پھر المیہ یہ کہ دہلی پولیس چیف نے عدالت کے باہر پریس کانفرنس میں کنہیا کمار پر حملے سے مکمل انکار کردیا ۔حد یہ کہ سابق مرکزی وزیر کپل سبل کی سربراہی میں جب سپریم کورٹ آف انڈیا نے عدالت میں حملے کی تحقیقات کے لئے ایک پانچ رکنی وکلاء کی ٹیم عدالت میں بھیجی تو اس نے کنہیا کمار پر حملے کی نہ صرف تصدیق کردی بلکہ اپنی رپورٹ بھی پیش کردی جو میڈیائی رپورٹوں کے مطابق پولیس نے غائب کردی ہے ۔یہ ہے بھارت اور بھارت کا وہ خوفناک ہندؤ دہشت گردانہ چہرہ جس پر اس کے بڑے مہاجنوں نے جمہوریت کا پردہ ڈال کر پوری دنیا کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔