نئی دہلی/خصوصی رپورٹ/شعبہ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور ولایت فاونڈیشن نئی دہلی کے اشتراک سے 16فروری2016ء کو عرفان اسلامی اور عارف بزرگ علامہ ابوالحسن حافظیان ؒ کے موضوع پر منعقد سہ روزہ بین الاقوامی سیمینار میںملک اور بیرون ملک سے آے دانشوران نے اپنے علمی اور فکری خیالات کا اظہار کیا ۔
کانفرنس کی صدارت جامعہ ملیہ اسلامی کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمد نے انجام دی۔ عالمی سیمینار سے افتتاحی خطبہ پیش کرتے ہوئےبھارتی وزیر اقلیتی امور ڈاکٹر نجمہ ہیبۃاللہ نے کہا کہ تصوف کا موضوع کسی خاص انسان سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ پوری انسانیت کی مشترکہ وراثت ہے اورہندوستان ہمیشہ اس مشترکہ میراث کی دولت کو تقسیم کرتا رہا ہے ۔
افتتاحی تقریب کا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوے پروفیسر اخترالواسع کمشنر لسانی اقلیات ہند نےکہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور ہندوستان کے درمیان جو شاہراہ گزرتی ہے وہ تصوف اور روحانیت کی شاہراہ ہے ۔ ہندوستان میں فروغ پانے والے اکثر سلسلہ ایران سے شروع ہوکر سر زمین ہند تک پہنچتے ہیں ۔
ایران سے علامہ ابوالحسن حافظیان ؒ کی بیٹی سیدہ قدسیہ فیروزہ حافظیان نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوے اپنے والد محترم کے حالات زندگی پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ان کے والد بزرگوار خدا کے سچے شیدائی تھے ۔انہوں ہمیشہ خدا ئے تعالی پر ہی بھروسہ کیا ۔ ان کے اقوال اور کارناموں کو دیکھ کر میں بجا طور پر کہہ سکتی ہوں کہ انہوں نے بیش بہا خدمات انجام دئے ہیں ۔
وزیر نجمہ ہیبۃ اللہ،آقا مہدوی پور،پروفیسر طلعت،آقا حبیب اللہ ،سیدہ قدسیہ حافظیان،غلام رضا انصاری،پروفیسر فاطمہ طبا طبائی ،آقا رضا صالح،پروفیسر اختر الواسع،پروفیسر یونس اور آقا دہگائی سمیت سینکڑوں ملکی و غیر ملکی علمی شخصیات کی شرکت،35سے زائد مقالات پیش،علامہ ابوالحسن حافظیان ؒ کی خدمات کو خراج پیش،جامعہ ملی اسلامی میں فلسفہ تصوف کے شعبہ کو متعارف کرنے کا اعلان
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ کے ہندوستان میں خاص نمائندے حجۃ السلام و المسلمین آقا مہدی مہدو ی پورنے فلسفہ عرفان اسلامی جیسے اہم موضوع پر منعقد ہونے والے اس عالمی سیمینار کی افتتاحی تقریب میں اظہار مسرت پیش کرتے ہوے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے تمام اراکین کا شکریہ ادا کیا ۔انہوں نے اپنے خطاب میں عرفان اسلامی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ عرفان اسلامی خدا کی معرفت اور حق شناسی کا بہترین ذریعہ ہے ۔عرفان اسلامی انسان کے اندر معرفت ، اور حق شناسی کے جذبے کو پیدا کرتا ہے ، تصوف گوشہ نشینی کا نام نہی ہے اور صوفی وہ ہے جو دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھتا ہے ۔انہوں نے علامہ ابوالحسن حافظیانؒ کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوے کہاکہ اس عارف واقعی کا تعلق جتنا ایران سے تھا اتنا ہی ہندوستان سے بھی تھا ۔ آقا مہدی مہدوی پور نے عرفان اسلامی کے موضوع کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوے عرفان اسلامی کے خصوصی تحقیقی اور مطالعاتی شعبہ کوجامعہ جیسی اہم یونیورسٹی میں شروع کرنے کی پیش کش پر زور دیا اور اس کے لئے ضروری کتابوں کابندو بست کرنے کی یقین دہانی کرائی جس کو شیخ الجامعہ پروفیسر طلعت احمد نے بصد شکر قبول کیا ۔
اختتامی تقریب کے صدارتی خطبہ میں پروفیسر طلعت احمد نے سر زمین ہند کو خدا شناس اور عرفا ن کا گہوارہ قرار دیا اور کہا کہ ہندوستان کی تہذیب اور ثقافت پر تصوف کی روایات کا گہرا اثر ہے اور ہندوستان کی زمین کو صوفیائے اکرام اور عارفین کی زمین قرار دیا ۔
افتتاحی اجلاس میں سیمینار کے لئے ملک کی نامور معزز شخصیات کےپیغامات اور مقالہ نگاران کے تعارف اور انکے مقالوں کے خلاصوں پر مشتمل سوینیر کے علاوہ ولایت فاونڈیشن نئی دہلی کی پانچ مطبوعات کا جرا عمل میں ایا ۔
اس موقع پر بھارت کیلئے جمہوریہ اسلامی ایرانکے سفیر ڈاکٹر غلام رضا انصاری ،ہندوستان میں جامعۃ المصطفی انترنیشنل یونیورسٹی کے نمایندےحجۃالاسلام محمد رضا صالح،جامعہ کے مختلف شعبہ جات کے پروفیسران ، ریسرچ اسکالروںاور طلبہ اور طالبات کے ایک جم غفیر نے شرکت کی ۔
سہ روزہ عالمی سیمینار کے دوسرے دن35 سے زائد مقالات پیش کیے گئے جس کے لئے آٹھ نشستیں جامعہ کے میر انیس ہال اور تیگور ہال میں منعقد ہوئیں ۔ نشستوں کی صدارت کے فرایض مختلف دانشوران نے انجام دی ۔ عرفان اسلامی اور علامہ ابوالحسن حافظیانؒ کی عرفانی شخصیت کے عنوان سے ہندوستان کے مختلف علمی ، فکری اداروں سے دانشوران نے اپنے مقالہ جات پیش کئے ۔اس کے علاوہ دوسرے ممالک سے تشریف لاے مہمان دانشور حضرات نے بھی عرفان اسلامی کے مختلف موضوعات پر اپنے مقالات کےذریعہ اپنی علمی اور فکری توانائیوں کا بھر پور اظہار کیا ۔ یہ تمام مقالات انگریزی، اردواور فارسی زبانومیں پیش کئے گئے ۔
سیمینار کے آخری روز اختتامی تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر ایران سے تشریف لائیں پروفیسر فاطمہ طباطبایئ (بہو آیۃ اللہ امام خمینی ؒ) نےعرفان اسلامی پر خطاب کرتے ہوئےتصوف اور طریقت کا اصل میزان شریعت کو قرار دیا ۔ انہوں نے کہا اسلامی تصوف وہ ہے جو شریعت کے معارض نہ ہو دور متاخر کے بعض صوفیائے کرام کے افکار اور اعمال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تصوف اور شریعت کے درمیان تصادم پایا جاتا ہے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ انسان شریعت کے ہی ذریعہ حق و حقیْت تک پہنچ سکتاہے ۔ دور جدید میں وہ ہی تصوف قابل قبول ہے جوعقل و برہان کے منافی نہ ہو ۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سی آئی ٹی ہال میںتین روزہ سیمنار کی صدارت رام پور سے مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر محمد یونس نے کی۔ انہوں نے تصوف اور عارف کا حقیقی مصداق امیرالمومنین علی ابن ابیطالب (ع)کی ذات والاصفات کو قرار دیا اور تمام صوفیائے اکرام کے سلسلہ کو حضرت علی ؑسے منصوب کرتے ہوے ان کی ذات کو تصوف کے لئے نمونہ عمل بتایا ۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پرو فیسر اختر الواسع نےجنید بغدادی کی حکایت نقل کرتے ہوے کہا کہ تصوف صرف ظاہری شکل و صورت اختیار کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ در اصل اخلاقی و روحانی اقدار کو عملی جامہ پہنانے کا نام ہے ۔علامہ ابوالحسن حافظیان ؒ کے خاص شاگرد حجۃالاسلام والمسلمین حبیب اللہ احمدی نے اپنے استاد عارف بزرگ کی روحانی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ انسانیت کے خدمتگار تھے ۔انہوں نے علامہ حافظیان ؒ کے ایک عرفانی شعر کی تشریح کرتے ہوئےعارف کی خصوصیات کو بیان کیا جس سے سامعین کافی متاثر ہوے ۔
اختتامی نشست میں حجۃالاسلام محمد رضا صالح ڈائریکٹر جامعۃ المصطفی یونیورسٹی نئی دہلی اورکلچر ڈائریکٹر آقا دہگای نے بھی شرکت کی ۔اس کے علاوہ پروفیسر علی محمد نقوی ، پروفیسر عبیداللہ فہد ، پروفیسر اشتیاق دانش ، ملک اور بیرون ملک سے تشریف لائے سیکڑوں پروفیسر و دانشور حضرات نے شرکت کی ۔اسلامک اسڈڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ڈائریکٹر پروفیسر اقتدار محمد خان نے تمام اراکین سیمینار ، دانشور حضرات اور وہ سامعین جنہوں نے مسلسل تین روز تک بڑے پر جوش انداز میں اس بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کی ان سب کا شکریہ ادا کیا ۔