سرینگر/ولایت ٹائمز نیوز سرویس/جموںوکشمیر عوامی مجلس عمل کے زیر اہتمام تنظیم کے مرکزی دفتر مرکز علم و فن تاریخی میرواعظ منزل سرینگر پر مبارک مارہ ربیع الاول کے اختتام پر ولادت با سعادت و بعثت مبارکہ جناب سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی مناسبت سے ایک باوقار سیرتی مجلس کا انعقاد کیا ۔ سربراہ تنظیم میرواعظ ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق 5 اگست 2019 سے لگاتار نظر بندی کے سبب اجلاس کی صدارت نہیں کرسکے۔ اجلاس میںصدارت کے فرائض سینئر حریت رہنما پروفیسر عبد الغنی بٹ نے انجام دیئے۔
ولایت ٹائمز کو موصولہ بیان کے مطابق سیرتی محفل میں جن سرکردہ علماء، قائدین اور ممتاز دانشوروں نے خطاب کیا ان میں مولانا شوکت حسین کینگ، پروفیسر عبدالغنی بٹ، مولانا مسرور عباس انصاری،ڈاکٹر سید سمیر صدیقی، غلام حسن غمگین ، انجینئر محمد آفاق چشتی، شبیر احمد میر، شفاعت احمد وفائی، انجینئر ہلال وار اور مولانا ایم ایس رحمن شمس نے سیرت سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی درخشندہ زندگی اور حالات طیبہ کے تابناک گوشوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔
اس موقعہ پر مقررین نے حریت چیرمین اور سربراہ تنظیم میرواعظ ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق کی لگاتارنظر بندی پر فکر و تشویش کا اظہار کیااور ان سمیت تمام محبوس سیاسی قیادت کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ میرواعظ کشمیر کی نظر بندی جموںوکشمیر کے تمام طبقے کے لوگوں کیلئے حد درجہ تکلیف دہ اور باعث اضطراب ہے۔
مقررین نے کہا کہ حکومت نے5 اگست2019 کے بعد جو مسلسل عوام کش اقدامات اٹھا رہی ہے ۔طاقت کے بل پر جس طرح عوام کے جملہ بنیادی، انسانی ، سیاسی اور مذہبی اور جمہوری حقوق پامال کئے جارہے ہیں وہ نہ صرف باعث تشویش ہے بلکہ قابل مذمت بھی ہے۔ مقررین نے یہ بات واضح کی کہ طاقت اور تشدد کے بل پر مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا بلکہ اگر واقعی حقیقی امن اور ترقی چاہئے تو دیرینہ تنازع کشمیر کو تمام فریقین کے درمیان پر امن مذاکرات سے حل کرنا ہے ۔
مقررین نے کہا کہ5 اگست2019 کے بعد تاریخی اور تحریکی مرکز میرواعظ منزل سےآج ہم قوم سے مخاطب ہیں کہ یہ عظیم اور قدیم عمارت نہ صرف ہماری تاریخی، تہذیبی،دینی اور سیاسی وراثت کے حامل ہیں بلکہ اسے روز اول سے بیحد نشیب و فراز اور اتار چڑھاؤ دکھے ہیں ۔ ملت کشمیر کے عزم اور حوصلہ بلند رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے مقرین نے کہا کہ جموںوکشمیر عوامی مجلس عمل اوراس سے قبل مسلم کانفرنس ، اسکی بے باک قیادت نے روز اول سے نہ صرف عوامی جذبات اور احساسات کی بے لوث ترجمانی کی ہے بلکہ ہر اہم اور نازک مرحلے پر کشمیری عوام کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔اجلاس کے آخر میں 1947میں شہدائے جموں کی برسی پر انہیں زبردست خراج عقیدت ادا کیا گیا اور انہیں درجات کی بلندی کیلئے دعا کی گئی۔