بہادرانہ موقف:میرا بیٹا مظلومانہ طور امام حسینؑ کی طرح شہید ہوگیا: بابر قادری کی والدہ

سرینگر/ولایت تائمز نیوز سرویس/30ستمبر2020/کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں جمعرات کی شام نامعلوم بندو برداروں نے معروف وکیل اور ٹی وی چرچوں پر حصہ لینے والےایڈوکیٹ سید بابرجان قادری کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ان کی ہلاکت سے پوری وادی میں تشویش اورغم و غصے کی لہر پھیل گئی۔واضح رہے سید بابر قادری نے کئی بار اپنی جان پر حملے کے خطرے کا عندیہ تھا ۔ ذرائع نے بتایا کہ نوجوان وکیل ایڈووکیٹ سید بابر قادری پر علاقہ حول میں نامعلوم مسلح افراد نے ان کے گھر کے صحن میں گھس کرگولیاں مارکر ہلاک کردیا۔ ایڈوکیٹ ، جو دو نابالغ بیٹوں کا باپ تھا ، کوشیر کشمیر میڈیکل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سکمز صورہ سرینگر منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دیا بعد ازاں آخری رسوم کے لئے نعش لواحقین کے حوالے کردی گئی۔ان کی لاش وہاں پہنچنے کے بعد بابر کے رہائشی علاقے میں کہرام مچ اور ماتم کا ماحول چھا گیا۔ بابر قادری کی لاش ، وہاں پہنچنے پر کنبہ ، رشتہ دار، دوست اور ہمسایہ خواتین روتے ہوئے دکھائی دئے ۔دریں اثنا حول کے علاقے میں مقتول ایڈووکیٹ کی نماز جنازہ میں سینکڑوں افراد شریک ہوئے اور لوگوں نے نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت و نعرہ حیدری بلند کرتے ہوئے بابر قادری کو خدا حافظ کیا۔سید بابر قادری کو ان کے آبائی گاوں واقعہ شیخ پورہ کنزر ٹنگمرگ کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔

ولایت ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایڈوکیت سید بابر قادری کے ایک قریبی رشتہ دار نے بتایا کہ دو نامعلوم پستول بردار جمعرات کی شام قریب ساڑھے چھ بجے سرینگر کے حول علاقے میں واقع سید بابر قادری کی رہائش گاہ کے اندر داخل ہوئے اور ان پر نزدیک سے گولیاں چلائیں۔ انہوں نے کہاکہ مسلح افراد گولیاں چلانے کے فوراً بعد جائے وقوعہ سے فرار ہوگئے۔ ہم شدید زخمی بابر کو شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز لے گئے جہاں انہیں مردہ قرار دیا گیا۔

پیشے سے وکیل سید بابر جان قادری 15 ستمبر1980 کو پیدا ہوئے۔ وہ ہندوستان کی ٹی وی چینلز پر کشمیر کے حالات و واقعات پر ہونے والے مباحثوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ وہ سوشل میڈیا پر بھی کافی متحرک تھے۔ بابر قادری خورزامی سادات میں سے تھا اور محمد وآل محمد(ع)  کے مخلص محب تھا۔ وہ اکثر و بیشتر نواسہ رسولِؐ، حضرت امام حسینؑ کی مظلومانہ شہادت کو یاد کرتے ہوئے اپنے فیسبوک صفحہ پر عاشورا سے منسوب پیغامات کو شائع کرتا تھا اور مجالس حسینی میں بڑے شوق سے شرکت کرتا۔ سید بابر قادری مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان اتحاد و برادری کا داعی تھا اور فرقوں و رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر انسانیت کی بہتری کیلئے کام کرنے میں یقین رکھتا تھا۔ سید بابر قادری نے کئی سال قبل Lawyers Club بنائی اور پھر سابق وزیر و جموں سے تعلق رکھنے والے بابو سنگھ کے ساتھ مل کر ایک سیاسی و سماجی تنظیم All Jammu and Kashmir People’s Justice Party  بنائی۔ بابر قادری کا کنبہ 1990 کی دہائی میں شمالی ضلع بارہمولہ کے شیخ پورہ کنزر سے سرینگر کے حول علاقے میں منتقل ہوا تھا۔

ان کے قتل سے کچھ گھنٹے پہلے ہی وکیل بابر قادری نے جموں و کشمیر بار ایسوسی ایشن کو حریت چوکی ہونے کا الزام لگایا اور ان پر علیحدگی پسندوں کے ساتھ ملی بھگت کرنے کا الزام عائد کیا۔

اطلاعات کے مطابق جمعرات کی رات دیر گئے جب ایڈوکیٹ بابر قادری کی لاش ان کے آبائی گاؤں لائی گئی تو وہاں صف ماتم بچھ گیا اور ہر ایک کی آنکھیں نم ہوئیں۔ان کے آبائی علاقہ میں تعزیت پرسی کا سلسلہ اتوار تک جاری رہا جس دوران رسم فاتحہ خوانی میں وادی بھر سے آئےلوگوں کی ایک بڑی تعداد نےلواحقین سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے بابر قادری کو شاندار الفاظ میں خراج عقید ت پیش کیا۔ اس کے علاوہ منگلوار کو حول سرینگر میں فاتحہ خوانی کے سلسلے میں مجلس کا انعقاد کیا گیا جس میں مختف طبقہ ہائے فکر سے وابستہ شخصیات نے شرکت کی۔ واضح رہے کہ کشمیر میں اس طرح کی پراسرار ہلاکتیں ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ 1990سے لیکر آج تک کئی معروف و با اثر شخصیات جیسے میرواعظ فاروق، خواجہ غنی لون، ڈاکٹر احد گورو، مولانا شوکت، آغا سید مہدی موسوی وغیرہ کو نا معلوم بندوق برداروں نے جاں بحق کیا۔سال 2018 کے جون میں ایسی ہی ایک واردات میں نامعلوم اسلحہ برداروں نے معروف صحافی سید شجاعت بخاری کو ہلاک کیا تھا۔

کشمیر پولیس اور دیگر بھارتی سکیورٹی ادارے اس طرح کی ہلاکتوں کے لیے ہر بار عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ تاہم مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ ان واقعات کی تحقیقات کبھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتی۔

سید بابر قادیری کی والدہ شمیمہ مسعودی نے روتے ہوئےکہا:”اس (بابر) کے قاتلوں کو میرے سامنے لاؤ۔ بیٹا ، میں تمہیں اپنی جان دونگی۔ بابر قادری، امام حسین ؑکی طرح شہید ہو گیا۔

ولایت ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سید بابر قادری کے 70 سالہ والد محمد یٰسین نے بتایا کہ واقعہ سے قبل قادری نے اپنی والدہ سے کھانے کی درخواست کی تھی کہ اچانک گھر کے صحن میں دو نوجوان داخل ہوئے اور ان کے والد سے قادری کو باہر بلانے کو کہا۔ مذکورہ مسلح افراد نے کہا تھا کہ وہ کسی کیس کے سلسلے میں بابر قادری سے ملنا چاہتے ہیں۔ بابر کے والد ان کیلئے چائے وغیرہ کا انتظام کرنےکی خاطر اندر چلے گئے جس کے بعد گولیوں کی آواز سنائی دی اور دیکھا کہ بابر گھر میں داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا کہ اچانک نیچے گر گیا۔ ہم نے مدد کے لئے چیخا  اور بابر کو ان کے والد و برادر نے اپنی آغوش میں لیا۔

سید محمد یٰسین کا خیال ہے کہ اس کے بیٹے کا قتل ایک منصوبہ بند قتل و سازش کا حصہ تھا۔ اہل خانہ کا الزام ہے کہ ظاہرا دو بندوق برداروں میں سے ایک مقامی تھا اور دوسرا غیر مقامی لگتا تھا۔

ان کے بھائی نے کہا کہ گھروالوں کو اندازہ نہیں ہے کہ قادری کو کس نے مارا ہے ، لیکن ان کا ماننا ہے کہ لوگوں کو متاثر کرنے والے مختلف امور پر بہادرانہ موقف نے ان کی جان کی قیمت دے دی۔

ظفر قادری نے کہا کہ عدالتوں کے کمروں سے لے کر ٹی وی مباحثوں تک ، وہ کبھی بھی ناانصافی اور عام لوگوں کو درپیش مشکلات کے خلاف بولنے سے نہیں ڈرتا تھا۔

ایک سینئر وکیل  اور بابر کا ہمکلاسی شفقت نذیر نے کہا کہ انہوں (بابر) نے ہندوستانی میڈیا پر ہندوستان کو غلط کہا۔ وہ پاکستان گیا اور کہا کہ آپ (پاکستان) غلط ہے۔ کشمیر میں ، اس نے یہاں تک کہ گیلانی کو غلط کہا۔ اس جیسا شخص ہزار سال میں ایک بار پیدا ہوتا ہے۔

شفقت نذیر نے کہا کہ : بابر قادری ایک بزدل فرد نہیں تھا بلکہ “اس کی بہادری نے اسے مار ڈالا۔”

دریں اثنا عام کشمیریوں نے بالعموم اور وکلا برادری، سیاسی، سماجی و مذہبی جماعتوں کے لیڈران نے بالخصوص بابر قادری کی ہلاکت پر دکھ اور صدمے کا اظہار کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر اکثر صارفین یہی سوال پوچھے نظر آرہے ہیں کہ بابر قادری کو کس نے اور کیوں مارا؟

اس دوران جموں کشمیر پولیس نے ایڈووکیٹ بابر قادری کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم(SIT) تشکیل دے دی ہے۔

انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار نے جمعے کو سرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں آج صبح بابر قادری کے گھر گیا۔ بعد ازاں میں نے ضلع سرینگر کے پولیس افسران کے ساتھ ایک میٹنگ کی۔ ہم نے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے جس کی سربراہی ایس پی حضرت بل کریں گے۔ہم بہت جلد پتہ لگائیں گے کہ اس میں کون اور کس تنظیم کے عسکریت پسند ملوث ہیں اور انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کریں گے اوراگر گرفتاری ممکن نہ ہوئی تو جھڑپ میں ہلاک کریں گے۔ ہمارے لیے یہ کیس اہم ترجیحات میں شامل ہے۔ گلی میں نصب سی سی ٹی وی فوٹیج کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے۔

پولیس کنٹرول روم سرینگر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آئی جے کشمیر نے کہا ’’حملہ آوروں نے قادری کو بتایا کہ انہیں ایک حادثے سے متعلق کسی معاملے پر تبادلہ خیال کرنا ہے لیکن اس کے سر پر پستول سے فائر کیا گیا ،اور قادری کے سر میں گولیوں کے چار زخم آئے اور وہ اسپتال جاتے ہوئے دم توڑ گئے‘‘۔وجے کمار نے بتایا ، جنگجوئوں نے بھاگتے ہوئے کچھ گولیاں فضا میں فائر کیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ کیس فورسز کیلئے اعلیٰ ترجیجات میں شامل ہے،اور اس کی جانچ کیلئے خصوصی تحقیقاتی ٹیم کو تشکیل دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ہم نے ایس پی حضرتبل کی سربراہی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے جو قادری کے قتل کی تحقیقات کرے گی،جبکہ اس میں پولیس کے سنیئر افسران کے علاوہ قانونی ماہرین کو بھی شامل کیا جائے گا۔‘‘ وجے کمار نے کہا’’ میں جمعہ صبح (قادری) کے گھر گیااور جا ئے واردات کا معائنہ کیا۔ ان کا کہنا تھا’’ خصوصی تحقیقاتی ٹیم کو بتایا گیا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کریںاور فوری طور پر کیس کو حل کرکے اس بات کو سامنے لائے،کہ کون سی جنگجو تنظیم اس واقعہ میں ملوث ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ حملہ آواروں کو عنقریب یا تو گرفتار کیا جائے گایا مار دیا جائے گا۔آئی جے نے کہا’’ ہم انہیں جتنا جلد ممکن ہوسکے، گرفتار کریں گے،یا انہیں ختم کیا جائے گا،یہ کیس ہماری ترجیجات میں شامل ہے‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ جائے واقعہ کے نزدیکی  نصب سی سی ٹی وی کیمرہ سے بھی تصاویر حاصل کی جا رہی ہیں۔ آئی جی پی نے کہا کہ بابر قادری کے کار پر سال2018میں بھی گولیاں چلائی گئی تھیں،اور انہیں خطرات بھی لاحق تھے تاہم انہوں نے محفوظ علاقے میں منتقل کرنے سے انکار کیا تھا۔ انہوں نے کہا’’ ایک پولیس افسر،جو کہ بابر کا رشتہ دار بھی ہے،نے انہیں حول سے محفوظ علاقے میں منتقل کرنے کی درخواست کی تھی،تاہم انہوں نے اس کو مسترد کیا۔مقامی پولیس افسر نے بھی کہا کہ انہیں گزشتہ ایک ہفتے سے منتقل ہونے کی استدعا کی گئی،کیونکہ وہ علاقہ گنجان ہے اور پولیس کا گشت بھی وہاں مشکل ہے‘‘۔ وجے کمار نے کہا’’ انہوں(قادری) نے کہا تھا کہ وہ اپنے گھر کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے۔‘‘ انہوں نے مزید کیا’’ میں نے ان کا وہ ٹویٹ دیکھا تھا جس میں انہوں نے جان کے خطرے کی بات کی تھی،تاہم  بدقسمتی سے انہوں نے اس ٹویٹ میں کشمیر پولیس کو اس سے منسلک نہیں کیا تھا،بلکہ  جموں پولیس کو کیا گیا تھا‘‘۔ کمار نے ان لوگوں سے اپیل کی کہ جن کو حفاظت حاصل ہے یا وہ جنہیں نہیں ہے،اور انہیں خطرات کا سامنا ہے وہ پولیس سے رابطہ قائم کریں۔ انہوں نے کہا’’ بابر نے اس سلسلے میں ہمارے ساتھ کسی بات کا اشتراک نہیں کیا تھا،وگرنہ ہم انہیں محفوظ مقام پر منتقل کرتے‘‘۔

اس دوران منگلوار کو ڈی جی پولیس دلباغ سنگھ نے بابر قتل کیس میں پیشرفت کا اعلان کرتے ہوئے میڈیا نمایندوں سے کہا کہ جلد جموں کشمیر پولیس معاملے کو حل کرکے حقیقت عوام کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کریگی۔

ادھر جموں کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں نے بابر قادری کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور زور دیا کہ نامعلوم بندوق برداروں کو بے نقاب کیا جائے۔

 سابق وزیر اعلی جموں و کشمیر اور نیشنل کانفرنس (این سی) کے نائب صدر عمر عبداللہ نے ایک ٹویٹ میں ان کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے افسوسناک قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ المیہ کا احساس سب سے زیادہ ہے کیونکہ انہوں نے دھمکی آمیز پیغامات ملے تھے آج شام بابر قادری کا قتل افسوسناک ہے اور میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ المیے کا احساس سب سے زیادہ ہے کیونکہ اس نے دھمکی سے خبردار کیا تھا۔ افسوس کی بات ہے کہ ان کی انتباہ ان کی آخری ٹویٹ تھی۔ سابق وزیر اور پیپلز کانفرنس (پی سی) کے صدر سجاد گنی لون نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ایک اور کشمیری گولیوں کا نشانہ بنتا ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی دی پی) نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوءے حرکت کو بزدلانہ قرار دیا اور زور دیا کہ ملوثین کو جلد از جلد بے نقاب کرکے سخت سزا دی جائے۔اپنی پارٹی کے نائب صدر غلام حسن میر نے بھی اس ہلاکت کی مذمت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک نوجوان اور ذہین وکیل کی ہلاکت جس نے کشمیر کے سب سے غریب ترین ، پسماندہ حصوں کے ممبروں کی نمائندگی کی تھی ۔جموں وکشمیر عوامی نیشنل کانفرنس نے دن دھاڈے نوجوان وکیل بابر قادری کی ہلاکت پر انتہائی افسوس اور رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ایڈوکیٹ بابر قادری کے خاندان کے ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔عوامی نیشنل کانفرنس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کشمیر میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری لانے کیلئے دن رات لاکھوں کی تعداد میں سیکورٹی اہلکار پہرہ دے رہے ہیں تاہم اس کے باوجود جموں و کشمیر میں قتل و غیرت گری کا ماحول جاری رہنا اور یہ دعوی کرنا کہ جموں و کشمیر میں حالات بہتر ہورہے ہیں کسی بلند چھوٹ سے کم نہیں ہے۔جبکہ ایڈوکیٹ بابر قادری کی نامعلوم بندوق برداروں کے ہاتھوں ہلاک کرنے سے ایسے دعووں کی پول کھول دی ہے۔عوامی نیشنل کانفرنس کے ترجمان نے دن کے اجالے میں بابر کے ہلاکت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس غیر انسانی حرکت کے مرتکب افراد کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی نظریہ افکار اور وابستگی میں فرق کا مطلب گولی سے خاموش نہیں ہونا ہے۔ اے این سی کے ترجمان نے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے۔ وادی کشمیر میں میرواعظ مولوی عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس نے اپنی ہی رہائش گاہ میں نامعلوم بندوق برداروں کے ہاتھوں ایڈوکیٹ بابر قادری کے بہیمانہ قتل پر دکھ اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے سفاکانہ قتل کی واردات نہ صرف دل دہلا دینے والے ہیں بلکہ انتہائی قابل مذمت ہیں۔حریت کانفرنس کے ترجمان کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ اس طرح کی واردات کا شاخسانہ دیرینہ تنازعہ کشمیر کا معلق رہنا ہے جس کی وجہ سے قیمتی انسانی جانیں اس کا شکار ہو رہی ہیں۔ترجمان نے سوگوار کنبہ کے ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی مغفرت اور جنت نشینی کی دعا کی ہے۔(ولایت تائمزڈاٹ کام)