سرینگر/ولایت تائمز نیوز سرویس/18ڈسمبر/جموں و کشمیر میں شیعہ وقف بورڈ تشکیل دینے کے حکومتی منصوبے کے خلاف شدیدی رد عمل ظاہر کرتے ہوئے وادی کی شیعہ برادری نے اقدام کو دینی معاملات میں بد ترین مداخلت قرار دیا۔ وادی کے اطراف و اکناف میں شیعیان کشمیر کے درجنوں جمعہ اجتماعات کے مراکز پر حکومتی منصوبے کے خلاف صداے احتجاج بلند کیا گیا۔اس موقعہ پر ائمہ جمعہ نے موقوفات سے متعلق فقہ جعفریہؑ کے نقطہ نگاہ اور شرعی حثیت اور صوابط و شرائط کی وضاحت کرتے ہوئے واضح کیا کہ موقوفات کی تولیت اور انتظام و انصرام کے معاملے میں شریعت نے جو رہنما خطوط مرتب کئے ہیں ان حدود اور قیود سے رو گردانی کی کوئی گنجائش نہیں۔ائمہ جمعہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ فقہ جعفریہؑ میں اسلامی موقوفات کو کسی غیر مسلم حکومت کی تحویل و نظامت میں دینا فعل حرام اور ممنوع عمل ہے اور اگر کوئی اس معاملے میں جبری اقدام کرتا ہے تو احتجاج و مزامت ایک شرعی فریضہ بن جاتا ہے۔ولایت ٹائمز نیوز سرویس کو موصولہ بیان کے مطابق جمعہ اجتماعات کے موقعہ پر عوام کی طرف سے ایک احتجاجی قرار داد پاس کی گئی انجمن شرعی شیعیان کے صدر حجۃ الاسلام والمسلمین آغا سید حسن الموسوی الصفوی نے مرکزی امام باڑہ بڈگام،حجۃ الاسلام سید یوسف الموسوی نے امام باڑہ گامدو،حجۃ الاسلام سید محمد حسین موسوی نے آستان شریف چاڈورہ،حجۃ الاسلام سید عابد رضوی نے امام زمانہ ؑ مسجد آبی گزر،حجۃ الاسلام سید عابد حسینی نے قدیمی امام باڑہ حسن آباد،حجۃ الاسلام آغا سید محمد عقیل موسوی نے امام باڑہ چھتر گام،حجۃ الاسلام سید محمد صفوی نے امام باڑہ یاگی پورہ ماگام،حجۃ الاسلام حکیم سجاد نے امام باڑہ اسکندر پورہ،حجۃ الاسلام سید محمد حسین نے سونہ پاہ،حجۃ الاسلام بشیر احمد ذادو نے امام باڑہ نوگام،حجۃ الاسلام سید محمد حسین نے امام باڑہ سوٹھ کٹر باغ،حجۃ الاسلام محبوب الحسن نے امام باڑہ صوفی پورہ پہلگام،مولوی سید مصطفی موسوی نے امام باڑہ پونچھ گنڈاورشریف الدین بھٹی نے اوڑی کمل کورٹ میں اس مذموم جبری منصوبے کے خلاف عوامی احتجاج کی سرپرستی کی اور موقوفات کے حوالے سے فقہ جعفریہؑ کے نقطہ نگاہ کی تفصیل بیان کی۔عوام کی طرف سے پاس کردہ قرداد میں کہا گیاکہ:
۔ شیعیان کشمیر اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہازروئے فقہ جعفریہ وقف کے اصول و ضوابط اور شرائط کی مکمل پاسداری کو یقینی بناتے ہوئےایسے کسی بھی اقدام مخالف کی جائے گی جوفقہ جعفریہ کے مطابق وقف کے شرعی تقاضوں سےمتصادمہو۔
2۔ شیعیان کشمیر اس جبری اقدام کو دینی معاملات میں بدترین مداخلت تصور کرتے ہوئے یہ عہد دہراتے ہیں کہ وہ اپنے شرعی معاملات اور اموراتمیں بے جا مداخلت کو برداشت نہیں کریں گے۔
3۔شیعیان کشمیر اپنے موقوفات کے معاملے میں غیر ریاستی زرخرید مولوی کی دخل اندازی کوایک گھناونے سیاسی ایجنڈے کی کڑی اور شیعیان کشمیر کی حالت پر مگرمچھ کے آنسو بہانےکو یہاں کے روایتی اتحاد بین المسلمین کو زک پہنچانے کی مذموم سازش تصور کرتے ہیں بلکہ شیعیان کشمیر کے درمیان رنجش اور غلط فہمیاں پیدا کرکے مذموم عزائم کی تکمیل کی سعی ناکام قرار دیتے ہیں۔
4۔شیعیان کشمیر اس زرخرید مولوی کی شیعیان کشمیر سے سازشی ہمدردی کے پس پردہ شرانگیزمقاصد کو بقول شہید مرتضیٰ مطہری بکریوں کے حق میں بھیڑیوں کا جلوس تصورکرتے ہیں۔
5۔ شیعیان کشمیر اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ مذکورہ مولوی اپنے آقاؤں کا آشرواد حاصل کرنے کے لئے کشمیر میں جوکھیل کھیل رہا ہےاور شیعیان کشمیر کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے مولانا کے ان عزائم کو کبھی کامیابنہیں ہونے دیں گے۔
6۔ شیعیان کشمیر مذکورہ جبری اقدام کو دینی مقدسات کےتقدس کی پامالی اور انکی اعتباریت و عظمت کو ثبوتاژ کرنے کا پیش خیمہ تصور کرتے ہیں۔جسکا مشاہدہ لکھنو میں قدیم تاریخی امام باڑوں اور خانہ قاہوں کو دیکھ کر کیا جا سکتاہے۔
ادھر ولایت تائمز کو موصولہ بیان کے مطابق تاریخی مرکزی امام باڑہ حسن آباد سرینگر کے امام جمعه و جماعت آغا سید عابد حسین نے جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ موجودہ سرکار بیرونی مفاد پرست عناصروں سے جموں و کشمیر میں مسلکی منافرت کو ہوا دینے اور عوام کو ترقی کاجھانسا دیکر گمراہ کرنا چاہتی ہیں کشمیر کے موقوفات ہندوستان کی طرح شاہوں اور مہاراجوں کے نہیں بلکہ کشمیر میں ہمارے آباء و اجدادوں ،بزرگان ملت،اور معزز روحانی مبلغوں نے دن رات محنت کرکے اسلام کی تبلیغ اور ترویج کے لئے قائم کئے ہیں اس پر کسی کا کوئی حق نہیں یہ صرف کشمیری شیعوں کا ہے اور انہی کا رہے گا ۔حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر میں مفاد پرست افراد کو بیجھنا بند کریں اور عوام کو گمراہ کرنے کے لئے منافقانہ پروپگنڈوں سے پرہیز کیا جائے
۔آغا سید عابد نے مزید کہا کہ علمائے دین ، روشن فکرطبقہ اور نوجوانان اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرکے عوام الناس کو ان زہر آلودہ پروپگنڈوں سے آگاہ کریں ۔ہمارے جد بزرگوار آیت اللہ آغا سید یوسف موسوی نے سن 1978ء میں حاکمان وقت کو شیعہ وقف کی خد وخال سے آشنا کرایا جس کے نتیجہ میں جموں کشمیر اوقاف ایکٹ 1978 میں یہ بات مشروط کی گئی کہ ایکٹ کا کوئی بھی حصہ شیعہ اوقاف پر لاگو نہیں ہوگا اور ہم برابر انہی کی طریقہ کار کو عملاتے رہیں گے فقه جعفری کے مطابق وقف موقوف علیھم کے اعتبار سے دو قسم ہیں وقف عام اور وقف خاص۔ وقف عام کی تولیت حاکم شرع کے ہاتھوں میں ہے اور وقف خاص کی تولیت واقف کے فرمایش کے مطابق ہی ہوگی اور ان موقوفات کی تولیت جو حاکم شرع کے دسترس میں نہیں ہے عادل مومن ان امور کے متولی ہونگے امام خمینی (ره) «تحریر الوسیله» میں لکھتے ہیں: «الوقف تحبیس العین و تسبیل المنفعه». لہذا یہ موقوفات اپنے تمام مذہبی شرط و شروط کے حامل ہیں۔
مذہبی امور میں جو مداخلت ہوئی وہ کلب جواد صاحب کو ملحوظ نظر رکھنی چاہئے جن لوگوں کی کلب جواد صاحب بات کررہے ہیں کیا وہ اچھے دن آنے کا نہیں کہتے و ساتھ ہی رکھے ہمیں اتحادی بھائی چارگی کے ساتھ رہنےدیجئے
واضح رہے مرکزی وزیر برای اقلیتی امور مختار عباس نقوی اور جموں کشمیر اوقاف کی چیرپرسن ڈاکٹر درخشاں اندرابی نے واضح الفاظ میں کہا کہ سابق ریاست جموں کشمیر میں مسلم اوقاف میں بڑے پیمانے خرد برد انجام ہوا ہے اور وقوفات کو صحیح استعمال میں نہیں لایا جاتا جس سے عوام کو کوئی بھی فا ئدہ نہیں پہنچتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شفاف سیسٹم تشکیل دیا جا ئے تاکہ اثاثوں کو عوام اور سماج کی بہتری کیلئے بروئے کار لایا جائے۔