شام پر امریکی یلغار؛ٹرانپ کا گھاٹے کا سودا

سرینگر/ دلچسپ بات یہ ہے کہ شامی حکومت کے پاس کیمیائی ہتھیار نہیں ہیں اور اس نے رسمی طور تمام کیمیائی ہتھیار اقوام متحدہ کے تحویل میں دئے ہیں اور اقوام متحدہ نے بھی شام کے ایسے اقدام پر رسمی طور مہر تائید لگائی ہے اور اسی حکومت پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے وہ بھی ایسے شرائط میں جب وہ دہشتگردوں کو کچلنے میں پوری طرح کامیابی کے ساتھ آگے بڑ ھ رہا تھا اور ایسے میں کیمیائی ہتھیار استعمال کئے گئے وہ بھی نہتے عوام پر نہ کہ دہشتگردوں پر اور الزام حکومت پر عائد کیا گیا جو کہ نہ ہی عقلی نہ ہی عرفی معیار کے ساتھ کسی قسم کی مطابقت رکھتے ہیں۔

از قلم:سید عبدالحسین موسوی کشمیری

عالمی اردو خبررساں ادارے ’’نیوزنور ‘‘کے مدیر اعلی حجت الاسلام الحاج آغا سید عبدالحسین موسوی کشمیری نے شام پر امریکی حملے کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے ٹرامپ کا گھاٹے کا سودا قرار دیا۔

امریکی صدر جمہوریہ ڈونالڈ ٹرامپ کی طرف سے جمعہ مطابق 7 اپریل 2017ء کو شام پر فوجی جارحیت کا حکم صادر کرنے سے کئی سوالات نے جنم دیا از جملہ یہ کہ کیا یہ جو عالمی شہرت یافتہ امریکی مفکر’’نوم چومسکی‘‘نے ڈیموکریسی نو کو دئے گئے انٹرویو میں کہا کہ’’امریکی حکومت عالم امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے‘‘عملی شکل اختیار کرنے جارہی ہے کیا؟۔

اس سے پہلے کہ ٹرامپ کو عالمی افکار کیلئے جوابدہ ہونا پڑیگا وہ خود اپنے شہریوں کے سامنے ایک جھوٹا انسان ثابت ہوگیا ہے کہ جس نے اپنے انتخابی وعدوں میں ایک اہم وعدہ اپنے شہریوں سے یہ کیا تھا کہ وہ غیر ملکی جنگوں میں نہیں جھونکے گا بلکہ صرف ملکی اقتصاد کی اصلاح اور عوام کی معیشت میں بہبودی لانے پر مرکوز رہے گا۔ لیکن شام پر کھلی جارحیت کرکے اپنے چہرے سے ایک اور نقاب اتار دیا ہے۔

ہاں اگر شام پر حملہ سعودی عرب کی طرف سے امریکی اقتصاد اور امریکی قرضے ادا کرنے کی ضمانت حاصل کرکے کیا گیا ہے تو پھر ٹرامپ اپنے شہریوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں پر تو کھرا اتر گیا ہے۔لیکن ایسے میں سعودی عرب نے اپنا مستقبل مخدوش کردیا ہے اور سعودی عرب کی عوام پر جب یہ حقیقت عیاں ہوگی تو سعودی حکمرانوں کی یمنی مستعفی بھگوڑے صدر ہادی کی جیسی ہوگی کہ وہ نہ گھر کا رہ گیا نہ ہی گھاٹ کا اور شام میں آخر کار عوام کا ہی راج رہے گا اسرائیل،امریکہ اور سعودی عرب کا نہیں۔

شام پر امریکی حملے کی ایک اور نوعیت یہ ہے جس سے شامی عوام کی آخر کار فتح یقینی معلوم ہوتی ہے وہ یوں کہ شامی جمہوری حکومت امریکہ/ اسرائیل حامی دہشتگردوں کی کمر توڑنے میں کامیابی کے آخری مراحل میں داخل ہورہی تھی، حلب میں شاندار کامیاب حاصل کرنے کے بعد اب دہشتگردوں کا مزید ایک ایک ٹھکانہ سرکاری فوج کے قبضے میں آرہا تھا اور سیاسی راہ حل نکالنے کی تگ دو بھی زوروں پر جاری تھی کہ ایسے میں’’خان شیخون ‘‘ میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا جہاں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور الزام فوج پر عائد کیا گیا اور عالمی سطح پر اسکی بہت زیادہ تشہیر کی گئی کہ حکومت نے اپنے مخالفوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرکے بے گناہ لوگوں کا قتل عام کردیا اور جب امریکہ کو اطمنان ہوگیا کہ دنیا نے اس جھوٹ کو سچ سمجھ لیا ہے اسی واقعے کو بہانہ بنا کرموصل کے ڈسٹرکٹ ’’الشعیرات‘‘ کے فوجی آئیر بیس پر بقول امریکی ذرائع43 سے 70 کروزمیزائیل داغے اور پنٹاگن نے اعلان کیا کہ ان حملوں میں الشعیرات آئیر بیس کے جنگی جہازوں اورموجودتیلی ذخائر کو نشانہ بنایا گیا۔ امریکہ نے دعوی کیا ہے کہ اسی ائیر بیس سے خان شیخوں پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شامی حکومت کے پاس کیمیائی ہتھیار نہیں ہیں اور اس نے رسمی طور تمام کیمیائی ہتھیار اقوام متحدہ کے تحویل میں دیے ہیں اور اقوام متحدہ نے بھی شام کے ایسے اقدام پر رسمی طور مہر تائید لگائی ہے اور اسی حکومت پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے وہ بھی ایسے شرائط میں جب وہ دہشتگردوں کو کچلنے میں پوری طرح کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا اور ایسے میں کیمیائی ہتھیار استعمال کئے گئے وہ بھی نہتے عوام پر نہ کہ دہشتگردوں پر اور الزام حکومت پر عائد کیا گیا جو کہ نہ ہی عقلی نہ ہی عرفی معیار کے ساتھ کسی قسم کی مطابقت رکھتے ہیں۔

معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب امریکہ اور اسکے مغربی اتحادیوں کی طرف سے کی گئی منصوبہ بندی ہے۔اور جنگوں میں معمولا ہارنے والا اپنے آخری حربے کے طور پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرتا ہے جس طرح کہ ایران عراق کے جنگ کے دوران معدوم صدام نے ایران پر تب ہی کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا جب اسے یقین ہو گیا کہ ایران غالب ہونے جارہا ہے۔
شام پر امریکی حملے کی حمایت کس نے کی یہ انتہائی دلچسپ بات ہے۔ سب سے پہلے اسرائیل اور سعودی عرب نے اس حملے کی حمایت کی اور اس کے بعد ترکی،برطانیہ،آسٹریلیا،فرانس اور شامی باغی جماعت نے حملے کی حمایت کی اور یہ وہی جماعت ہے جو پہلے سے ہی اسرائیل کو بچانے کیلئے شام میں اسرائیل حامی حاکم کو برسر اقتدار لانے کیلئے شامی جمہوری حکومت کے خلاف بر سر پیکار پراکسی وار میں مصروف عمل ہیں جبکہ ایران ، روس اوربولیویا نے امریکی کاروائی کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جو شامی عوام کی رائے کو محترم سمجھتے ہیں اور شامی عوام کے حامی ہیں ۔ اب اصلی کھلاڑیوں کا پراکسی وار چھوڑ کر کھل کر میدان آنے سے مطلع صاف ہو گیا ہے البتہ حالات پیچیدہ ہو گئے ہیں۔