حال ہی میں جب وادی کو ملک وبیرون دنیا کے ساتھ جوڑنے والی قومی شاہرا ہ ناسازگار موسمی حالات کی وجہ سے بسا اوقات ٹریفک کی نقل وحل کے لئے بند رہی تو سینکڑوں کی تعداد میں کشمیری جن میں خواتین ،بچے ، بیمار اور عمر رسیدہ لوگ بھی شامل تھے، شاہراہ پر بھی اور جموں میں بھی درماندہ ہو گئے۔ان بے یارویاور اور بے سروسامان درماندہ کشمیری مسافروں کو ہوٹل والوں ، دکانداروں اور دیگر لوگوں جن کے ساتھ انہیں اس دوران واسطہ پڑا نے لوٹنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔اسی اثنا میں جب جموں میں درماندہ کشمیری مسافروں نے جہاز کے ذریعے سرینگر پہنچانے کے مطالبے کو لے کر احتجاج کیا تو ان پر حملہ کیا گیا۔
تاریخ:۲۵ فروری ۲۰۱۹/سرینگر/جموں وکشمیر
حال ہی میں جب وادی کو ملک وبیرون دنیا کے ساتھ جوڑنے والی قومی شاہرا ہ ناسازگار موسمی حالات کی وجہ سے بسا اوقات ٹریفک کی نقل وحل کے لئے بند رہی تو سینکڑوں کی تعداد میں کشمیری جن میں خواتین ،بچے ، بیمار اور عمر رسیدہ لوگ بھی شامل تھے، شاہراہ پر بھی اور جموں میں بھی درماندہ ہو گئے۔ان بے یارویاور اور بے سروسامان درماندہ کشمیری مسافروں کو ہوٹل والوں ، دکانداروں اور دیگر لوگوں جن کے ساتھ انہیں اس دوران واسطہ پڑا نے لوٹنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔اسی اثنا میں جب جموں میں درماندہ کشمیری مسافروں نے جہاز کے ذریعے سرینگر پہنچانے کے مطالبے کو لے کر احتجاج کیا تو ان پر حملہ کیا گیا۔
حال ہی میں جب وادی کو ملک وبیرون دنیا کے ساتھ جوڑنے والی قومی شاہرا ہ ناسازگار موسمی حالات کی وجہ سے بسا اوقات ٹریفک کی نقل وحل کے لئے بند رہی تو سینکڑوں کی تعداد میں کشمیری جن میں خواتین ،بچے ، بیمار اور عمر رسیدہ لوگ بھی شامل تھے، شاہراہ پر بھی اور جموں میں بھی درماندہ ہو گئے۔ان بے یارویاور اور بے سروسامان درماندہ کشمیری مسافروں کو ہوٹل والوں ، دکانداروں اور دیگر لوگوں جن کے ساتھ انہیں اس دوران واسطہ پڑا نے لوٹنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔اسی اثنا میں جب جموں میں درماندہ کشمیری مسافروں نے جہاز کے ذریعے سرینگر پہنچانے کے مطالبے کو لے کر احتجاج کیا تو ان پر حملہ کیا گیا۔
وجہ سے بسا اوقات ٹریفک کی نقل وحل کے لئے بند رہی تو سینکڑوں کی تعداد میں کشمیری جن میں خواتین ،بچے ، بیمار اور عمر رسیدہ لوگ بھی شامل تھے، شاہراہ پر بھی اور جموں میں بھی درماندہ ہو گئے۔ان بے یارویاور اور بے سروسامان درماندہ کشمیری مسافروں کو ہوٹل والوں ، دکانداروں اور دیگر لوگوں جن کے ساتھ انہیں اس دوران واسطہ پڑا نے لوٹنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔اسی اثنا میں جب جموں میں درماندہ کشمیری مسافروں نے جہاز کے ذریعے سرینگر پہنچانے کے مطالبے کو لے کر احتجاج کیا تو ان پر حملہ کیا گیا۔
ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ 14 فروری کو جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع کے لیتہ پورہ میں سی آر پی ایف کی ایک کانوائے پر خود کش حملہ ہوا جس میں کم وبیش پچاس اہلکار ہلاک ہوئے اور اس حملے کی ذمہ داری جیش محمد نامی جنگجو تنظیم نے قبول کی۔
اس ہلاکت خیز خود کش حملے کے بعد ریاست کے ہی ایک حصے جموں کے علاوہ ملک کی کئی ریاستوں میں کشمیریوں کے خلاف جنگی محاذ کھولا گیا اور کشمیریوں کا قافیہ حیات تنگ کیا جانے لگا۔ مختلف ریاستوں میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم کشمیری طلبا اور تجار وملازمین کو ہراسان کرنے کرنے کا یاک لامتناہی سلسہ شروع ہوا،کئی طلبا کو تعلیم ادھوری چھوڑ کر جان بچانے کے واسطے گھر واپس لوٹنا پڑا اور تاجروں نے بھی گھر واپس لوٹنے میں ہی آفیت گردانی۔
کشمیریوں کو ہراسان کرنے کے خلاف جہاں وادی کے سیاسی، مذہبی، تجارتی تنظیموں نے آواز بلند کی اوراس کے خلاف بیانات بھی دئے گئے اور احتجاجی مظاہرے بھی درج کئے گئے وہیں بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی مذمت کی گئی اور سب سے بڑھ کی عدالت عظمیٰ نے بھی کشمیریو ں کو ہراسان کرنے کا سخت نوتص لیا اورہدایات جاری کیں کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں مقیم کشمیریوں کو فوری اور ضروری تحفظ فراہم کیا جائے۔
بہر کشمیریوں کو اس مصیبت و آزمائش کی گھڑی میں جس طبقے نے درمے، سخنے اور قدمے مدد کی وہ سکھ برادری ہے۔سکھ برادری کے لوگوں اور اداروں نے اپنے دروازوں کو کھول کر ستم رسیدہ کشمیریوں کو پناہ دی جس سے انہوں نے نہ صرف کشمیریوں بلکہ تمام ذی شعور انسانوں دلوں کو موہ لیا۔
شمالی ہندوستان میں سکھ براداری نے’خالصہ ایڈ‘ کے تحت نہ صرف مقامی گردواروں کے دروازے کھولے بلکہ اپنے گھروں کو بھی کشمیریوں کے لئے وقف کیا اور کشمیریوں کت تحفظ و قیام وطعام کا انتظام کیا۔سکھ برادری کی اس دریا دلی اور انسانی واخلاقی مظاہرے سے کشمیریوں کے دلوں میں سکھ برادری کے تئیں عزت واحترام کے تاج محل تعمیر ہوئے اور اس احسان کا معاوضہ دینے کے لئے کشمیری بھی حتی الوسع کوشاں ہیں۔
یہا ں کئی اداروں نے سکھ برادی کے لوگوں کے لئے تعلیم وصحت وغیرہ اداروں میں رعایت کا اعلان کیا ہے۔
تاہم سب سے بڑی بات یہ ہے اس برادری کے تئیں معاشرے میں وقعت ،عزت و احترام اور شان کا ایک ایسا عظیم الشان مینارہ قائم ہوا ہے جو ہم سب کو روشن کررہا ہے اس روشن مینارے سے ہمیں نیکی اور انسانی واخلاقی اقدار کی راہیں نظر آرہی ہیں۔
سکھ برادری کا یاک ستم رسیدہ قوم کو مصیبت کی گھڑی میں دست تعاون پیش رکھنا ملک کے جملہ طبقہ ہائے فکر ومذہب سے وابستہ لوگوں کے لئے نصیحت بھی ہے اور سبق بھی ہے۔اگر ہسب مکتب ہائے فکر کے لوگوں میں انسانیت کے تئیں یہی جوش وجذبہ ،یہی ایثار اور یہی سوچ پیدا ہوجائے تو فرقہ ہرستی کانام ونشان مٹ جانا بعید از امکان نہیں ہےاور اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کےلئے سادہ لوح عوام کا استحصال کرنے والوں کے تمام ہتھکنڈے ناکام ہوں گے۔
بہر صورت ضرورت اس امر کی ہے کہ سکھ برادری کے لوگوں نے جو مثال قائم کی ہے ملک کی دوسری برادریاں اس کو نقش عمل بنائیں اور اس فرقہ پرور طاقتوں کے خلاف قیام کرکے ان کے مذموم ارادوں کو ناکام بنائیں۔
یہ ایک مسلمہ الثبوت حقیقت ہےکشمیریوں نے بارہا ایسی مثالیں قائم کی ہیں اور موجودہ حالات میں یہاں غیر ریاستی باشندوں کو تحفظ فراہم کرکے ایک بار پھر ایسا کرکے اپنی شان رفتہ کو مزید روشن کیا جاسکتا ہے۔یہی سکھ برادری کے احسان کا سب سے بہتر وموثر معاوضہ بھی،وقت کی اہم ترین ضرورت بھی ہے اور کشمیریوں کی پہچان بھی ہے۔