حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی از الطاف جمیل شاہ

حضرت سید علی ہمدانی رحمہ اللہ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے ہجرت کی راہ پر چل پڑے یہ سنت نبوی علیہ السلام ہے اور ہر محب نبوی علیہ السلام کے لئے ہر سنت پر عمل کرنا اہم ہوتا ہے۔

ہجرت کی مختلف اقسام کے ساتھ یہ قسم بھی ہے کہ دعوت دین و اصلاح احوال کے لئے آدمی سفری صعوبت کو یکسر فراموش کرتے ہوئے رب العزت کی راہ میں نکل پڑے حضرت میر سید علی ہمدانی رحمہ اللہ کے زمانے کا سفر آج کل کی طرح آسائش و آرام دہ نہیں ہوا کرتا تھا نہ ہی تن آسانی کے لئے وہ اسفار ہوتے تھے چشم تصور سے دیکھیں کہ موجود سائنسی ترقی کے دور کی سہولیات سے یکسر خالی سفر کرنا کس قدر کٹھن اور صبر آزما رہا ہوگا نہ سڑکیں نہ پل جنگلی جانوروں رہزنوں کا خوف راستے پرخطر گھوڑا اونٹ خچر کچھ بھی میسر نہیں کھانے پینے کی اشیاء کی کمی پیدل سفر سرما گرما کی موسمی تکالیف الگ طبی سہولیات مفقود بلند و بالا کوہساروں خطرناک دروں وادیوں صحراؤں سے گزرنے کا تصور آدمی کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے ایسے زمانے کے اسفار کسی کٹھن اور سخت اذیت سے کیا کم رہے ہوں گئے ۔۔ نہیں گلاب ہر چمن میں کھلتا ہے ہر صبح کھلتا ہے لیکن ہر شخص اس ورق معرفت ربی کو کہاں پا سکتا ہے آفتاب ہر روز طلوع ہوکر مغرب کی اور ڈبکی لگا کر غائب ہوتا ہے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح بھلا ہر کوئی کیسے اس سب کو محسوس کر کے نعرہ توحید کی صدا بلند کر سکتا ہے بالکل اسی طرح ہر کسی کے نصیب میں بھی سفری صعوبتیں آرام جاں جیسا تصور کیسے بن سکتی ہیں یہ اہل حق اور داعیان دیں کا ہی طرہ امتیاز رہا ہے کہ وہ سفر و حضر کی صعوبتیں بھی شوق سے سہہ لیتے تھے کہ ان کے دل معرفت ربی سے سرشار جو رہتے تھے ہر لمحہ ہر لحظہ وہ اپنی خوشیوں پر رب کی رضا کو مقدم رکھتے ہیں وہ اپنی زبان و سلاست کو رب کی حمد و ثناء کے لئے استعمال کرتے ہیں ہجو و لغویات قصیدہ خانی ان کے لئے سوہان روح ہوتی ہے انہیں بس۔

ذکر حق اور فکر حق کی جستجو رہتی ہے

شاید اقبال نے انہیں کے لئے فرمایا تھا

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن

گفتار میں، کردار میں، الله کی برہان

حضرت شاہمدان رحمہ اللّٰہ کی وادی آمد:

وادی کشمیر جہاں پر طرف جہالت کا بول بالا تھا الہی تعلیمات کا فقدان تھا رب کے تصور سے قلب و دماغ خالی تھے انارکی ہر طرف چھائی ہوئی تھی بٹ کدے آباد تھے افراط و تفریط عروج پر تھی ذات و قبائل اونچ نیچ کا عروج تھا تصور عبدیت کا فقدان تھا گر چہ اطراف و اکناف میں اسلامی علوم و معارف کی شعاعیں پھوٹ چکی تھیں پر وادی اب تک اس سے گرچہ خالی نہ تھی مگر نا کے برابر وہ چنیدہ نفوس قدسیہ تھے جو صدائے حق کو اپنی جان و جگر میں بسائے ہوئے تھے قلیل نہیں بلکہ انتہائی قلیل تعداد تھی ان کی جو توحید و رسالت کے معنی و مفاہیم سے آگاہ تھے رب العزت کو اہلیان وادی پر رحم آیا کہ ہمدان سے اک مرد خدا رخت سفر باندھ کر نکل پڑا اور صحراؤں ندی نالوں کوہساروں کا جگر چیرتے ہوئے وادی کشمیر کے افق سے نکلتے سورج کے ساتھ ہی صدائے توحید کے ساتھ یہ مسافر وارد وادی ہوا۔حضرت شاہمدان رحمہ اللہ جس وقت وادی کشمیر میں وارد ہوئے ان کے ہم رقاب صلحاء و علماء کی ایک بڑی تعداد تھی جن کے بارے علماء تاریخ نے لکھا ہے سات سو کے آس پاس تھے ان میں اکثر ان کے طلبہ و فیض یافتہ تھے اس کارواں حق کا ہر فرد ملکوتی روح کے ساتھ دعوت دیں کی راہ پر نکلا تھا یہ وہ سرفروشان رشد و ھدایت تھے جو رضا الہیہ کے لئے ہی ہر کام کرتے تھے انہوں نے اللہ کی رضا اور رسولﷺ کے حکم کی اتباع کے لئے دنیوی بندھنوں آلائشوں۔ آرایشوں۔ آسائشوں۔ کو تیج کر روح کی بالیدگی و شرف و فضیلت۔انسانیت اور اخروی سعادت کو خرید لیا تھا حضرت شاہمدان رحمہ اللہ نے اپنی ذاتی نگرانی تربیت تعلیم پرورش لئے لئے خانقاہوں میں مسند درس بچھا کر ان میں ایمانی غیرت و حمیت کی وہ روح پھونک دی تھی کہ انہیں بس اب رضاء الہی کی ہی طلب تھی بس

سید السادات سالار عجم

دست اومعمار تقدیر امم

اسلامی افکار و نظریات کی سوچ سے مزین یہ قافلہ علم و تقوی جب تیار ہوا تو زندگی معاشرے کے مختلف شعبہ ہائے جہاں سے انہیں خوب متعارف کرایا حقوق العباد سے لیکر حقوق اللہ تک کے فلسفہ سے انہیں آگاہ کیا گیا دینی علوم سے انہیں متعارف کرایا ۔محبت و اخوت سے انہیں روشناس کرا کر انہیں میدان عمل میں لاکھڑا کر دیا تصوف و عرفان کی تربیت یافتہ یہ داعیان دیں کی جماعت خدا پرستی سے سرشار گمراہ و ظلمت کے تمام اصول و ضوابط کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوگئے بدعات و رسومات باطلہ کو مٹا کر روح ایمانی کو حرارت دینے کے لئے یہ نفوس قدسیہ کی جماعت قریہ قریہ شہر شہر جاکر سرگرم عمل ہوگئی۔

راہ حق کا یہ قافلہ اہلیان وادی کے ساتھ وابستہ ہوا تو اہلیان وادی کے قلوب کی اللہ سے پیوند کاری کی وہ بھی بنا کسی ہنگامے اور جنگ و جدل کے انتہائی محبت ۔ ہمدردی ۔ انکساری کے جذبات کو تحریک دے کر اک خلق کثیر کو جہل و ظلمت کے اندھیروں سے نکال کر نور ھدایت کے سپرد کرتے چلے اب وادی کے اطراف و اکناف میں ظلمت کے اندھیروں سے نکل کر متلاشیان حق و صداقت صدائے قلب و جگر کے ساتھ توحید و رسالت کی صدا بلند کرنے لگے وحشت و ظلمت کی جگہ اخوت ہمدردی محبت نے لی یوں یہ وادی روز و شب کے بدلتے ہوئے لمحات میں آغوش ھدایت میں آنے لگی اور یوں اسلام کی فصل بہار عام ہوئی کہ فرش کی جنت بن گئی ہماری یہ وادی کشمیر۔

تعلیمات کا مختصر خاکہ:

حضرت شاہمدان رحمہ اللہ کی تعلیمات کا احاطہ کرنا ممکن نہیں مجھ جیسے طالب علم کے خیر چند باتیں آپ کی نذر کرتا ہوںحضرت شاہمدان رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ فتوتیہ میں تصوف و سلوک کے بارے میں بیان فرمایا ہے تین درجوں میں سلوک کی اہمیت کو بیان کیا ہے سخا۔ صفا۔ وفا ۔ سلوک کے متلاشیان کے لئے فرمایا ہے کہ لازم رکھین ۱ توبہ با صدق دل۔ ۲ احتراز از خواہشات نفس بہ شرطیکہ طالب دیں اسلام کا پابند ہو
حضرت امیرؒ نے اپنے متبعین کی آسانی کے لئے سلوک کی چار صفات بیان کی ہیں۔

۱ قدرت اور طاقت کے باوجود معاف کرنا

۲ غصے کے وقت بردباری

۳ دشمن سے خیر خواہی

۴ احتیاج کے باوجود ایثار کرنا

اچھا حضرت شاہمدان رحمہ اللہ اپنی مختصر تعلیمات کو بیان کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں روح ایمانی یہ ہے کہ توبہ۔زہد ۔توکل ۔قناعت ۔عزلت۔زکر۔توجہ ۔ صبر۔مراقبہ اور ۔رضا الہیہ کی طلب یہ سب اصول ہر اس طالب کے لئے ماننا سمجھنا لازم ہیں جو ان کی تعلیمات سے وابستہ ہوتا تھا۔

ایسے ہی گر توحید باری کی بات کی جائے تو شاہمدان رحمہ اللہ کی معروف تصنیف اوراد فتحیہ کیا کم۔ہے جس میں توحید اس کی اقسام اس کے خد و خال توحید فی الذات و صفات اور ربوبیت و الہیت پر مفصل تعارف ہے جو رسالت کی تصدیق کے ساتھ ساتھ خلفاء راشدین کے اسماء گرامی کے بیان کے ساتھ ساتھ درود و سلام سے بھی مزین ہے اس کی ابتداء جہاں استغفار سے ہے وہیں پھر مسنون دعائیں اور کلمات تسبیح و تہلیل اسماء اللہ سے ہوتے ہوئے مولا کی بارگاہ میں دعائیں اور پھر سلام باپت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مزین ہے کون انکار کرسکتا ہے کہ یہ مختصر سا کتابچہ دسیوں کتابوں سے اہل ایمان کو بے نیاز کردیتی ہے۔

تعلیمات حضرت شاہمدان رحمہ اللہ:

۱۔ آیات قرآنی و احادیث کے معنی و مفاہیم سے معلوم ہوا کہ فتوت کے تمام مراتب و اوصاف میں حقوق العباد کی ادائیگی کو ترجیح دی گئی ہے

۲۔ گر تو رب سے بروز محشر طالب عفو و درگزر کے تو یاد رکھ یہ لازم پکڑ توبہ کرنے والوں کا ناصح ۔۔ تابعداری کرنے والوں کا معاون ۔۔ قول میں سچا ۔۔عہد کا پکا ۔۔نعمت پر شاکر۔۔ مصائب پر صابر۔۔ عمل پر مخلص لیکن متواضع۔۔ جوانی میں پرہیزگار۔۔ اور خدا شناسی۔۔ مستحق کا حق ان تک پہنچاؤ۔۔۔

۳۔ حضرت شاہمدان رحمہ اللہ فرماتے ہیں سالک کو چاہئے کہ کسی بھی نیک یا برے آدمی پر طعن نہ کرے

۲ دوست یا دشمن کسی کے حق میں بھی بد دعا نہ کرے

۳ لوگوں کے عیوب کی تلاش میں رہنے اور انہیں افشا کرنے سے پرہیز کرے بلکہ ہر وقت اپنے عیوب پر نظر رکھے اور ان سے بچنے کی تدبیر کرے

ایسے ہی گر آپ ذخیرة الملوک اٹھا کر دیکھیں گئے تو دسیوں ایسی نصیحتیں آپ کو ملیں گئیں جو دین اسلام کی اصل حقیقت کا ادراک پیدا کرنے میں معاون بن جائیں گئیں بس آپ کتاب پڑھنے کی دھن تو سوار کریں خود پر

فنون لطیفہ اور شاہمدان رحمہ اللہ:

یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیر میں حضرت شاہ ہمدانؒ محض ایک دینی مبلغ کے طور پر ہی نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر و ہمہ جہت اسلامی انقلاب کے نقیب کے طور پر نمایاں ہوئے اور آپ نے یہاں مساوات و اخوت کا وہ بے نظیر نظام متعارف کرایا جس کی نظر میں آقا و غلام، حاکم و محکوم، امیر و غریب، اونچی اور نیچی ذات والے سب برابر تھے۔

یہ صرف رشد و ھدایت کے ساتھ ہی منسلک نہیں رہے بلکہ انہوں نے معیشت کو بھی فروغ دیا اور کشمیر میں اسلام کے ساتھ ساتھ معاشی اقتصادی و خوشحالی کی راہ بھی ہموار کی انہوں نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر کشمیری عوام کو فنون لطیفہ سے متعارف کرایا جس میں قابل ذکر شال بافی ۔ قالین بافی۔ کار قلمدانی۔ خطاطی۔سنگ تراشی۔ مسگری۔ زرگری۔ کڑھائی۔بنائی۔ کاغذ گری ۔ وغیرہ ایسے ہی کئی کام اور فنون جن کا کشمیر میں نام بھی نہ تھا انہوں نے متعارف کرایا۔

اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت شاہمدان رحمہ اللہ نے جہاں اسلامی علوم و معارف کی تعلیمات کے لئے کوشش کی داعیانہ حیثیت سے اسی طرح انہوں نے بیروزگاری کا خاتمہ کرنے کے لئے مختلف ہنر بھی ساتھ لائے اور اس کے بہترین کاریگر بھی جنہوں نے کشمیر میں ایسے فنون لطیفہ کو ترویج دی کہ کشمیر میں لوگ خود روزگار کمانے لگے اور اب تک ان فنون کی وجہ سے وادی کشمیر پورے عالم میں معروف ہے اور یہاں کی دسیوں کاریگریاں پوری دنیا میں پسند کی جاتی ہیں شاہمدان رحمہ اللہ راتوں کے عابد اور دن کے اجالے میں عظیم الشان فنون لطیفہ کے استاد تھے وہ آج کل کے کسی جاہل صوفی منش کی طرح لکیر کے فقیر نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنی علمی و تحقیقی صلاحیتوں کے سبب کشمیریت کو ایک پہچھان دی اور عالمی افق پر متعارف بھی کرایا وادی جو مختلف تہذیبوں تمدن ثقافت کی عکاس ہے اس سب کے پیچھے انہیں بزرگان دین کا ہاتھ ہے جو شب میں سسکیاں بلند کرتے تھے اور دن میں انسانیت کی خدمت کے جذبہ قلب میں بٹھائے ایستادہ رہتے سلام ان کی ان پاکیزہ خدمات کو آخری بات

اسلاف کے احترام کا پاس ضرور کیجیے (بعض تاثرات کا اظہار)

اس میں شک نہیں کہ موجودہ دور انسان کے ایمانی جوہر کی پامالی اور اللہ سے دوری کا بدترین دور ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم جو خوب صورت الفاظ لکھ اور بول رہے ہوں، ہمارے دل کی دنیا بھی اس کی گواہی دیتی ہو۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ قربِ قیامت میں بعد والے لوگ پچھلوں پر طعنہ زنی کریں گے۔ فیس بک (اور دیگر میڈیا) پر دیکھنے میں آتا ہے کہ ہماری زبانیں اور قلم امت کے جلیل القدر بزرگوں کی شان میں الفاظ کی ادائی میں بہت بے احتیاط ہیں۔وہ لوگ یقینا معصوم نہیں تھے، لیکن اس پر قسم کھائی جا سکتی ہے کہ ان کے علم وتقوا، تعلق مع اللہ اور اخلاص کے مقابلے میں ہمارا شمار کسی کھاتے میں بھی نہیں ہے۔ہم تو میڈیا زدہ داغی دلوں والے لوگ ہیں جن کے دامن ،معصیت سے چھید چھید ہو چکے ہیں۔اس بلاخیز سیلاب سے اللہ نے ہمارے پچھلوں کو سلامتی کے ساتھ محفوظ کر دیا۔ تِلْكَ أُمَّة قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ۔ کسی بات سے اختلاف علمی بنیاد پر ہو تو کیا یہ ضروری ہے کہ اس تنقید میں ایسے الفاظ لائے جائیں جو واضح طور پر تحقیر اور استخفاف کی گواہی دیتے ہوں؟ خدارا ان بے احتیاطیوں سے گریز کیجیے۔ ان کا دینی اور ایمانی نقصان کوئی نظر والا ہی محسوس کر سکتا ہے۔یہ شخصیت پرستی کی دعوت نہیں، بلکہ علمی اختلاف اور تنقیص میں فرق کرنے کی بات ہے۔اگربشری کم زوری سے کوئی غلطی ہو جائے(اور اس کا امکان قدم قدم پر ہے) تو کسی کے توجہ دلانے پر اپنی انا کو کبھی بھی درمیان میں حائل نہ ہونے دیجیے۔ بندے کا کام اول و آخر اپنی خطا کا اعتراف کرتے ہوئے جھک جانے کی روش اختیار کرنا ہے۔ از محمد متین یعنی صحابہ کرام ؓ ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ اورمتقدمین علماء اور ان کے فہم اسلام سے نہ صرف یہ کہ بدگمانی پیداکرنا،بلکہ وقتاً فوقتاً ان عظیم ہستیوں پراشاروں اورکنایوں میں لعن طعن اور ملامت کرتے رہنا۔ اس طرزِ عمل میں پہلا قدم سلف صالحین سے بدگمانی اور اس کی انتہا سلف صالحین کے خلاف بدزبانی ہوتاہے۔ ان لوگوں کو اسلام کے ساتھ مخلص نہیں سمجھا جاتا اور اپنے موجودہ حالات وواقعات کا ذمہ داریا موردِ الزام ان بزرگ ہستیوں کو ٹھہرادیا جاتا ہے۔ یہ افسوس ناک رویہ درحقیقت اس حدیث کا مصداق ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربِ قیامت کی علامتوں میں ارشاد فرمایا ہے: ’’ولعن آخر ہٰذہ الأمۃ أولہا۔‘‘ یعنی ’’اُمت کے بعد میں آنے والے لوگ گزشتہ لوگوں (اسلاف اور بزرگوں)پر لعن طعن کریں گے۔‘‘ ایک اورحدیث میں ایسے لوگوں کو ’’رویبضۃ‘‘ فرمایا گیا ہے۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ ’’رویبضۃ ‘‘سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ نااہل اور گھٹیا آدمی جو جمہور کے اہم معاملات میں رائے زنی کرے۔‘‘ ہم آپ کی زبان پر پہرے دار نہیں نہیں نہیں ہی کسی کی زبان و قلم کو ہم روکنے کا ہنر رکھتے ہیں پر اسلاف شناسی کے لئے ہم یہ زبان اور نوک قلم کو ضرور حرکت دیں گئے کیوں کہ ناموس اسلاف سے ہی ہمارا جہاں باقی ہے ان کی ناموس باقی نہیں تو ہم بھی نہیں ہاں اتنی التجا ضرور کریں گئے آپ اپنی بات رکھیں ناصحانہ انداز میں اور منصفانہ گفتگو کے ساتھ اس کا استقبال کیا جائے گا ویسے بھی آداب گفتگو بھی علوم اسلامی میں بیان کی گئی ہیں اس لئے چلتے چلتے ان کا بھی خیال رکھا جائے تو یہ سعادت مندی ہے ہمارے دل ہی کیا ہر صاحب ایمان کا دل واقعی مجروح تب ہوتا ہے جب علم و تحقیق کے نام پر بازاری زبان کے ساتھ اپنے اسلاف پر جملے بازی کی جائے یہ ہر صورت قابل نفرت ہی ہے عقائد و نظریات الگ ہوسکتے ہیں سوچوں کے دھارے بھی الگ ہوتے ہیں پر یہ انصاف نہیں کہ آپ مقتدرہ شخصیات پر ہی طعن کرنا شروع کریں تو آپ ایسی توقع بھی نہ رکھیں کہ آپ مورد الزام نہ رہیں گے۔

حالانکہ چڑھتے سورج کی طرح میرا یقین ہے کہ علمی و تحقیقی طبقے میں تنقیدی نگاہ سے مطالعہ کرنے کو ایک تسلیم شدہ تعمیری اور ثمر بار فن شمار کیا گیا ہے، جس کی بدولت ہمیشہ بہتر سے بہتر نتائج کے حصول کی طرف پیش قدمی ممکن ہو جاتی ہے لیکن اس علمی تنقید کے کچھ اصول ہیں جن کی پابندی ضروری بلکہ واجب ہوتی ہے. تنقید کے ان اصولوں میں سے ایک اہم ترین اصول یہ ہے کہ جس طریق و اسلوبِ تنقید کو آپ دوسروں کا محاکمہ کرنے کیلئے درست سمجھتے ہیں اس کو اپنی ذات اور اپنے مسلک و مشرب اور فرقے کے اوپر بھی یہی اصول نافذ کرنے پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے!
لیکن اگر آپ ایسا نہیں کرتے اور آپ کا معیارِ تنقید اور ترازو اپنے لیے الگ اور دوسروں کیلئے الگ ہے تو معاف کیجیے گا آپ کی یہ طبع آزمائی کبھی “علمی تنقید” نہیں کہلا سکتی بلکہ اسے نفرت، حسد، بغض اور کینہ سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

اگر کسی کو کسی پر اعتراض اور تنقید کرنے کا شوق اس قدر غالب آجائے کہ وہ اس کی کسی غلطی کو تلاش کرنے کی زحمت اٹھانے کی بجائے اس کی صحیح بات کو ہی غلط معنیٰ اور رنگ و جامہ پہنانے پر آمادہ ہو جائے اور پھر تالیاں پیٹنے والی جاہل عوام کے اندر اپنی اس مغالطہ انگیزی کی تشہیر میں دن رات ایک کرتا پھرے تو آپ کا یہ فعلِ قبیح بدترین خیانت، عظیم بہتان اور کتمان حق بلکہ عداوتِ حق کے زمرے میں آتا ہے. اس کو “تنقید” کہنا دراصل فنِ نقد و نظر جیسے علم و حکمت کے اہم شعبے اور شاخ کو گالی دینے کے مترادف ہے. ہمارا طالب علمانہ تجربہ رہا ہے کہ آج تک حق تنقید کے لئے ہم سب علمی یتیمی اور زبان کے لحاظ سے انتہائی کم درجہ پر فائز قوم ہیں قوم و ملت کو ایک ایسی روش میں پرورش کر رکھی ہے کہ وہ اپنے مبلغین کی ہفوات پر بھی واہ واہی کی عادی ہے اور مخالف فکر کے حقائق کو بھی بنظر حقارت دیکھنے کی عادی یہ روش وادی کشمیر میں دن بہ دن پختہ سے پختہ ہوتی جارہی ہے کہ اکابرین امت اور داعیان دین کی شبیہ بگاڑی جارہی ہے نت نئے انداز اختیار کرکے اسلاف پر سب و شتم کو روا رکھا جارہا ہے اس کی ایک سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے ایسے مبلغین کی ایک بڑی کھیپ تیار کر رکھی ہے جو اصلاحی و تربیتی اسباق سے عاری و یتیم ہے نتیجہ یہ کہ وہ اپنی من مانیاں کرکے یا بلاگ بنانے کے لئے ہر حد کو پھلانگ رہے ہیں یہ صرف اولیاء کرام کا معاملہ نہیں ہے بلکہ کئی ایسے خطیب بھی آج کل ہیں جو اصحاب رسول اللہ علیہ السلام پر بھی زبان درازی کرتے ہیں اور اعلانیہ ان پر جرح کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ایک کثیر تعداد عوام کی ان کی بھی واہ واہی کرتی ہے اس لئے علوم اسلامیہ کے طلبہ کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ ایسے خطباء کو یکسر مسترد کریں جو اپنی زبان اصحاب نبوی علیہ السلام یا اولیاء کرام کی ہجو و بدگوئی کے لئے استعمال کرتے ہوں۔ ولایت ٹائمز