سرینگر/آج امت مسلمہ انتہائی نازک دور سے گذر رہی ہے، لیکن بعض تنگ ظرف خطیبوں اور منچلے نوجوانوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر غیر ذمہ دارانہ بیانات کا مظاہرہ ہوتا ہے،جس سے مسلمانوں کے درمیان تعصب اور نفرت بڑھتی ہے اور غلط فہمی میں اضافہ ہوتا ہے۔اہل علم اور صاحبان خطابت کو ایک دوسرے کے نزدیک آکرباہمی اختلاف اور موقف کی اصلیت کوجان لینے کیلئے تبادلہ نظر کرنا چاہئے ، عوام کو بھڑکانے سے کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ملوکانہ اور ملحدانہ سامراج نے ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان غلط باتیں منسوب کرکے پرپگنڈا کیا ہے،مصدقہ اور اصل ذرائع سے حقیقت تلاش کرنی چاہئے ۔بعض پروفیشنل خطیب اور واعظ ،ایجنسیوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں،اس سے ہوشیار رہنا چاہئے۔سوشل میڈیا کی ہر بات کوں حرف آخر نہیں سمجھنا چاہئے۔
’’ولایت ٹائمز‘‘ کو موصولہ پیغام کے مطابق کشمیر میں ، مولانا شوکت احمد شاہ جن کی شہادت 18اپریل2011کوواقع ہوئی ،صاحب نظر مصلح تھے۔وہ جمیعت اہل حدیث جموں و کشمیرکے صدر تھے،،اور شیعہ امامیہ اور احناف ودیگر معروف اسلامی مسالک کے پیرو مسلمانوں کو دینی بھائی کہتے تھے۔اختلافی نقطہ نظر میں موعظہ حسنہ اور حکمت کے قرآنی حکم کی پابندی کرتے تھے ۔امت کے مشترکہ مسائل میں وحدت فکر وعمل کیلئے کوشاں رہتے تھے۔
کوئی عالم ،مجتہد چاہے وہ کسی بڑے مدرسہ سے تحصیل کرچکا ہو،بنیادی عقئد دین کے پابند معروف مکاتب فکر کے کسی مسلمان کو’’کافر‘‘ قرار نہیں دے سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کو نفرت پھیلانے کا ذریعہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ محبت اور وحدت کا درس دینے کیلئے استعمال ہونا چاہئے ۔اہل علم کی عزت وزینت اسی میں ہے کہ وہ حسن اخلاق سے نصیحت وتبلیغ کریں ۔شدت پسندلہجہ اور دھونس دباؤ سے پرہیز کریں ،ایسا کرنے سے ان کے متعلق جاہلانہ تصور پیدا ہوگا ۔جو شخص اصول وموقف سے وعاقفیت نہ رکھتا ہو ۔اسے آنکھ بند کرکے لب کشائی زیب نہیں دیتی ۔اہل اسلام کو کسی کے مفاد میں مزدور بن کر استعمال نہیں ہونا چاہئے ۔برادرانہ رابطہ سے ایک دودسرے کے نزدیک آکر ،اور مصدقہ ذرائع سے جانکاری کی کوشش کرکے اختلافات کی فضا مسطح ہوسکتی ہے۔مصالحانہ انداز الگ ہوتا ہے،اور منافقانہ انداز الگ ہوتا ہے۔کرید سے نہیں دعوت سے اثر ہوتا ہے ۔آج دنیا میں مسلمان پریشان ہیں ،غیرت دین اور درد امت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔تمام مسلمانوں کے عقیدہ وعمل کی بنیاد قرآن اور سنت رسول ہے،اس کے حصول کی لگن میں وسائل پر تفرقہ پیدا نہیں کرنا چاہئے،سب کو آخرت میں جواب دینا ہے ۔
خادم دین وملت :غلام علی گلزار(سابق سکریٹری مسلم پرسنل لاء فورم کشمیر وبانی تحریک مکاتب امامیہ کشمیر)