امریکا کی مداخلت سے کشمیر شام ،افغانستان اور عراق جیسا تبدیل ہوگا:وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی

سرینگر/وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے مسئلہ کشمیر پر تیسرے فریق کی ثالثی کے کردار کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سیاسی مسئلہ شملہ سمجھوتہ اور لاہو ر اعلامیہ کے تحت حل ہوسکتا ہے جبکہ سیاسی مسئلے کے حل کیلئے اٹل بہاری واجپائی اور اندرا گاندھی نے ایک نقشِ راہ دیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ امریکا کی مداخلت کے بعد آج شام ،افغانستان اور عراق کے حالات سب کے سامنے عیاں ہے ،کیا ڈاکٹر فاروق عبداللہ کشمیر میں شام جیسے حالات کے متمنی ہیں ؟۔’’ولایت ٹائمز‘‘ نے نقل کیا ہے کہ کشمیر نیوز سروس کے مطابق جنوبی کشمیر کے اسلام آباد میں کئی تعمیر ارتی پروجیکٹوں کا جائزہ لینے کے حاشئے پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر میں کسی تیسرے فریق کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔انہوں نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی اُس وقت بیان جس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے چین یا امریکا کا تعاؤن حاصل کرنے پر زور دیا تھا ،پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے سوالیہ انداز میں کہا ’کیا ڈاکٹر فاروق عبداللہ کشمیر میں شام جیسے حالات چاہتے ہیں؟‘۔کے این ایس نمائندے تصد ق رشید کے مطابق محبوبہ مفتی نے کہا ’اس وقت شام ،افغانستان اور عراق کے حالات؟کیا ڈاکٹر صاحب بالکل ایسی ہی صورتحال چاہتے ہیں ؟‘۔انہوں نے امریکا اور چین کی مسئلہ کشمیر میں ثالثی کے کردار کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے ،وہ اپنا کام سنبھالیں ۔انہوں نے کہا ’ہمیں آپس میں مل کر بات کرنی ہے ،تو امریکا ،ترکستان اور انگلستان کیا کریگا ہمارا ‘۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل بھارت اور پاکستان دو طرفہ طور نکال سکتے ہیں ۔ان کا کہناتھا کہ ہمارے عظیم لیڈران اٹل بہاری واجپائی اور اندرا گاندھی نے ہمیں مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے ایک نقشِ راہ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر میں کسی تیسرے ملک کی ثالثی کی کوئی گنجا ئش موجود نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ امریکا نے جہاں کہیں بھی مداخلت کی خواہ وہ افغانستان ہو ،شام ہو یا پھر عراق ہو ،وہاں آج حالات کیا ہے ؟۔انہوں نے کہا کہ چین کو تبت کے ساتھ مسئلہ ہے ،ہمارے پاس لاہور اعلامیہ اور شملہ سمجھوتہ ہے ۔انہوں نے سوالیہ انداز میں جب ہمیں (بھارت اور پاکستان) کو مل کر مسئلہ کرنا ہوگا ،تو ہمیں کسی تیسرے فریق کی ثالثی کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟۔یاد رہے کہ جموں کشمیر میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت نیشنل کانفرنس کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے چین یا امریکہ سے مدد مانگنے کا مشورہ دیاہے۔انہوں نے کہاتھا کہ اس معاملے کو لیکر کسی کی ثالثی حاصل کرکے اسے حل کردیا جانا چا ہئے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اپنے مخصوص انداز میں مرکزی سرکار کو مشورہ دیا کہ اسے تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے کسی تیسرے ملک کی خدمات حاصل کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں بھارت کے ایسے کئی دوست ممالک ہیں جن سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت اور پاکستان کے مابین درمیانہ دار کا رول ادا کرنے کیلئے مدد لی جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں ان کا کہنا تھا’آپ کب تک انتظار کرینگے؟کبھی کبھی آپ کوسخت فیصلے لینا پڑتے ہیں۔مذاکرات ہی راستہ ہے۔ہندوستان کے ساری دنیا میں بہت سارے اتحادی ہیں،انسے ثالثی کیلئے کہا جاسکتا ہے۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے خود کہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتے ہیں جبکہ چین نے بھی کہا ہے کہ وہ اس مسئلے میں ثالثی کرنا چاہتا ہے۔کسی نہ کسی سے تو مدد لینا ہی ہوگی‘‘۔’آپ کب تک انتظار کرینگے؟کبھی کبھی آپ کوسخت فیصلے لینا پڑتے ہیں۔مذاکرات ہی راستہ ہے۔ہندوستان کے ساری دنیا میں بہت سارے اتحادی ہیں،انسے ثالثی کیلئے کہا جاسکتا ہے۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے خود کہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتے ہیں جبکہ چین نے بھی کہا ہے کہ وہ اس مسئلے میں ثالثی کرنا چاہتا ہے۔کسی نہ کسی سے تو مدد لینا ہی ہوگی‘‘۔ڈوکلام میں چین کے ساتھ جاری تنازعہ اور موجودہ کشیدگی کے دوران نئی دلی کی جانب سے چین کے ساتھ مذاکرات کرنے پر آمادہ ہونے کی جانب اشارے کے ساتھ فاروق عبداللہ نے کہا’’اگر بھارت چین کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ہے اور اس کے ساتھ جنگ نہیں کرنا چاہتا تو وہ پاکستان کے ساتھ بھی بات چیت کرسکتا ہے‘‘۔اْنہوں نے کہا’’جنگ نہیں کرسکتے، ان کے پاس بھی ایٹم بم ہے اور آپ کے پاس بھی،یہ راستہ نہیں ہے، راستہ ہے تو صرف بات چیت کا‘‘۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے سابق وزیر اعظم اور سینئر بھاجپا لیڈر اٹل بہاری واجپائی کا پاکستان کے متعلق یہ قول دہرایا کہ دوستوں کو بدلا جاسکتا ہے لیکن پڑوسیوں کو نہیں۔اس بات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے زور دیکر کہا’’تکبر اور ہٹ دھرمی سے کوئی بھی ملک نہ ترقی کرے گا اور نہ ہی اس کی فلاح و بہبود ممکن ہوگی‘‘۔ترقیاتی منظر نامے پر اپنی رائے ذنی کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ تر قیاتی کام میں تاخیر حکومت کی مدت ختم ہونے کی وجہ سے ہوتی تھی ،لیکن اب ہم نے ایک مدت مقرر کر رکھی ہے جس کے تحت تعمیراتی پروجیکٹو ں کو مکمل کیا جائیگا ۔انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں تر جیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ 2016میں ترقیاتی کام منجمد ہو کر رہ گیا تھا ،تاہم امسال ان کاموں کو مکمل کیا جائیگا ۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے عوام نے اُنہیں ہر وقت اپنا تعاؤن دیا اور امید ہے کہ مستقبل میں بھی اُن کا تعاؤن رہے گا ۔