جون2008ء میں آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے اپنے سعودی عرب کے دس روزہ دورے کے دوران اُس تاریخی علاقے کا قریب سے مشاہدہ کیا اور کچھ ایسے حقائق سے پردہ ہٹایا جو آج تک عام لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔
دختر رسول خدا ﷺ حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کی شہادت کے ایام ہیں۔ حضرت زہرا(س) کا اسم گرامی ذہن میں آتے ہیں ان پر پڑے مصائب بھی انسان کے ذہن میں آ جاتے ہیں اور جب مصائب کا تذکرہ آتا ہے باغ فدک کا آپ سے چھینا جانا اور حضرت زہرا(س) کا اپنا حق مانگنے کے لئے دربار خلیفہ میں جانا بھی انسان کے ذہن میں آ جاتا ہے اور انسان کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ باغ فدک کے بارے میں زیادہ جانکاری حاصل کرے جس کی خاطر دختر رسول (ص)دربار خلیفہ تک گئیں۔ اسی وجہ سے ایام فاطمیہ میں باغ فدک کے بارے میں ایک مختصر تحقیق کی گئی ہے جو خاندان اہلبیت(ع) کے چاہنے والوں کی نذر کی جاتی ہے۔
فدک ایک گاؤں کا نام ہے جو مدیںہ النبی سے 260کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے یہ علاقہ سرسبز و شاداب اور درختوں سے لبریز تھا یہ گاؤں، خیبر کا حصہ تھا اور مدینہ کے یہودی اس میں زندگی گزارتے تھے اس میں کاشت کرتے تھے اور اس کے باغات سے اپنی روزی روٹی کماتے تھے یہ علاقہ ایک ذرخیز اور بہترین درآمد والا علاقہ تھا۔
اس کے بعد امیر المومنین علی علیہ السلام نے جنگ خیبر میں خیبر کا قلعہ فتح کیا۔ یہودیوں نے پیغمبر اکرم (ص) سے صلح کرنے کی خاطر فدک کا علاقہ پیغمبر اکرم (ص) کو بخش دیا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے مبارک ہاتھوں سے فدک میں خرمے کے درخت لگائے اور اس کے قرآن کریم کے حکم سے اسے اپنی لخت جگر فاطمہ زہرا(س) کو ہدیہ دے دیا(۱)۔
پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد، خلیفہ اول نے اس پر قبضہ کر لیا اور حضرت زہرا(س) کے خادموں وہاں سے نکال کر اپنے مزدور اس میں کام پر لگا دئے ۔حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے خلیفہ اول سے فدک حاصل کرنے کےلئے مقدمہ دائر کیا اور اپنا حق واپس لینے کی بھرپور کوشش کی لیکن انہیں واپس نہ دیا گیا۔ خلیفہ ثانی نے اپنے دور حکومت میں اسے یہودیوں کو لوٹا دیا۔ خلیفہ ثالث نے دوبارہ یہودیوں سے واپس کر کے مروان اور دیگر رشتہ داروں کو بخش دیا بنی امیہ کے خلیفہ عمر بن عبد العزیز کے دور حکومت تک یہ فدک بنی امیہ کے پاس رہا۔
عمر بن عبد العزیز نے فدک کو حضرت فاطمہ زہرا(س) کی اولاد کو واپس کر دیا لیکن یزید بن عبد الملک نے دوبارہ اولاد فاطمہ(س) سے اسے چھین لیا۔ عباسی خلیفہ سفاح نے اسے عبد اللہ محض کو دیا لیکن منصور دوانیقی نے دوبارہ اس پر قبضہ کر لیا مہدی عباسی نے اسے ایک بار پھر اولاد زہرا(س) کو واپس کر دیا لیکن موسیٰ بن مہدی نے پھر چھین لیا۔ آخر کار مامون نے اپنے سرکاری حکم کے مطابق فدک کو اولاد زہرا(س) کو واپس دے دیا۔
لیکن مامون کے بعد متوسل نے اس باغ کو پھر اولاد حضرت زہرا(س) سے چھین کر اسے عمر بازیار کو بخش دیا عبداللہ بن عمر بازیار نے فدک میں لگائے ہوئے ان درختوں کو کاٹ دیا جو پیغمبر اکرم(ص) نے اپنے دست ہائے مبارک سے لگائے ہوئے تھے درخت کاٹنے کے بعد اس کے ہاتھ شل ہو گئے (۲)
بنی عباس کی حکومت کا سلسلہ ختم ہونے اور عثمانی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد پورا عربستان عثمانی حکومت کے زیر قبضہ آ گیا اور اس علاقے کی اہمیت بھی پیغمبر اکرم(ص) کے لگائے ہوئے درختوں کے کاٹ دئے جانے کے بعد ختم ہو گئی اور تاریخ میں بھی اس کے بعد کا تذکرہ نہیں ملتا ہے۔
موجودہ دور میں فدک کا علاقہ کہاں واقع ہے؟ اس کے بارے میں تحقیق کرنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ اس وقت فدک کو حرہ ہتیم یا الحویط کے نام سے جانا جاتا ہے جو حرہ خیبر کے مشرق میں واقع ہے۔
مدینہ شناسی کے مولف لکھتے ہیں کہ سرزمین فدک کے بارے میں کافی تلاش و جستجو میں نے کی آخر کار اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس وقت فدک کا کوئی نام و نشان باقی نہیں ہے اس سرزمین کو حائط کے نام سے جانا جاتا ہے جو امارات حائل کے تابع ہے الحلیفہ کے مغرب اور ضرغد کے جنوب اور خیبر کی مشرقی سرحد پر واقع ہے۔
مولف کا کہنا ہے کہ ان ایام میں جب میں فدک کی تلاش میں تھا جو موجودہ حائط ہے ۔1975 عیسوی میں یہ علاقہ 21 دیہاتوں پر مشتمل تھا جن میں گیارہ ہزار کی آبادی تھی جبکہ خود الحائط کی مرکز سرزمین میں ایک ہزار چار سو سے زیادہ لوگ نہیں رہتے تھے۔ لیکن یہ زمین کجھور کے درختوں سے بھری اور کھیتی باڑی کے لیے آمادہ سر زمین تھی جبکہ اس کے اطراف کی دیگر تمام زمینیں خشک اور بنجر تھیں۔ حائط (فدک) موجودہ دور میں اپنی سابقہ اہمیت کو کھو چکا ہے مدینہ کے کسی راستے میں بھی واقع نہیں ہے اس لئے متروک ہو چکا ہے(۳)
بہرحال ایسا لگتا ہے کہ یہ علاقہ اس وقت وہاں کے رہنے والوں کے زیر استعمال ہے اور بطور عمومی سعودی حکومت ہی کے زیر قبضہ ہے اور اس کی درآمد سے بھی اس سرزمین پر ساکن لوگ ہی استفادہ کرتے ہیں اور کوئی خاص شخص یا کوئی خاص حکومت اس کی مالک نہیں ہے۔
حوالہ جات
1؛ اسراء/۲۶؛ حشر/۶ و ۷؛ و بلاذری، فتوح البلدان، قم، منشورات الارومیه، ۱۴۰۴، ص ۴۲ ـ ۴۷ و ص ۳۶ ـ ۴۲؛ و مدنی، عبدالعزیز، التاریخ الامین، قم، انتشارات امین، ۱۴۱۸، ص ۴۶ و ۵۱۔2: فالی، سید احمد، فدک، قم، مجمع الذخائر اسلامی، چاپ دوم، ۷۸، ص ۱۸۳۔
3نجفی، محمد باقر، مدینه شناسی، آلمان، ناشر سفارت ایران در بن، ۱۳۷۵، ص ۳۳۵ ـ ۳۴۰؛ و محمد محمد حسن شراب، المعالم الاثیره فی السنه و السیره، دمشق، دار العلم، ۱۴۱۱، ص ۲۱۵۔
جون 2008ء میں آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے اپنے سعودی عرب کے دس روزہ دورے کے دوران اس تاریخی علاقے کا قریب سے مشاہدہ کیا اور کچھ ایسے حقائق سے پردہ ہٹایا جو آج تک عام لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہم اس خبر کو فارسی سے اردو میں ترجمہ کر کے معہ تصاویر ایک بار پھر شائع کرتے ہیں اگر چہ اس خبر کو آٹھ سال گزر چکے ہیںتاہم اُمت مسلمہ کو بیدار و تاریخی اسلامی مقامات کے حوالے سے خبردار کرنا ہر ایک کلمہ گو کا فریضہ ہے۔آیت اللہ رفسنجانی نے مدینہ منورہ سے260 کلو میٹر کی دوری پر واقع صوبہ ’’حائل‘‘ کے ’’الحائط‘‘ نامی علاقے کا دورہ کیا جو شیعیان مدینہ کے رہبر مرحوم آیت اللہ شیخ محمد علی العمری کے بقول بلکہ تاریخی شواہد کے مطابق وہی ’’فدک‘‘ ہے۔آیت اللہ رفسنجانی ایک ایرانی وفد کے ہمراہ سعودی حکومت کی سکیورٹی کے تحت جب اس علاقے میں قدم رکھتے ہیں تو اس صوبے کے گورنر سمیت علاقے کے مقامی لوگ بھی ان کا استقبال کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ صوبہ حائل کے گورنر ’’نائف‘‘ آیت اللہ ہاشمی سے کہتے ہیں: یہ فدک ہے پرانے لوگ اسے ابھی بھی فدک کہتے ہیں۔ اس شہر میں35 ہزار لوگ بستے ہیں۔
اس کے بعد اس علاقے کا رہنے والا ’’محمد عبد الرحمن جابر‘‘ ایک بوڑھا شخص جو پہلے اس علاقے میں امر بالمعروف کمیٹی کا سربراہ ہوتا ہے آیت اللہ ہاشمی سے گفتگو اور ان کے سوالات کے جوابات دیتا ہے؛
آیت اللہ ہاشمی نے ان سے پوچھا: اس علاقے کو کیوں فدک کہتے ہیں؟
عبد الرحمن جابر: چونکہ پیغمبر اکرم(ص) نے اسے حضرت زہرا (س)کو بخشا تھا۔
آیت اللہ ہاشمی: کیوں پیغمبر(ص) نے اسے حضرت زہرا(س) کو بخشا؟
عبد الرحمن جابر: ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ چونکہ یہ علاقہ بغیر جنگ کے فتح ہوا اور اس علاقے کے رہنے والوں نے اسے پیغمبر کو ہدیہ دیا پیغمبر اکرم (ص)نے بھی اسے حضرت زہرا (س)کو ہدیہ دے دیا۔
ہاشمی: اس علاقے میں کون کون سی چیزیں فاطمہ (س)کے نام سے پائی جاتی ہیں؟
عبد الرحمن جابر: فاطمہ کے نام سے سات چشمے ہیں، ایک مسجد فاطمہ ہے، ایک وادی فاطمہ ہے کچھ بساتین فاطمہ (باغات) ہیں۔
ہاشمی: کیوں فدک کا نام بدل دیا اور اسے حائط رکھ دیا ( حائط عربی میں دیوار کو کہتے ہیں)
جابر: اس علاقے میں تین اونچی اونچی دیواریں ہیں جنہوں نے اس علاقے کو اطراف سے گھیر رکھا ہے اور ان دیواروں کے اندر باغات فاطمہ ہیں۔ یہ مسجد جو دوبارہ بنائی گئی ہے پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے کی ہے جو مسجد فاطمہ کے نام سے معروف ہے ۔ہم آل جابر ہیں جو سینکڑوں سال سے یہاں بستے ہیں اور سعودی حکومت سے پہلے ہم یہاں حاکم تھے۔
ہاشمی: فدک کا کل رقبہ کتنا ہے؟
جابر: فدک کا کل رقبہ50 پچاس کلومیٹر در 50 کلو میٹر ہے۔
ہاشمی: چشموں کا پانی کیسا ہے؟
جابر: یہ چشمے جو عیون فاطمہ کے نام سے معروف ہیں ان کا پانی بے توجہی کی وجہ سے قابل استفادہ نہیں ہے صرف کھیتی باڑی کے کام آتا ہے۔
ہاشمی: میں چشمہ فاطمہ سے پانی پینا چاہتا ہوں۔
جابر اور وہاں موجود دوسرے افراد نے انہیں پانی پینے سے منع کیا اور کہا: پانی کی کیفیت مناسب نہیں ہے نہ پی جیئے گا۔
آیت اللہ ہاشمی کی آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے اور کہا: کیا یہ بدنصیبی نہیں ہے کہ انسان یہاں تک آئے اور چشمہ فاطمہ سے سیراب نہ ہو؟
یہ جملہ کہنا تھا کہ دوسرے افراد کی آنکھیں بھی اشکبار ہو گئیں۔(بشکریہ ’’ابنا‘‘نیوز)