آخر کب تک حکومت ہندوستان و پاکستان اپنی ہٹ دھرمی کی پالیسی کے نتیجے میں کشمیری عوام کو مصائب و آلا م میں گرفتار بنائے رکھیں گے۔بندوق ایک تباہی کا نام ہے جس سے ایک انسان کا خون بہایا جاتا ہے البتہ کشمیری عوام تین بندوق کے سائے میں زندگی گذار رہی ہے ،ہندوستانی افواج کا بندوق، عسکریت پسندوں کا بندوق اور نامعلوم بندوق برداروں کا بندوق۔آخر کب تک مسلح تصادموں کے دوران مظاہروں اور سنگبازوں کو گولیوں و پیلٹ کا نشانہ بنایا جائیگا۔آخر کب تک لوگ خوف و ہراس کے ماحول میں سانس لینگے۔ جب بھی کسی احتجاجی جوان کی ہلاکت ہوجاتی ہے تو مزاحمتی قیادت بلاتاخیر ہڑتال کال کا اعلان کر کے قوم پر احسان کرتی ہے،سیکورٹی فورسزجوان کو فسادی قرار دیکر اپنے کاروائیوں کو حق بجانب قرار دینے کی کوشش کرتی ہیں، عسکریت پسند شدید غصے کیساتھ بدلا لینے کا اعلان کر تے ہیں،ہند نواز جماعتیں ہلاکت کی شدید الفاظ میں مذمت کرکے تحقیقات کا مطالبہ دہراتی ہیں۔نویسندگان اپنے مقالات میں کے ذریعہ ہلاکتوں کی روکتھام کیلئے مذاکرات کی بحالی پر زور دیتے ہیں۔لیکن وہ ماں جس کا لخت جگر اس سے زبردستی چھینا جائے جانتی ہے کہ اس کے جدا ہونے سے کیا مصیبت ٹوٹ پڑتی ہے۔مسلح تصادموں کے دوران مظاہرین کی ہلاکت مرکزی و ریاستی سرکاری کیلئے ایک چلینج بن چکی ہے جس کے نتیجے میں انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی آوازیں بلند سنائی دیتی ہیں۔مرکزی سرکارنے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے سینکڑوں بارکمیٹیاں تشکیل دیکر امن کی بحالی کیلئے اقدامات اٹھائے البتہ مذکورہ کمیٹیوں کی جانب سے پیش کی کردہ رپورٹوں کوکبھی بھی عمل میں نہیں لایا گیا ۔ہند پاک نے باربارتنازعہ کشمیرکو راتوں رات حل کرنے کا دعویٰ کیا البتہ پچھلے 69سالوں سے کشمیر ایشوکو کنفوژ کرنے میں دونوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت جرات مندی کا مظاہرہ کر کے اس دیرینہ مسئلہ کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں تاکہ برصغیر میں قیام امن کو برقرار رکھا جاسکے اور کشمیریوں کو امن کے ماحول میں زندگی گذارنے کا موقعہ فراہم کریں۔