شراب”ام الخبائث و ام الفواحش”

اسلام سے قبل معاشرہ جن برائیوں میں مبتلاتھا اورجن خرابیوں نے اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ،ان میں اہم برائی’’ نشہ ‘‘ کرنے کی تھی،شراب کا استعمال پانی کی طرح کیا جاتاتھا،اسلام نے جن خرابیوں کو دورکرنے کیلئے تدریجی طریقہ اختیارکیا ہے، ان میں سے ایک شراب بھی ہے

تحریر :پیرزادہ سید اشفاق بخاری شافعی

شورو خانصاحب بڈگام، کشمیر

اسلام سے قبل معاشرہ جن برائیوں میں مبتلاتھا اورجن خرابیوں نے اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ،ان میں اہم برائی’’ نشہ ‘‘ کرنے کی تھی،شراب کا استعمال پانی کی طرح کیا جاتاتھا،اسلام نے جن خرابیوں کو دورکرنے کیلئے تدریجی طریقہ اختیارکیا ہے، ان میں سے ایک شراب بھی ہے،اس معاشرہ میں جہاں بہت سے افرادشراب کے رسیاتھے وہیں کئی ایک سلیم الطبع ایسے افرادبھی تھے جو شراب کو حددرجہ ناپسندکرتے تھے چنانچہ حضرت عمر فاروق ،معاذبن جبل اورچند انصاری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت نبی رحمت سیدنا محمد عربی رسول اللہ(ص) کی خدمت میں یہ عرض کیا ’’یارسول اللہ (ص) شراب کے بارے میں کوئی ہدایت فرمادیجئے کیونکہ یہ عقل کوزائل کردیتی ہے،اورمال بھی ضائع ہوتا ہے‘‘۔اللہ سبحانہ نے اس بارے میں پہلا حکم نازل فرمایا ’’آپ فرمادیجئے شراب اورجوے میں بڑاگناہ ہے،اورلوگوں کیلئے اس میں کچھ فوائد بھی ہیں لیکن ان کے فوائدسے ان کا گناہ کہیں زیادہ ہیں‘‘ (البقرہ۲۱)

اس حکم کے آجانے پراکثرافرادنے شراب کا استعمال ترک کردیا۔

ہرشی میں کچھ نہ کچھ فوائد ضرورہوتے ہیں ،لیکن ان کے نقصانات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ اس کی وجہ اس کے استعمال کوگوارہ نہیں کیا جاتا۔ شراب سے عارضی سروراوروقتی تسکین کا سامان تو ہوسکتاہے لیکن اس کی وجہ ہونے والے جسمانی وروحانی نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ وقتی کچھ فائدہ اس کے نقصانات بالمقابل کوئی اہمیت نہیں رکھتا،اس ابتدائی حکم کے بعد دوسراحکم یہ نازل ہوا ’’کہ نشہ کی حالت میںنماز نہ پڑھی جائے‘‘۔(النساء ۴۳)

اس دوسرے حکم نے کئی ایک ایمان والوںکوشراب سے متنفرکردیا،اسلام ایک پاکیزہ نظام حیات کا بانی اوراس کا داعی ہے، وہ کیسے گوارہ کرتاکہ شراب کی چھوٹ دی جائے جو جسمانی وروحانی امراض کی بنیادہے،معاشرتی اوراخلاقی ا عتبارسے کئی ایک مفاسدکی جڑہے۔اس لیے تیسراحکم اس کی قطعی حرمت کا نازل کردیاگیا،ارشادباری ہے’’اے ایمان والویہ شراب اورجوااوربت اورجوے کے تیرسب ناپاک اورنجس ہیں یہ شیطان کے اعمال سے ہیں اس لیے ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاجاؤ ‘‘۔(المائدہ۹۰)

ٍاس حکم کا نزول ایسے وقت ہواجبکہ ایمان والوں کے قلوب میں ایمان راسخ ہوچکا تھا،اسلامی احکام کی اہمیت وافادیت قلب وروح کی گہرائیوں میں بس گئی تھی،نبی رحمت سیدنا محمدرسول اللہ (ص) کی ذات اقدس اورآپ ﷺ کی ہرہدایت اپنی خواہش نفس سے کہیں زیادہ ان کو عزیز از جان ہوچکی تھی،ایسے میں یہ حکم جیسے ہی سنا اس کے آگے انہوں نے سرتسلیم خم کرلیا ،شراب کے پیمانہ جن کے ہاتھوں میں تھے یک بیک ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئے،لبوں تک پہنچنے والے شراب کے جام لبوں تک پہنچنے سے پہلے ہی زمین پرآ گئے،شراب کے پیمانے توڑ پھوڑ دئے گئے ،برتنوں میں بھری قیمتی شراب ایسے بہادی گئی جیسے وہ کوئی بے قیمت وبے وقعت شئی ہو۔ بارش کے پانی کی طرح شراب بہتی رہی ، سجی سجائی،جمی جمائی شراب کی محفلیں ویران ہوگئیں۔ایک مسلم تاجرجوشراب کی تجارت کیا کرتے تھے ،حرمت شراب کا حکم سن کے نبی رحمت (ص) کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے، اوراپنے مال سے متعلق ہدایت چاہی آپ (ص) نے اس کوبہادینے کاحکم فرمایا، تعمیل حکم میں ملک شام سے زرکثیرخرچ کرکے لائی ہوئی شراب پہاڑی پر انڈیل دی،اپنا سرمایہ جوشراب کی تجارت میں لگایا تھا جس سے نفع کی بڑی امیدتھی،لیکن ایمان کی محبت نے اس کوخاطرمیں نہیں لانے دیا، شراب کی تجارت میں مشغول کیا ہوااپنا قیمتی سرمایہ اللہ کی خوشنودی کیلئے لٹادیااور خوشی خوشی آخرت کا سودہ کرکے راضی وخوش ہوگئے ۔

ٍنشہ کی عادت ایک ایسی بری لت ہے جس سے جان چھڑانا آسان نہیں ،شراب کا نشہ جہاں جسمانی صحت کو تباہ وتاراج کرتاہے وہیں عقل انسانی بھی ماؤف ہوجاتی ہے،جس کی وجہ اس سے وہ کام صادر ہو نے لگتے ہیں جس کو ایک صاحب عقل ودانش ہرگزپسندنہیں کرتا،نشہ کرنے والے کا جب نشہ کافور ہوجاتا ہے تواس کوبھی اس پر سخت ندامت ہوتی ہے نشہ کرنے والا اورں کے لیے ہنسی مذاق کا نشانہ بن جاتا ہے،نشہ کی وجہ اس سے صادرہونے والے غیرمتوازن اقوال واعمال اس کی سماجی حیثیت کوبری طرح داغ دارکرتے ہیں،نشہ ہی کی وجہ زنا، قتل وخون کے واقعات رونما ہوتے ہیں، الغرض جسمانی وروحانی اور معاشرتی اعتبارسے اس کے اتنے بڑے مفاسدہیں کہ ان کا مختصرتحریرمیں احاطہ ممکن نہیں ۔

ٍٍہروہ برائی وخرابی جونشہ کرنے والے کی ذات کو نقصان پہنچا سکتی ہے اورجس سے سماج میں اس کی حیثیت متاثرہو سکتی ہے جسمانی وروحانی نقصانات کے ساتھ اس کی معاش اور معاشرت کو متاثرکرسکتی ہے اس نشہ کی وجہ اس کے دامن گیرہوجاتی ہے،نبی رحمت سیدنا محمدرسول اللہ(ص)نے ایک بلیغ ارشاد میں شراب کو ’’ام الخبائث یا ام الفواحش‘‘ فرماکر شراب کے جملہ مفاسد ومعائب اورنقصانات کا احاطہ فرمایا ہے۔

ان حالات میں اول تو والدین کا پھر معاشرہ کے ذمہ داروں کا فرض ہے کہ وہ عام طورپرنوجوانوںکو اورخاص کر مسلم طبقہ اورنئی نسل کو شراب جو ام الخبائث اور ام الفواحش ہے کی اس خطرناک عادت سے بچانے اوراس لت سے ان کوچھٹکارہ دلانے کیلئے سرجوڑکر غوروخوض کریں ،اورایسی عملی کوشش اورجدوجہد اختیارکریں جس سے نوجوانوں کی حفاظت ہوسکے ،اورسماج اس کی زہرناکیوں سے محفوظ رہ سکے۔