تہذیبی جارحیت کے بنیادی مقاصد

دشمن اپنے مطلوبہ اہداف کو حاصل کرنے کے لئے بالواسطہ یا بلا واسطہ کچھ ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے جن کے ذریعے وہ اپنے مدمقابل کے دینی اعتقادات اور مذہبی اقدار کو اپنے حملوں کا نشانہ بناتا ہے، اور اس کی چال ڈھال اور اخلاقیات کو مجروح کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ دشمن تہذیب کے معنوی اور باطنی پہلووں پر بھی حملہ آور ہوتا ہے، اور اس کے مادی و محسوس گوشوں پر بھی ڈاکہ ڈالتا ہے، لہذا تہذیبی جارہیت کے سلسلے میں دشمن کے طور طریقوں سے آشنائی اس جارہیت کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہونے کا پیش خیمہ ہوگا۔

ظاہر بین نگاہ کا فیصلہ ہے کہ جنگ بندوقوں کے بل پر لڑی جاتی ہے یعنی جب مخالف لشکر ایک دوسرے کے سامنے آجائیں، اور ایک دوسرے پر تیرں، تلواروں یا بندوقوں یا میزائلوں کی بارش برسائیں، جب انسانی پیکر خاک و خون کا لقمہ بن جائے ، پیکر خاکی کے ٹکڑے اچھالیں جائیں، درد و کرب سے طبعیت کی روح تھرتھر کانپے، اسی کیفیت کو عمومی طور پر جنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے،یقینا یہ جنگ ہے لیکن جنگ کی ایک اور قسم بھی ہے۔غیر محسوس لیکن محسوس جنگ سے کہیں زیادہ مہلک۔

رہبر مظم سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ سخت جنگ (روایتی جنگ)کے برخلاف نرم جنگ ذہنی اور انتزاعی خصوصیات کی حامل ہے اس لئے اس کی شناخت دشوار ہے، اس کے مقابلے میں روایتی جنگ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ملموس ہے اور اس کے خلاف رد عمل سامنے آتا ہے، جنگ نرم میں کھلاڑیوں کی شناخت اور دشمن کی بساط اور پھلاو کا اندازہ لگانا مشکل امر ہے اور بہت کم لوگ ردعمل و مخالفت کا اظہار کرتے ہیں، فوجی یلغار میں آپ اپنے مخلاف کو پہچانے ہیں، دشمن کو دیکھتے تو ہیں لیکن معنوی، تہذیبی اور نرم جنگ میں آپ اپنے دشمن کو اپنے روبرو نہیں دیکھ سکتے ہیں۔

تہذیبی جارحیت کے بنیادی مقاصد یہ ہیں کہ دوسرے مملاک پر بلاواسطہ قبضہ جمایا جائے، ان کے جوانوں کو انکی تہذیب سے دور کیا جائے، اور ایک راستہ دکھایا جائے جو گمراہ کن ہو، جسسے وہ بلاواسطہ حریف ملک وملت کے جوانوں کو اپنی خودساختہ تہذیب کے جال میں پھنسا کر اپنے سیاسی ،سماجی اور اقتصادی مفادات حاصل کرتے ہیں، ان میں سے چند ایک کو مختصر الفاظ میں پیش کیا جاسکتا ہے:

دینی اعتقادات کی تضعیف:

انسان کا عمل اس کے فکر و نظر کی عکاسی کرتا ہے مسلمان اپنے مذہبی اعتقادات و ایڈیالوجی کے مطابق زندگی گزارتا ہے، تہذیبی حملہ آور ان ہی دینی اعتقادات کو کمزور اور خراب کرنا چاہتا ہے اور اعتقادی اعتراضات فکری انحرافات اور منطقی اور استدلالی منابع سے غفلت اور پا کیزہ سوچ کی ترویج اور نتیجہ میں عقیدتی کمزوری جیسے حربے اپنا کر اسلام کے چہرے کو بگاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔

قومی پہچان کی تخریب: روایتی اقدار ایک معاشرے کی پائیداری اور اس کی پہچان کا پیش خیمہ ہوتے ہے، اور قوموں کی شبیہ بگاڑنے یا تہذیہبی شناخت کو مجروح کرنے سے معاشرے کا بکھرنا بدیہی امر ہے

خود دار شخصیتوں پر حملہ:

ہر قوم کی قد آور شخصیتیں اس کی ترقی اور پیشرفت کی عامل سمجھی جاتی ہیں، یہ شخصیتیں ستاروں کی طرح چمکتی ہیں اور یوں اپنی نئی نسل کو تلاش و کوشش اور جدو جہد پر ابھارتی ہیں، دشمن سب سے پہلے ان شخصیات کو حرس اور لالچ دے کر انہیں اپنے قومی راستے سے منحرف کرنا چاہتا ہے اور اگر وہ اس معاملے میں ناکام ہو جائیتو غلط پروپیگنڈے کے ذریعے ان شخصیتوں کے متعلق غلط تصویر دنیا کے سامنے لائی جاتی ہے، اور جب یہاں بھی ناکامی کا سامنا ہوتو اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر قوم کے ان دانشوروں اور مجاہدوں کے پاک خون سے ہاتھ رنگین کرتا ہے۔

قومی نظریات کی نفی:

انسان اپنی زندگی کی جہت کو منظم کرنے اور صحیح سمت میں حرکت دینے کیلئے ایڈیل کا محتاج ہے کیونکہ نوجوان اور جوان نسل کا ایڈیل سے متاثر ہونا ایک طبعی بات ہے اور یہ انسانی فطرت کا تقاضہ ہے کہ یہ ایڈیل جس قدر اپنی قومی اور روایتی تہذیب سے سازگار ہونگے اتنا ہی یہ معاشرہ بھی باہمی تعاون اور اتحاد و یکجہتیء نعمتوں سے مالامال ہوگا یہی وجہ ہے کہ تہذیبی حملہ آور مذہبی نظریات کی تخریب میں لگے ہوئے ہوتے ہیں اور اپنے تمام تبلیغی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی تہذیب کی ترویج کرنے کے لئے اپنے بنائے ہوئے ایڈیل پیش کرتے ہیں۔اور بعض جوانوں میں لباس کی وضع قطع ، بالوں کی عجیب و غریب ہیت، سماجی راہ و روش اور غیر ملکی اشیا کا استعمال اس تہذیبی جارحیت کی مختلف آشکارا علامتیں ہیں۔

قوم پرست جماتوں اور انحرافی گرہوں کی ایجاد:

حالیہ چند صدیوں میں اپنے تسلط کو مزید استحکام بخشنے کے لئے حملہ آوروں کی ایک دیرنہ چال یہ ہے کہ ایک ہی قوم کے مختلف قوم پرست جماعتوں اور قبائلی و مذہبی گرہوں کو ایک دوسرے کے خلاف بڑھکایا جائے، اور اسی طرح ان کے اندر مخلتف انحرافی جماعتوں کو وجود میں لایا جائے اور اقتصادی، سیاسی تہذیبی اور سماجی میدانون میں قوم کو کمزرو کرکے وحدت اور یکجہتی کو ختم کردیا جائے ۔

فسق و فجور اور منکرات کی ترویج:

سماج کا متاثر ہونے والا ایک پہلو معاشرے مین فسق و فجور اور منکرات کی ترویج ہے، الہی آئین کے رو سے اخلاقی فساد اور گناہ معاشرہ کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتے ہیں ، حملہ آور دشمن مختلف حربوں سے خاص طور پر جوانوں کو اپنا نشانہ بناتا ہے، گناہ اور برائیوں کو ان کے اندر عام کردیتا ہے، منشیات کا پھیلاو، غیر اخلاقی فلمیں، عریاں اور نیم عریاں تصاویر معاشر تی بگھاڑ کو فروغ دیا جاتا ہے

تہذیبی جنگ میں انسانی جسم کو نشانہ نہیں بنایا جاتا ہے، گھروں کو مسمار نہیں کیا جاتا ہے، دیہاتوں اور شہروں کو کھنڈرمیں تبدیل نہیں کیا جاتا ہے، برعکس اسکے تہذیبی جنگ میں انسانی روح کو نشانہ بنایا جاتا ہے خاندانی اقدار کو ملیا میٹ کیا جاتا ہے اجتمای انسانی روابط کا خون کیا جاتا ہے اور تہذیبی شناخت کو مٹایا جاتا ہے انسان کو حقیقی زندگی سے غافل کیا جاتا ہے حقیقی کرداروں پر پردہ ڈالا جاتا ہپے اور زندگی کے حقائق کو نظروں سے اوجھل کردیا جاتا ہء اس کے مقابلے میں مجازی اور نقلی زنددگی کو حقیقت کا روپ دیا جاتا ہے، بناوٹی کردار کو سنوارا جاتا ہے، اور ان کو میڈیا کے طاقتور کاندھوں پر بٹھا کر انہیں نمونہ عمل بنا کر پیش کیا جات ہے، عریانیت کو جدیدیت کے نام پر فروغ دیا جاتا ہے، جوانوں کو گمراہ کیا جاتا ہے، منشیات کو فروغ دیا جاتا ہے عورتوں کو آزادی کے نام پر ہوس کا شکار بنایا جاتا ہے، ماں بہنوں کو جدیدیت کا نام پر پردہ دری کے طور طریقے سکھائے ھاتے ہیں، نوجوان نسل کو بے راہ روی اور اخلاقی فساد مین مبتلا کردیا جاتا ہے۔

تہذیبی جارحیت سماج کے ہر طبقہ پر اثر انداز ہوتی ہے، تہذیبی جارحیت کے کارندیعوام اور ملک کے چیدہ چیدہ افراد کو نشانہ بناتے ہیں انسانیت کے ماتھے پر حقارت اور ذلت کا دھبہ لگانا چاہتے ہیں، انسانیت کو ملئیا میٹ کرنا چاہتے ہیں، بہرحال تہذیبی جارحیت کے ذریعہ جنگ کا دائرہ ہمارے گھروں ، درسگاہوں، گلیوں اور صحنوں تک پھل چکا ہے

، اس جارحیت میں معاشرے کا ہر فرد حملے کی زد میں ہے اس لئے معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ اس حملے کے خلاف میدان میں آجائے کیونکہ تہذیبی جنگ میں شکت خوردہ شخص اس قدر بے بے حس ہوجاتا ہے، کہ اسلام و ایمان اور اعلی اقدار تو دور کی بات ہے وہ یہ بھی بھول جاتا ہے اسے کسی انسان نے جنم دیا ہے۔