سعودی عرب یمن جنگ پر اب تک ۲۳۳ ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے

صناء/سعودی حکمرانوں نے کبھی یہ ظاہر بھی نہیں کیا کہ یہ اتنی عظیم رقم اور سرمایہ کس چیز میں اور کیوں خرچ ہوا جبکہ سیاسی مبصرین کا یہ ماننا ہے کہ یہ سب کا سب اور اتنا عظیم سرمایہ، سعودی عرب نے یمن کے ساتھ جنگ میں ضائع کردیا ہے۔
“ولایت ٹائمز” نے نقل کیا ہے کہ عربی نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں یہ خلاصہ کیا ہے کہ سعودی عرب کے موجودہ حکمراں سلمان بن عبد العزیز کے دور حکومت میں اب تک ملک کے ذخائر میں سے ۲۳۳ ارب ڈالر (یعنی ۸۷۳ ارب ریال) اس طرح خرچ ہوچکے ہیں کہ جن کا حساب و کتاب کسی معلوم نہیں ہے۔
اس نیوز چینل نے ایک انگریزی کے نامہ نگار اور مشرق وسطیٰ کے بارے میں غائز نظر رکھنے والے جرنلسٹ ڈیوڈ ہرسٹ کے ایک آرٹیکل کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کچھ دن پہلے سعودی عرب کے اقتصادی بحران کا ایک تجزیہ پیش کیا تھا جس میں تیل کی گرتی ہوئی تازہ قیمتیں اور زر مبادلہ کے ذخائر کا بڑی تیزی کے ساتھ کم ہونے کو باعث تشویش قرار دیا ہے۔
۲۱ عربی نیوز ایجنسی نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ رپورٹ اشارہ کرتی ہے کہ ۲۰۱۵ یعنی سابق بادشاہ عبد اللہ بن عبدالعزیز کی موت سے لیکر اب تک ۔ سعودی عرب کے خزانے جو پہلے مالا مال تھے ۔ ان میں خاطر خواہ قلت و گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے اور جب سے آج تک تقریباً ۱ ٹریلن سعودی ریال اس میں سے خرچ ہوچکے ہیں۔
اقتصادی رپورٹس کے مطابق سعودی عرب کا اپنے مرکزی بینک میں دسمبر ۲۰۱۴ تک تقریباً کل ذخیرہ ۲۷۴۶ ارب ریال (یعنی ۷۳۲ ارب ڈالر) تھا لیکن یہ رقم آہستہ آہستہ گھٹی اور دسمبر ۲۰۱۹ میں ۱۸۷۳ ارب ریال (۴۹۹ ارب ڈالر) پہونچ گئی کہ جس کا صاف مطلب ہے کہ سعودی خزانے نے اس عرصہ میں ۲۳۳ ارب ڈالر کو خرچ کردیا ہے اور اس عرصہ میں اگر ہر سال کے خرچ کا حساب لگایا جائے تو ہر سال سعودی حکومت نے ۴۶ ارب ۶۰ کرورڑ ڈالر ملکی خزانے کو پانی کی طرح بہا دیا ہے۔
ان رپورٹس کے مطابق سعودی حکمرانوں نے کبھی یہ ظاہر بھی نہیں کیا کہ یہ اتنی عظیم رقم اور سرمایہ کس چیز میں اور کیوں خرچ ہوا جبکہ سیاسی مبصرین کا یہ ماننا ہے کہ یہ سب کا سب اور اتنا عظیم سرمایہ، سعودی عرب نے یمن کے ساتھ جنگ میں ضائع کردیا ہے۔چونکہ سلمان بن عبدالعزیز ۲۳ جنوری سن ۲۰۱۵ کو اپنے بھائی عبداللہ کی موت کے بعد برسر اقتدار آئے اور صرف ۳ مہینہ بعد ہی انہوں نے یمن کے ساتھ جنگ کا آغاز کردیا تاکہ منصور ہادی کو دوبارہ صنعاء کی اقتدار تک لوٹا دیا جائے چنانچہ اس نے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو اس جنگ کو لڑنے کے لئے سعودی عرب کا وزیر جنگ مقرر کردیا ۔ لیکن آج تک سعودی عرب اس جنگ میں اپنے مطلوبہ مقاصد تک نہیں پہونچ سکا اور اس کی تمام افواج بھی آج تک صنعاء میں داخل نہیں ہو پائیں اور منصور ہادی بھی ابھی ریاض کے ہی کسی محل میں پناہ گزیں ہیں اور ان کا بھی صنعاء لوٹنے کا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے۔
یہ امر بھی توجہ کے لائق ہے کہ یہ اتنا عظیم سرمایہ ہے کہ جو بہت سے عربی ممالک کو برسہا برس تک کے لئے کافی ہوسکتا ہے چنانچہ یہ سرمایہ اردن اور تونس جیسے ممالک کا تقریباً ۱۸ برس سے زیادہ کا بجٹ شمار ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ یہ سرمایہ تیل کی قیمتوں میں گراوٹ سے پہلے کا ہے چونکہ قیمتوں میں گراوٹ مارچ ۲۰۲۰ سے شروع ہوئی ہے اور یہ سرمایہ سعودی خزانے سے اس وقت میں غائب ہوا ہے کہ جب تیل کی قیمتیں مناسب تھیں اسی طرح کرونا وائرس کے چلتے اس برس عمرہ بھی نہیں ہو سکا اور اگر ایسا ہی رہا تو اس سال حج پر بھی پوری دنیا سے حاجی نہیں پہونچ پائیں گے جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آل سعودی اپنی حکمرانی کے سب سے بدتر دور میں داخل ہوچکے ہیں۔