حضرت سیدالسادات میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ..کشمیر میں دوسرے مبلغِ دینِ اسلام

حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ امیرالامراء حضرت سید حسن الحسینی ہمدانیؒ کے فرزند اکبر اور عارفِ الزماں حضرت میر سید محمد الحسینی ہمدانیؒ کے پوتے تھے.حضرت امیر سید شہاب الدینؒ آپ کے عمّ محترم اور حضرت میر سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدانؒ چچا زاد بھائی تھے، حضرت میر سید حُسین(سمنانی) الحسینی الہمدانیؒ آپ کے برادرِ اصغر تھے جن کا روضہ (زیارت) اہلسُنت کے زیرِ تولیت ہے.آپ کے ابتدائی حالات گوشہ اخفاء میں ہے لیکن اس سے آپ کی عظمت, شان و شوکت پر کوئی اثر نہیں پڑتا,میری دسترس میں ایسی کوئی تاریخ نہیں جس میں آپ کی بتدائی زندگی کا حال درج ہو.آپ کا ذکر کشمیر کی ہر قدیم تاریخ میں ملتا ہے.

تحریر:سکینہ سیدہ الحسینی

حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ امیرالامراء حضرت سید حسن الحسینی ہمدانیؒ کے فرزند اکبر اور عارفِ الزماں حضرت میر سید محمد الحسینی ہمدانیؒ کے پوتے تھے.حضرت امیر سید شہاب الدینؒ آپ کے عمّ محترم اور حضرت میر سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدانؒ چچا زاد بھائی تھے، حضرت میر سید حُسین(سمنانی) الحسینی الہمدانیؒ آپ کے برادرِ اصغر تھے جن کا روضہ (زیارت) اہلسُنت کے زیرِ تولیت ہے.آپ کے ابتدائی حالات گوشہ اخفاء میں ہے لیکن اس سے آپ کی عظمت, شان و شوکت پر کوئی اثر نہیں پڑتا,میری دسترس میں ایسی کوئی تاریخ نہیں جس میں آپ کی بتدائی زندگی کا حال درج ہو.آپ کا ذکر کشمیر کی ہر قدیم تاریخ میں ملتا ہے.

آپ کا شجرۂ نسب امام سیدالساجدین زین العابدین علیہ السلام سے جاملتا ہے.

)سید تاج الدین بنِ الامیر سید حسن بنِ سید محمد الثالث بنِ سید علی بنِ سید یوسف بنِ سید محب بنِ سید محمد الثانی بنِ سید جعفر بنِ سید عبداللہ بنِ سید سید محمد الاول بنِ سید علی بنِ سید حسن المحدث بنِ حُسین الاصغر بنِ امام زین العابدینؑ بنِ امام حُسینؑ(

آپ کی ولادت 720ھ کے قریب شہرِ ہمدان میں ہوئی ابتدائی تعلیم اپنے خانوادہ سے ہی حاصل کی جیسا کہ اس زمانہ میں دستور تھا کُتب اور اساتذہ سے پہلے گھر کے اہلِ خانہ نمونہ عمل تھے کیونکہ ایران کے مشہور شہر ہمدان میں آپ کا خانوادہ نہ صرف سیادت، شرافت، علم اور عمل کے لیے مشہور تھا بلکہ سیاست و شجاعت بھی اس خاندان کو ورثہ میں ملی تھی.

حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ اور حضرت میر سید علی الحسینی ہمدانیؒ سے قبل اڑھائی سو سال پہلے آقائے خاقانیؒ نے آپ کے خانوادہ کی تمجید و توصیف میں کہا تھا.

ایں عجواقف سعادت

آں شارح و شرع و جادہ جود

جنات بخش حیات سادات

آن سدرہ غای سدرہ مخضود

وان پاک سلالہ جلالت

وین قطب کلید دین و داداست

آں صلب شجاعت و رسالت

بر مادر آسماں گشادہ است

حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ کی حیرت انگیز فعالیت اور ان کے کارنامے دیکھ کر اس بارے میں شبہ نہیں رہتا کہ آپ تمام علمی مدارج طے کرکے ایک بلند مقام پر فائز ہوکر علمی,فکری اور معنوی حیثیت کے حامل قرار پائے تھے۔ آپ نے کئی ممالک کے تبلیغی دورے کئے اور 761ھ میں کشمیر تشریف لائے ان دنوں کشمیر کے سلطان شہاب الدین کا فرزند مرزا حسن خناق کی بیماری کی وجہ سے قریب المرگ تھا مگر اس سید بزرگوار کی کرامات سے صحت یاب ہوگیا یہ کرامت دیکھ کر سلطان نے نہایت عزت و احترام کے ساتھ یہیں پر ٹھہرنے کی التجاء کی مختصراً آپ نے انکارکیا اور واپس ہمدان جانے کا اشارہ کیا.

حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ نے تبلیغِ اسلام اور ترویجِ مذہبِ اہلبیت علیہ السلام کے لئے عیش و عشرت اور آرام و آرائش کو ٹھوکر مار کر دُشوار گُزار راستوں سے وادی کشمیر آنے کا فیصلہ فرمایا آخر کار اپنے آبائی وطن ہمدان کو خیر باد کہہ کر کشمیر کی طرف رختِ سفر باندھ لیا کہ تاریخ ورود پر یہ یہ شعر نقل ہوا ہے.

خرد گوفت تاریخ تشریف اُو

قدم رنجہ س ید نیک رو

آپ نے 762ھ بمطابق 1360ء میں کشمیر ہجرت فرمائی اس لحاظ سے آپ کشمیر میں مذہبِ اسلام کے دوسرے مبلغ قرار پاتے ہیں کیونکہ آپ سے قبل حضرت سید شرف الدینؒ (عبدالرحمن) المعروف بُلبل صأب یہاں تشریف لاچُکے تھے۔ حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ کے ساتھ ان کے برادر حضرت میر سید حسین سمنانیؒ ,رُستمِ ہند حضرت سید حسن بہادرؒ,حضرت سید حیدرؒ, حضرت سید یوسفؒ اور حضرت سید مسعودؒ بھی تھے سلطان شہاب الدین نے آپ کا استقبال نہایت گرمجوشی سے کیا اطرافِ کشمیر کا سرسری دورہ کرنے کے بعد محلہ شہاب الدین پورہ (نوہٹہ) سرینگر جس کی آبادی ساٹھ ہزار گھر تھی سکونت اختیار کی .کشف و کرامات اور خوارق عادات سے کشمیر کے بادشاہ اور بڑے بڑے امراء کے دلوں کو مسخر کیا.

سلطان شہاب الدین بیت کرکے مریدوں میں شامل ہوگئے اور دل و جاں سے خدمت گُزاری کے فرائض انجام دیتے رہے سلطان شہاب الدین نے اپنی رہائش کے نزدیک ایک عمدہ گھر آپ(رح) کے لئے تعمیر فرمایا اور ساتھ ہی ایک عمدہ خانقاہ تعمیر کرائی اور ناگام کا پرگنہ آپ کی خانقاہ کے خدام کے اخراجات کے لئے وقف کردیا.حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ نے اسی مدرسہ اسلامی یعنی خانقاہ میں باقاعدگی کے ساتھ درس و تدریس کا آغاز کردیا اور یہیں سے مذہبِ اہلبیت)ع( پروان چڑھا مگر افسوس چک سلاطین کے دور میں یہ خانقاہ ویران ہوگئی(فسادات) اور پھر اس عظیم ثقافتی,علمی اور تبلیغِی مرکز کی نسبت محکمہ آثارِ قدیمہ کی چشم پوشی قابلِ افسوس رہی ہے حد تو یہ ہے کہ مذہبِ آل محمد )ع( کے پیروکار بھی داخلی و خارجی سازشوں کی وجہ سے اس عظیم درسگاہ سے دور ہوتے چلے گئے نتیجتاً موجودہ نسل بالکل بھی نہیں جانتی کہ اس جگہ کی ملتِ تشیع میں کیا اہمیت ہے…حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ نے وہاں پر ایک مسجد بھی تعمیر کی تھی جس کے آثار کچھ زمانہ پہلے تک باقی تھے حال ہی میں وہاں ایک مسجد حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ کے نام پر تعمیر ہوئی ہے۔

حضرت میر سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدانیؒ کے ساتھ شانہ بشانہ دن رات تبلیغ دین اسلام کرتے رہیں جس کا ثمر آور درخت کچھ ہی برسوں میں قدآور ہوا.

آپ کی فہم و فراست اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے سلطان شہاب الدین سلطنت کے اہم کام آپ کے مشورے سے انجام دیتا تھا مقدمات کی سماعت، فیصلوں، ملکی لڑائیوں اور مصالحتوں میں آپ کو شامل رکھتا تھا۔ سلطان خود اعتراف کرتا تھا کہ حضرت  میر سید تاج الدینؒ کی روحانیت و سیاست کی وجہ سے میں اس ملک کو سنبھالے رکھا ہوں. رفتہ رفتہ آپ کی شہرت دور دور تک ہوگئی اور ہزاروں لوگ ان کے حلقہ بگوش ہوگئے اسلام قبول کرلیا.اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہاب پورہ میں ہر طرف شیعہ آباد ہوگئے.

حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ کی خدمات کا احاطہ کرنا نہایت مشکل ہے یہ وہی بُزرگ ہے جن کی رُوحانیت و مشقت نے شیعیت کے اُس درخت کو ہرا بھرا کردیا جو حضرت سید شرف الدینؒ المعروف بلبل صأب نے بُویا تھا اپنے خون سے اس کی آبیاری کی اور پندرہ سال دن رات تبلیغ دین اور دوسرے اہم کاموں میں صرف کئے.آپ اہلِ نورِ ایماں مجاہدِ اکبر اور بیدار محافظ تھے۔ اس میں شک نہیں کہ آپ اور آپ کے اصحابؒ نے کشمیر آکر دینِ ناب محمدیؑ کو روشن کردیا اور جگہ جگہ خانقاہوں و مدارس کی بنیاد ڈالی۔ ان کی محنت,بے پناہ کوشش اور جدوجہد سے کشمیر میں مذیب حق کو کافی فروغ ملا اور کشمیریوں نے مذہبِ اہلبیت علیہ السلام قبول کیا.حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ غیر معمولی ذہانت ، قابلیت، شجاعت، جواں مردی اور سیاسی بصیرت اور اپنی شان و شوکت کے لئے ضرب المثل تھے۔ بزرگ علماء، مورخین، شعراء آپ کےبارے میں رطب اللسان نظر آتے ہیں ملا احمد خطیب کشمیریؒ لکھتے ہیں:

سید تاج الدین قدس اللہ سرہ کان من اکابر الاولیاء واعاظم المرشدین صاحب الاحوال و المقامات والریاضات والمجاہدات والمکاشفات والمعانیات و التجلیات الاسرار  البینتہ والانوار الروحانیہ .وھو عالم بعلوم الظاہر و عارف بمعارف الباطن ومن ارباب الکملات الصوریتہ والمعنویتہ ولہ فی اجد الفرستہ و کثیرۃ ولکرامتہ والجفانی  والتوحید والکشف والنشور  والمعرفتہ ولاولایتہ واھمتہ والعرۃ و تصرف العلوم

ملا احمد بن عبدالصبورؒ جناب حضرت سید تاج الدینؒ کی تعریف کرتے لکھتے ہیں:

 در عبادت بود یکتایی زمان

شد بوصف حال اُو عاجز زبان

علامہ سید محمد متولیؒ یوں عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں مختصراً لکھ رہی ہوں:

پدر اُو بدست تاج الدین

ھدی اولیاء راہ یقین

سید و آل حیدر بودہ

سر بدرگاہ حق ھمی سودہ

اتنی صفات کے مالک حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ فارسی و عربی کے اُستاد زماں تھے، عربی و ادب پر گہری نظر تھی.

اتنی مصروفیات کے باوجود بھی یہ سید بزرگوارؒ تحقیق کے میدان سے فرار نہیں ہوئے, “سراج دربیاں عقائد شیعہ” آثار میں موجود ہے مگر افسوس ان کے قلمی آثار (فسادات کی نظر) حوادث کے نظر ہوگئے.

ایک وقت ایسا آیا کہ آپ پر بیماری کے آثار نظر آنے لگے بالآخر مالکِ حقیقی سے جا ملے اور اپنی ہی خانقاہ واقع شہاب الدین پورہ(نوہٹہ) میں دفن ہوئے..

آمدِ حضرت میر سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدانؒ کی آمد سے پہلے ہی ان کے عزیز و اقارب حضرت میر تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ کی سربراہی میں کشمیر وارد ہوچکے تھے جس سے حضرت میر سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدانؒ کو آسانی محسوس ہوئی .

ہر سال 11 رجب المرجب کو آپ کی زیارت پر عُرس پاک منایا جاتا ہے جس میں ختمات و معظمات,درُود و اذکار، وعظ و تبلیغ اور مولود شریف کی مجلس ہوتی ہے جس میں لاکھوں عقیدت مند حصہ لیتے ہیں لوگ دور دور سے اپنی حاجات کے واسطے حاخری دیتے ہیں.

حضرت میر سید تاج الدین الحسینی ہمدانیؒ کی نسل آپ کی اولاد حضرت میر سید حسن بہادرؒ سے آگے بڑھی اور ان کی اولاد سادات حسینی ہمدانی نہ صرف وادی(زڈی بل، خانقاہِ سوختہ، حسن آباد، باغوان پورہ لال بازار، عمر کالونی لال بازار، نشاط، بمنہ، وہاب پورہ بڈگام، سونہ پاہ وغیرہ) بلکہ بیرون ملک میں بھی آباد ہیں واعظ سادات بھی ان جناب کی اولاد ہیں. امریکہ میں چھپی کتاب “الحبل المتین فی انساب السادۃ المنتجبین” جُزِ اول میں بھی شجرہ نسب درج ہیں ..

حضرت سیدّہ تاج بی بی خاتونؒ آپ کے فرزند حضرت میر سید حسن الحسینی ہمدانیؒ المعروف حسن بہادر رُستمِ ہِند کی دُختر نیک اختر اور فیروز شاہ تغلق جو کہ دہلی کے بادشاہ تھے کہ نواسی تھی آپ شہاب پورہ میں پیدا ہوئی اور آپ کا نکاح حضرت میر سید محمد الحسینی ہمدانی ابنِ حضرت میر سید علی الحسینی ہمدانیؒ المعروف شاہِ ہمدان سے ہوا,آپ کی اولاد حضرت میر سید حسین الحسینی ہمدانیؒ, حضرت میر سید علاءالدین الحسینی ہمدانیؒ، حضرت میر سید حسن الحسینی ہمدانیؒ، حضرت میر سید ابوعلی الحسینی ہمدانیؒ ہیں.آپ ہی کی اولاد سے حضرت میر سید محمد الحسینی ہمدانیؒ کی اولاد ہیں.

اہلیانِ کشمیر بالعموم و اہلیانِ شیعیانِ شہرِ سرینگر(زڈی بل) سے بالخصوص مودبانہ عاجزانہ گزارش ہے کہ اس ولی اللہؒ کی مظلوم دُختر سیدہ عالیہ خاتونؒ حول کے پاس سنگین دروازہ کے بائیں جانب دفن ہے زمانہ قدیم میں ایک گُمبند نما قبر موجود تھی مگر تعصب چاہے حکمرانوں کی جانب سے یا دُشمنِ اہلبیت علیہ السلام کی طرف سے و حوادثِ زمانہ کے نتیجہ میں اب قبرِ مطہرہ کا نشان تک باقی نہیں رہا ہے اس لئے جب بھی وہاں سے گُزر جائے تو سورۃ الفاتحہ معہ صلوات کی استدعا ہے کیونکہ اس سید زادی نے بھی تبلیغِ دین میں اپنےحصہ کی ذمہ داری نبھائی تھی.