اسلامی مقاومت حزب اللہ لبنان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے حال ہی میں لبنان کے روزنامے “السفیر” میں ایک مقالہ شائع کیا ہےجس میں امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز اور ان کے ممکنہ راہ حل کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ’’ولایت ٹائمز‘‘ اپنے قارئین کیلئے اس کا اردو ترجمہ پیش کر رہا ہے۔
تحریر: شیخ نعیم قاسم
اتحاد بین المسلمین اور وحدت اسلامی ایک وسیع منصوبہ ہے، جس کے تحقق کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ عالم اسلام میں اتحاد کو فروغ دینے اور اس کی راہ میں درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی کوششیں پرثمر واقع ہوسکیں۔ اس وقت عالم اسلام کو مندرجہ ذیل 4 بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جن کا جائزہ لیتے ہوئے ممکنہ راہ حل بھی پیش کریں گے۔
پہلا چیلنج: ہر سیاسی اختلاف کیلئے مذہبی پس منظر کی ترویج
دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض گروہ سیاسی اور میڈیا ذرائع کی مدد سے اور اسی طرح بعض حکومتوں کے سربراہان اور مفکرین، عالم اسلام میں موجود تمام اختلافات کو مذہبی رنگ دے کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ حقیقت میں یہ اختلافات مذہبی نوعیت کے نہیں بلکہ سیاسی نوعیت کے ہیں۔
ممکنہ راہ حل:
اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے مندرجہ ذیل راستے اپنائے جاسکتے ہیں:
1۔ امت مسلمہ کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کروائی جائے کہ مذہبی اختلافات صرف ایسے شدت پسند گروہوں کے درمیان پائے جاتے ہیں، جو اپنے علاوہ دوسروں کو باطل قرار دیتے ہیں۔ وہ سیاسی اختلافات کے ہوتے ہوئے یا موضوعاتی مسائل کی ضرورت کے بغیر ہی مذہبی مسائل کو بیان کرتے ہیں۔ اس طرز فکر کے حامی گروہ مسلمانوں کو آپس میں متحد نہیں دیکھ سکتے۔ یہ گروہ ایسے کیڑوں کی مانند ہیں جن کی زندگی اور وجود کا دارومدار اختلافات کا شکار اور فتنہ آلود فضا پر ہے۔ لہذا ہمیں اس حقیقت کو زیادہ سے زیادہ واضح کرنا چاہئے کہ مذہبی اختلافات صرف اور صرف ایسے گروہوں کے درمیان پائے جاتے ہیں۔
2۔ دوسری طرف مسلم دنیا کے مطلق العنان حکمران اپنے پاس موجود اختیارات اور وسائل کے ذریعے مذہبی اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں اور اپنے موقف کو مذہبی رنگ دے کر پیش کرتے ہیں۔ وہ خود کو مذہب کا بڑا حامی ظاہر کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی جانب سے اپنائے جانے والا موقف اصول فقہ یا فقہ یا کسی اور مذہبی طریقہ کار سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ وہ چونکہ محسوس کرتے ہیں کہ عوام کو اپنے موقف اور مرضی کے افکار و نظریات کے بارے میں قانع نہیں کرسکتے، لہذا اپنے افکار اور نظریات کو مذہبی رنگ دے کر پیش کرتے ہیں، تاکہ اس طرح لوگوں میں موجود مذہبی جذبے سے سوء استفادہ کرسکیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ان حکمرانوں کا حقیقی چہرہ عوام کے سامنے بے نقاب کریں اور لوگوں پر واضح کریں کہ ان کے موقف اور افکار و نظریات کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ ان میں سے اکثر حکمرانوں کو حتٰی اس بات کا بھی علم نہیں کہ قبلہ کس طرف ہے اور انہوں نے زندگی بھر میں کبھی نماز تک نہیں پڑھی۔
3۔ حقیقی اسلام کے حامی ہرگز مسلمانوں کے درمیان مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دے کر اپنے مطلوبہ سیاسی اہداف کے حصول کے درپے نہیں۔ جب ہم عالم اسلام میں موجود تین بڑے مسائل پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی مسئلہ مذہبی نہیں بلکہ وہ سب مکمل طور پر سیاسی نوعیت کے ہیں:
پہلا مسئلہ: امریکہ اور خطے میں اس کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کا مقابلہ۔
دوسرا مسئلہ: فلسطین پر قابض غاصب اسرائیل سے مقابلہ جو خطے میں شدت پسندی کو ہوا دینا چاہتا ہے، اور
تیسرا مسئلہ: تکفیری عناصر کا مقابلہ جنہوں نے سنی، شیعہ اور غیر مسلم افراد سمیت سب کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔
یہ تین ایشوز مکمل طور پر سیاسی ایشوز ہیں اور ہماری اہم ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ایسے موقف اور بیانات کو بڑا کرکے دکھائیں جن میں سیاسی ایشوز کے مذہبی نہ ہونے پر زور دیا جاتا ہے۔ میں اس ضمن میں عالم اسلام میں پیش کئے گئے ایسے چند موقف کی جانب اشارہ کروں گا، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسلامی دنیا میں موجود اختلافات مذہبی نوعیت کے نہیں بلکہ سیاسی نوعیت کے ہیں:
الف)۔ ایران کی جانب سے افغانستان اور عراق پر امریکی قبضے اور فلسطین پر غاصب اسرائیلی رژیم کے قبضے کے خلاف اپنائے جانے والا موقف۔
ب)۔ مصر، لیبیا اور تیونس میں اور اسی طرح ترکی اور مصر کے درمیان یا سعودی عرب اور قطر کے درمیان پائے جانے والے تمام اختلافات مکمل طور پر سیاسی نوعیت کے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام ممالک ایک ہی مذہب سے وابستہ ہیں، لیکن اس کے باوجود ان ممالک کے درمیان بہت زیادہ اختلافات پائے جاتے ہیں۔
ج)۔ شامی حکومت گرانے کا منصوبہ عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات کا باعث بن گیا ہے۔ بعض ممالک اس منصوبے کی حمایت جبکہ دوسرے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان ممالک کی جانب سے اپنائے جانے والا موقف خطے میں امریکی اور اسرائیلی پالیسیوں کی حمایت یا عدم حمایت کی طرف پلٹتا ہے۔ لہذا یہ اختلافات کسی طرح بھی مذہبی نوعیت کے نہیں بلکہ مکمل طور پر سیاسی نوعیت کے ہیں۔
د)۔ فلسطین میں جاری مزاحمت کے بھی مخصوص حامی اور مخالفین ہیں۔ یہ موضوع بھی مذہبی یا اقتصادی نوعیت کا نہیں بلکہ سیاسی موضوعات میں شمار ہوتا ہے۔
ہ)۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے خلاف حزب اللہ لبنان کی مزاحمتی تحریک کا شمار بھی مسلمانوں کے درمیان موجود مذہبی ایشوز میں نہیں ہوتا۔ مذہبی طور پر مختلف مکاتب فکر کا پیرو ہونے کے باوجود حزب اللہ لبنان اور فلسطین میں سرگرم اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان جاری گہرا تعاون اور ہماہنگی اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ اسی طرح حال ہی میں خود لبنان کے اندر ایک اتحاد اور یکجہتی معرض وجود میں آئی ہے اور تمام سیاسی گروہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ان میں موجود سیاسی اختلافات کا مذہب اور مذہبی اختلافات سے کوئی تعلق نہیں۔ لہذا کچھ عرصے سے حزب اللہ لبنان اور سنی سیاسی گروہ “المستقبل” کے درمیان باقاعدہ مذاکرات شروع ہوچکے ہیں، تاکہ اس طرح مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ کیا جاسکے اور سب مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کرسکیں۔
ایک لمبے عرصے تک شدید مشکلات برداشت کرنے کے بعد لبنان میں سرگرم تمام سیاسی گروہ اور جماعتیں اب اس حقیقت کو درک کرچکی ہیں کہ ہمارے ملک میں موجود مسائل کا مذہب اور مذہبی اختلافات سے کوئی تعلق نہیں۔ حزب اللہ لبنان نے اس ضمن میں بعض اقدامات اٹھائے ہیں اور کافی مشکلات برداشت کی ہیں، تاکہ دوسروں کو اس بات کا قائل کیا جاسکے کہ ہمارے درمیان موجود اختلافات کی نوعیت مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ آج یہ حقیقت سب پر واضح ہوچکی ہے کہ حزب اللہ لبنان اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم، تکفیریت جو تمام مسلمانوں اور لوگوں کو کافر قرار دیتی ہے اور اسی طرح امریکہ جو پورے خطے پر اپنا تسلط جمانے کی کوشش میں مصروف ہے، کی جاہ طلبی کے خلاف برسرپیکار ہے۔ ہم نے آج لبنان میں ایک ایسا اہم ماڈل پیش کیا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ اختلافات، مذہبی نہیں بلکہ مکمل طور پر سیاسی ہیں اور انشاءاللہ اسلامی مزاحمت کامیابی سے ہمکنار ہوگی اور اسے عظیم کامیابیاں نصیب ہوں گی۔
و)۔ بحرین میں چار سال قبل آغاز ہونے والی تحریک عدالت کے عین مطابق ہے۔ ملت بحرین کا مطالبہ ہے کہ پارلیمنٹ میں اس کے نمائندے ہونے چاہئیں جو ملکی امور اور حکومت میں اہم کردار ادا کرسکیں۔ یہ ایک مکمل طور پر جائز مطالبہ ہے جو انسانی حقوق کا حصہ بھی ہے۔ ملت بحرین نے اپنے جائز مطالبات منوانے کیلئے پرامن جدوجہد کا راستہ اپنایا ہے اور سیاسی بیانات کے ذریعے اپنا نقطہ نظر بیان کر رہی ہے۔ لیکن بحرینی حکومت ان کے نقطہ نظرات پر توجہ نہیں دے رہی اور عوام کے جائز مطالبات کے مقابلے میں طاقت کا بے جا استعمال کر رہی ہے۔ حال ہی میں بحرینی حکومت نے معروف شیعہ رہنما اور جمعیت وفاق بحرین کے سیکرٹری جنرل شیخ علی سلمان کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے۔ ہمیں عالم اسلام میں اس موقف کو مزید واضح کرنا چاہئے، تاکہ اس طرح سیاسی مسائل کو مذہبی رنگ دینے پر مبنی چیلنج کا بخوبی مقابلہ کرسکیں۔
دوسرا چیلنج: بعض اسلامی ممالک اور تنظیموں کی جانب سے مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈالنا:
عالم اسلام کو درپیش دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ بعض اسلامی ممالک اور تنظیموں نے مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔ وہ نظریہ ضرورت اور اپنی کمزوری کا بہانہ بناتے ہوئے قدس شریف کی آزادی کو نظرانداز کر رہے ہیں۔
ممکنہ راہ حل:
ہماری نظر میں اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے مندرجہ ذیل راہ حل اپنائے جانے کی ضرورت ہے:
1۔ اپنے موقف کو بیان کرتے ہوئے اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اظہار خیال کرتے ہوئے فلسطین کو آزاد کروانے کے حق پر تاکید کی جائے اور ہر ممکنہ وسیلے سے اس کا پرچار کیا جائے۔
2۔ اس بات پر تاکید کی جائے کہ مسئلہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ تمام اعراب، مسلمانوں اور انسانوں کا مسئلہ ہے، لہذا ہر انسان پر فلسطین کو آزاد کروانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کیونکہ فلسطین کی آزادی کیلئے انجام پانے والی کوشش ظالم، جارحیت اور قبضے کے خلاف مقابلے کی علامت ہے۔
3۔ اس نکتے پر تاکید کی جائے کہ فلسطین کی آزادی ہماری پہلی ترجیح ہے اور ہم اپنے بقیہ ایشوز کی ترجیح بندی اسی تناظر میں انجام دیں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ ہمیں اپنے عملی منصوبوں میں فلسطین کی آزادی کو پہلے درجے پر رکھنا چاہئے اور جو امر بھی اس راستے میں رکاوٹ ثابت ہو، اسے ترک کر دینا چاہئے اور ہر وہ چیز جو اس مقصد میں مددگار ثابت ہوتی ہو، کو پہلی ترجیح دیں۔
4۔ سب کو چاہئے کہ وہ فلسطین کی آزادی کے واحد راستے کے طور پر اسلامی مزاحمت کا ساتھ دیں۔ فلسطین کی آزادی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل یا کانفرنسوں کے انعقاد یا مذاکرات سے ہرگز ممکن نہیں۔ فلسطین کی آزادی صرف اور صرف مسلح اسلامی جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔ حزب اللہ لبنان اور فلسطین کی اسلامی مزاحمت نے ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیل صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے ہاتھوں شکست کھانے اور لبنان سے نکلنے پر مجبور ہر جانے کے بعد اس حقیقت کا خود اعتراف بھی کیا ہے۔ ہمیں بھی اپنی تمام تر توانائیاں اسی راستے پر صرف کر دینی چاہئیں۔
تیسرا چیلنج: تکفیریت:
عالم اسلام کو درپیش تیسرا بڑا چیلنج تکفیریت اور تکفیری سوچ ہے، جس نے اسلام کی بنیادوں اور بنیادی اصولوں کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ تکفیریت ایک مکمل طور پر اسلام دشمن اور اسلام مخالف مکتب فکر ہے۔ بعض افراد غلط تجزیہ و تحلیل کے ذریعے تکفیری مکتب فکر کو اسلام سے نسبت دینے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تکفیریت کا اسلام، اہلسنت، اہل تشیع، قرآن کریم اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ ہمیں چاہئے کہ تکفیریت کو ایک دہشت گرد اور دشمن مکتب فکر سمجھتے ہوئے اس کا مقابلہ کریں۔
ممکنہ راہ حل:
اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے کئی پہلووں سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلے مرحلے پر علماء اور دانشور حضرات پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو حقائق سے آگاہ کریں۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: “إذا ظهرت البدع فی أمتی فلیظهر العالم علمه، فمن لم یفعل فعلیه لعنة الله”۔ ترجمہ: “اگر میری امت میں بدعتیں جنم لینی لگیں تو علماء پر واجب ہے کہ وہ اپنے علم کو ظاہر کریں، اور جو ایسا نہیں کرے گا اس پر خدا کی لعنت ہو۔”
تکفیریت کا مقابلہ کرنے کا دوسرا راستہ دین رحمت ہونے کے ناطے اسلام کے قوانین اور تکفیری عناصر کے اقدامات کا آپس میں موازنہ کرنا ہے۔ ہمیں اپنے بیانات اور اظہار خیال کے دوان ہمیشہ اس موازنے پر تاکید کرنی چاہئے اور لوگوں کو اسلام اور تکفیری گروہوں اور دین رحمت اور مجرمانہ اور غیر انسانی اقدامات کے درمیان فرق سے آشنا کروانا چاہئے۔ یہ ہماری اہم ذمہ داری ہے۔
تکفیریت سے مقابلے کا تیسرا راستہ اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے کیلئے ملاقاتوں اور کانفرنسز کا انعقاد ہے۔ خداوند متعال سورہ کہف کی آیہ 110 میں فرماتا ہے: “قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوحَى إِلَیَّ أَنَّمَا إِلَهُکُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَن کَانَ یَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدا”۔
ترجمہ: “کہ دو میں آپ لوگوں کی مانند انسان ہوں۔ مجھ پر وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود خدای یکتا ہے۔ پس جو کوئی بھی اپنے پروردگار سے ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ عمل صالح انجام دے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔”
اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کا چوتھا راستہ یہ ہے کہ دینی مدارس اور حوزہ ھای علمیہ ایک وسیع النظر اور ایکدوسرے کو برداشت کرنے والی شریعت کی ترویج کریں۔ مجھے امید ہے کہ ہم دینی مدارس میں اس نکتے کو خاص اہمیت دیں گے، کیونکہ اسلام دشمن عناصر نے انہیں مراکز کو تکفیریت پھیلانے کیلئے استعمال کیا ہے۔
چوتھا چیلنج: امریکہ اور مغرب پر انحصار:
اسلامی دنیا کو درپیش چوتھا چیلنج بعض اسلامی ممالک کی جانب سے علمی ترقی کے بہانے امریکہ اور مغرب پر انحصار اور ان کے اثر و رسوخ کے تابع ہونا ہے۔
ممکنہ راہ حل:
اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے اس نکتے پر تاکید کرنا ضروری ہے کہ آزادی اور خود مختاری ہمارا جائز حق ہے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: “جب خداوند متعال نے تمہیں آزاد پیدا کیا ہے تو خود کو دوسروں کا غلام نہیں بناو۔” یہ موضوع عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کے دوران اپنے قومی مفادات کا پابند رہنے کی ضرورت سے بھی مربوط ہے۔ بین الاقوامی تعلقات عامہ میں مختلف گروہوں کے درمیان قومی یکجہتی اور اسلامی ممالک کے درمیان ہم آہنگی کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ اس قسم کے رویے مغربی طاقتوں کو اس بات پر مجبور کرنے کا باعث بن سکتے ہیں کہ وہ ہمارے جائز مطالبات کو اہمیت دیں۔ ان چار چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے پیش کردہ راھہای حل (سیاسی اختلافات کو مذہبی رنگ دینے سے روکنا، مسئلہ فلسطین کو پہلی ترجیح دینا، تکفیریت سے مقابلہ اور مغرب پر انحصار کا خاتمہ) پر گامزن ہو کر امت مسلمہ میں موجود اختلافات کو کم کیا جاسکتا ہے اور اسلامی وحدت کے تحقق میں اہم اور موثر قدم اٹھائے جاسکتے ہیں۔(بشکریہ اسلام ٹائمز)