!اسرائیل کی نابودی سے متعلق رہبر معظم کے9اہم سوالات

اسرائیلی ریاست کیوں ختم ہونی چاہئے؟
ابھی تک اس کی 66 سالہ زندگی میں جعلی صہیونی حکومت نے اپنے اہداف طفل کشی، قتل و غارت، آہنی مکے اور تشدد کی مدد سے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور اس بات کو ڈھٹائی سے بیان بھی کرتے ہیں۔
اسرائیل کے خاتمے سے کیا مراد ہے؟
اسرائیلی جرائم کو ختم کرنے کا واحد ذریعہ اس ریاست کا خاتمہ ہے۔اور ظاہر ہے ریاست کے خاتمے سے مراد یہ نہیں کہ خطے میں یہودی باشندوں کا قتل عام کیا جائے۔اسلامی جمہوریہ نے اس کی خاطر دنیا کو ایک منطقی اور قابلِ عمل میکانزم بتایا ہے۔
اسرائیل کے خاتمے کا درست طریقہ کیا ہے؟
فلسطین کے اصلی باشندے چاہے وہ مسلمان ہوں، یہودی یا عیسائی، وہ چاہے فلسطین میں ہوں یا مہاجرکیمپوں میں یا دنیا میں کہیں بھی وہ ایک عوامی اور منظم ریفرنڈم میں حصہ لیں۔قدرتی طور پر وہ یہودی مہاجر جنہیں اسرائیل ہجرت کرنے پر مائل کیا گیا ہے وہ اس ریفرنڈم میں حصہ لینے کا حق نہیں رکھتے۔
غیر فلسطینی مہاجرین کا کیا ہو گا؟
امام خامنہ ای: فلسطین کے اصلی لوگوں کے درمیان ہونے والے ریفرنڈم کے نتیجے میں جو حکومت بنے گی وہ فیصلہ کرے گی کہ یہودی مہاجرین فلسطین میں ہی رہیں یا اپنے آبائی وطنوں میں واپس بھیج دئے جائیں۔
یہ مجوزہ ریفرنڈم کیسے کامیاب ہو گا؟
یہ ایک منصفانہ اور منطقی منصوبہ ہے جسے عالمی رائے عامہ آسانی سے سمجھ سکتی ہے اور اسے آزاد قوموں اور حکومتوں کی تائید حاصل ہو سکتی ہے۔قدرتی طور پر ہم غاصب صہیونی ریاست سے اس بات کی توقع نہیں رکھتے کہ وہ اس تجویز کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے اور یہ وہ مقام ہے جہاں حکومتوں، قوموں اور مقاومتی تنظیموں کا کردار بنتا اور واضح ہوتا ہے۔
جب تک ریفرنڈم نہیں ہوتااسرائیل کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟
جس دن تک یہ قاتل اور طفل کش ریاست ریفرنڈم کے ذریعے ختم نہیں ہو جاتی اس وقت تک طاقتور مقابلہ اور مسلح مقاومت اس تباہ کن ریاست کا علاج ہے۔ایسی ریاست جو کسی کی سوچ اور تخیل سے بعید جرائم کا ارتکاب کرتی ہے کے مقابلے کا واحد ذریعہ پر عزم اور مسلح مقابلہ ہے۔
اسرائیل سے فوجی مقابلے کیلئے سب سے جلد کیاکام کرنا چاہئے؟
امام خامنہ ای : غزہ کی طرح مغربی کنارے (West Bank) کو بھی مسلح ہونا چاھئے اور جو لوگ فلسطین کی تقدیر میں دلچسپی لیتے ہیں انہیں مغربی کنارے کے لوگوں کو مسلح کرنا چاھئے۔
کون سے حل قابلِ قبول نہیں ہیں؟
ہم نہ تو مسلمان ممالک کی افواج طرف سے روایتی جنگ کی سفارش کرتے ہیں ، نہ یہ کہتے ہیں کہ مہاجر یہودیوں کو سمندر میں پھینک دیں اور یقیناً اقوامِ متحدہ یا کسی اور عالمی تنظیم کی ثالثی کو قبول نہیں کرتے۔
ہم سمجھوتے کی تجاویز کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟
یہ کہنا غلط ہے کہ غزہ سے راکٹ حملے اسرائیلی جرائم کا سبب بنے ہیں۔مغربی کنارے میں لوگوں کا واحد ہتھیار پتھر ہیں اور وہاں زیادہ قسم کے ہتھیار نہیں ہیں لیکن یہ صہیونی ریاست وہاں لوگوں کو قتل کرتی ہے اور ان کی توہین کرتی ہے اور ان کے گھروں اور کھیتوں کو نابود کرتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ یاسر عرفات کو اسرائیلی ریاست نے زہر دیاجبکہ اس نے صہیونیوں کے ساتھ سب سے زیادہ تعاون کیا،اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل کی نظر میں ’امن‘ صرف مزید جرائم اور قبضے کی چال ہے۔