مرکزی حکومت نے سال رواں کے ماہ فروری کی اٹھائیس تاریخ کو جماعت اسلامی جموں کشمیر پر پانچ سالہ پابندی عائد کی۔وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کی گئی نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ جماعت اسلامی جموں کشمیر زیر زمین مسلح گروپوں کے رابطے میں ہے اور لوگوں کو پُر تشدد کارروائیوں کے لئے یہ جماعت اکساتی ہے۔
جماعت پر پابندی عائد ہونے کے باقاعدہ اعلان سے قبل ہی وادی کے طول وعرض میں جماعت اسلامی جموں کشمیر کے امیرجماعت ڈاکٹر عبدلحامد فیاض سمیت درجنوں سرگرم کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور جماعت اسلامی کے املاک کو بھی سربمہر کیا جارہا تھا۔
جماعت اسلامی جموں کشمیر پر پابندی عائد ہونے کے خلاف جہاں وادی کی جملہ مذہبی تنظیوں نے صدائے احتجاج بلند کیا اور خاص طور پر مشترکہ مزاحمتی قیادت نے مرکز کے اس فیصلے کی مذمت کی اور ہڑتال کال بھی دی وہیں ریاست کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس جس کو جماعت اسلامی جموں کشمیر کا حریف مانا جاتا ہے نے بھی جماعت پر عائد پابندی کی مذمت کی۔
نیشنل کانفنس کے صدر اور رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے گذشتہ روز جموں میں نامہ نگاروں سے جماعت اسلامی جموں کشمیرپر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے کہا145 میں خود ریاست کا وزیر اعلیٰ رہ چکا ہوں جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے تو مجھے کبھی یہ نٹلی جنس رپورٹ موصول نہیں ہوئی کہ جماعت اسلامی جموں کشمیرکے حزب الجماہدین کے ساتھ تعلقات ہیں جیسا کہ اس پر پابندی عائد کرتے وقت دعویٰ کیا گیا ہے146۔
پارٹی کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے اپنے ایک بیان میں حکومت ہند کے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نظریات کا مطلب الگ سوچ رکھنا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ دلائل سے نپٹا جاسکتا ہے، جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرنے سے حکومت ہند کو کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ ایسے اقدامات انہوں نے خود سے اختلاف رائے رکھنے والوں کی اہمیت بڑھائی دی ہے۔
ریاست کی ایک اور بڑی سیاسی جماعت پی ڈی پی جس کے کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی نے ماضی میں مبہم الیکشن مہم چلائی، نے بھی حکومت کی طرف سے جماعت اسلامی جموں کشمیر پر پابندی عائد کرنے کے خلاف سخت رد عمل ظاہر کیا۔
پارٹی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے جماعت اسلامی جموں کشمیر پر پابندی کو انتقام گیری سے عبارت کارروائی قرار دیا۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ جماعت اسلامی ایک سماجی اور فلاحی تنظیم ہے جو تعلیمی ادارے چلاکر بچوں کا مستقبل سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے، جبکہ اس کے برعکس آر ایس ایس اور شیوسینا سرعام ہتھیاروں کی نمائش کرتی ہیں اور محض شک پر لوگوں کو لنچ کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ایک ایسی نظریاتی جماعت ہے جس کے ساتھ ریاست میں ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں لوگ جڑے ہوئے ہیں۔
محترمہ مفتی نے کہا کہ مرکزی حکومت کا دعویٰ کیا کہ جماعت اسلامی جموں وکشمیر کے جنگجو تنظیموں کے ساتھ رابطے ہیں، سراسر بے بنیاد ہے۔ ان کا کہنا تھا ‘میں جب وزیر اعلیٰ تھیں تب بھی جماعت اسلامی پر پابندی کی بات اٹھائی گئی تھی۔ لیکن مجھے بحیثیت وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ ایسے کوئی ثبوت نہیں ملے جہاں ہم یہ کہہ سکے کہ جماعت اسلامی اور جنگجوﺅں کے درمیان کوئی ساز باز ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد ان کو پھر سے یہ بخار چڑھ گیا اور جماعت اسلامی کے خلاف انتقام گیری شروع کردی’۔
انہوں نے حکومت کی جانب سے جماعت اسلامی کی طرف سے چلائے جارہے اسکولوں کو سربمہر کرنے کی کاروائی پر کہا ‘یہ بہت ہی بدقسمتی کی بات ہے۔ ان اسکولوں میں غریب طلباءکو تعلیم دی جاتی ہے۔ ان اسکولوں میں پڑھنے والے بچے سالانہ امتحانات میں پوزیشنیں حاصل کرتے ہیں۔ وہ اسکولوں کو بند کریں گے تو یہ بچے کہاں جائیں گے۔ آپ ان کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ یہ غلط ہے’۔ انہوں نے کہا ‘وہ (حکومت) ملک میں انتہا پسندوں کی شاخیں بند کریں۔ وہ سرعام تلواریں لیکر گھومتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو کوئی سرعام تلوار لیکر نہیں نکلتا’۔
جماعت اسلامی جموں کشمیر نے خود پر عائد پابندی کو چلینج کرنے کے لئے عدالت کا کھٹکھٹانے کا اعلان کیا۔جماعت کا کہنا ہے کہ جب حزب المجاہدین جنگجو تنظیم معرض وجود میں آٗئی اس وقت بھی جماعت پر پابندی عائد تھی۔
جماعت اسلامی جموں وکشمیر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جماعت پر جو پابندی عائد کی گئی وہ سراسر غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی ہے۔ پابندی کے جواز میں جماعت پر جو بھی الزامات عائد کئے گئے ہیں وہ سراسر جھوٹ ا ور بے بنیاد ہیں۔ جماعت اسلامی جموں وکشمیر اس پابندی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لئے عدالت کا رخ کرے گی، اس سلسلے میں قانونی ماہرین سے صلح مشورے کئے جارہے ہیں’۔
بہر حال ریاست کی مین اسٹریم سیاسی جماعتیں خاص کر نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اس بات پر متفق ہیں جماعت اسلامی جموں کشمیر ایک فلاحی اور تعلیمی ادارہ اور اس پر عائد پابندی کو ہٹایا جانا چاہئے۔
مبصرین کا مانناہے کہ جماعت اسلامی جموں کشمیر مسئلہ کشمیر کا بات چیت کے ذریعے پُرامن حل تلاش چاہتی ہے اور اسکی سرگرمیاں دعوت دین اور فلاحی واصلاحی وتعلیمی تک ہی زیادہ محدود ہیں لہذا اس پر پابندی عائد کرنا باعث حیرانگی ہے۔
جماعت اسلامی پر پابندی سے کسی بھی مسئلے کے حل کی نہ کوئی امید نظر آتی ہے اور نہ ہی کوئی وادی میں اس عمل سے حالات میں سدھار آنے کی کوئی راہ دکھائی دیتی ہے ہاں بلکہ معاملات مزید سنگین ہی ہوسکتے ہیں۔