عالمی استعمار ایران کی استقامت اور پیشرفت سے خوفزدہ؛مہیسہ امینی کی موت حرکت قلب بند ہونے سے واقع ہوئی؛ایران کیخلاف میڈیا وار جاری؛پرامن احتجاج غصہ کا اظہار اور عوام کا جمہوری حق لیکن امریکہ اور اسرائیل نے اپنے مزدوروں کے ذریعہ حالات کو بگاڑنے کی سازش انجام دی: :نمائندہ ولی فقیہ ہند آیت اللہ مہدی مہدوی پور

عالمی استعمار ایران کی استقامت اور پیشرفت سے خوفزدہ؛مہیسہ امینی کی موت حرکت قلب بند ہونے سے واقع ہوئی ؛ ایران کیخلاف میڈیا وار جاری؛عالمی استعمار ایران کی استقامت اور پیشرفت سے خوفزدہ؛ پرامن احتجاج غصہ کا اظہار اور عوام کا جمہوری حق لیکن امریکہ اور اسرائیل نے اپنے مزدوروں کے ذریعہ حالات کو بگاڑنے کی سازش انجام دی؛ نظام اسلامی کی شبیہ کو تخریب کرنے کی سازش ناکام ثابت ہوگی ؛ اسلامی ایران کےمختلف شعبہ جات میں خواتین کی ترقی نمونہ عمل: نمائندہ ولی فقیہ ہند آیت اللہ مہدی مہدوی پور

نئی دہلی/ولایت ٹائمز نیوز سرویس/اسلامی جمہوریہ ایران میں حجاب کے خلاف احتجاج سے متعلق عالمی میڈیا کی خبروں کا مقصد ایران کو بدنام کرنا اور میڈیا وار کی شروعات ہے۔انقلاب کی کامیابی کے آغاز سے ہی عالمی طاقتوں نے مختلف محاز پر ایران کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کیں اورمختلف طریقوں سے ایران پر حملہ کیاہے، ایران کی معیشت، ایران کی حکومت اور ایران کے اسلامی نظام کو کمزور کرنے کیلئے ہر طرح کے ہتکھنڈے اپنائے گئے، معاشی پابندی لگائی گئی، معاہدہ کا خاتمہ کیاگیا جب یہ سب کرنے کے باوجود عالمی طاقتوں کو اپنے عزائم میں کامیابی نہیں مل سکی تو اب ایران کے خلاف میڈیا وار کی شروعات کی گئی ہے اور 22 سالہ ایرانی خاتون مہسا امینی کی موت کا بہانہ بناکر عالمی سطح پر ایران کی شبیہ کو خراب کرنے کی مذموم سازش رچی جارہی ہیں۔سال 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں ہر شعبہ میں خواتین نے بے پناہ ترقی حاصل کی ہے۔ ان باتوں کا اظہار ہندوستان میں مقیم اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ کے نمائندہ خاص آیت اللہ حاج مہدی مہدوی پور نے میڈیا سے بات چیت کے دوران کیا ۔

ولایت ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ولی فقیہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ کے خصوصی نمائندہ اور معروف عالم دین آیت اللہ مہدی مہدوی پور نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ ایران نے اس بات کو لے کر اعتراض کیا ہے کہ ہندوستان کی عدالتوں میں ایران کے حجاب تنازعہ کی جو تصویر پیش کی جارہی ہے اور حجاب کی مخالفت کی مثال میں ایران کا نام لیا جا رہا ہے وہ سراسر غلط ہے۔ ایران اس معاملے کو ہندوستانی حکومت کے ساتھ سفارتی سطح پر اٹھائے گا۔ جہاں یہ بات کہی جارہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں حجاب کی مخالفت ہو رہی ہے وہ سراسر غلط ہے کیونکہ ایران کے اکثر لوگ حجاب پہنتے ہیں اور حجاب کی حمایت کرتے ہیں۔

آقای مہدوی پور نے کہا کہ حجاب کے حوالے سے بھارت میں جاری تنازعہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے، ہم اس میں مداخلت نہیں کریں گے، یہاں کے لوگوں کو اپنا فیصلہ خود لینا ہے، لیکن ایران کی مثال دے کر حجاب کی مخالفت کی بات کرنا غلط ہے۔ اسلامی ملک ایران کی شبیہ حجاب کی مخالفت میں پیش کرنے کے مسئلہ کو ہم ہندوستانی حکومت کے سامنے سفارتی سطح پر اٹھائیں گے۔ سفیر ہند ایران سے ہماری بات ہوئی ہے کہ اس مسئلے کو سفارتی سطح پر اٹھایا جائے گا۔

نمائندہ ولی فقیہ ہند نے کہا کہ ہم ہندوستان کے اندرونی معاملے میں مداخلت نہیں کریں گے لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر ملک کا اپنا کلچر اور سسٹم ہوتا ہے اور مختلف قسم کے قوانین ہوتے ہیں، اسلام میں حجاب ضروری ہے اور اس کی 1400 سال سے سنی یا شیعہ علماء کوئی بھی مخالفت نہیں کرتا ہے۔ ایران میں حجاب پہننا قانونی طور پر ضروری ہے لیکن حجاب نہ پہننے پر کوئی سزا یا جرمانہ نہیں کیا جاتا ہے بلکہ صرف کونسلنگ کی جاتی ہے، ایک بھی ایسا کیس نہیں جس میں حجاب نہ پہننے پر سزا دی گئی ہو لیکن بعض جگہوں پر بغیر حجاب کے داخلہ ممنوع ہے اسی طرح قومی ٹیم میں سلیکشن نہیں ہوسکتی ہے۔
رہبر معظم کے خصوصی نمائندہ کا کہنا تھا کہ مہسہ امینی کی موت دل کا دورہ پڑنے سے واقع ہوئی کیونکہ وہ پہلے سے مریض تھیں اور اس سے قبل ہارٹ کا آپریشن ہوچکا ہے۔ خود مہسہ کے والدین نے اعتراف کیا کہ اس پر کوئی تشدد نہیں ہوا ہے۔ اخلاقی پولیس(Moral Police) نے دیکھا اس خانم کا لباس نامناسب ہے لہذا اسے کونسلنگ سینٹرلے جایا گیا جہاں اس کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا، آٹھ سال کی عمر میں اس کا آپریشن ہواتھا اس کی موت صرف ایک حادثہ تھا ۔ عالمی استعمار کی جانب سے حمایت یافتہ میڈیا اور اداروں نے مذکورہ خبر کو بطور ابزار ایران کے اسلامی نظام کو بدنام کرنے کیلئے پیش کیا اور دنیا میں یہ غلط تاثر دیا جارہا ہے کہ ایران میں حجاب نہ کرنے پر پولس مارتی ہے جبکہ یہ حقیقت کے خلاف ہے۔ایران حجاب کیلئے کسی بھی خاتون کے ساتھ زوروزبردستی کا نہیں کرتا، ایران کی دارالحکومت تہران اور دوسرے کئی شہروں میں کچھ خواتین ایسی بھی نظر آتی ہیں جو مکمل طور پر حجاب نہیں کرتی لیکن انہیں کبھی بھی اس کی وجہ سے آزار نہیں دیا گیا اور نہ ہی پولس انہیں گرفتار کرتی ہے، دراصل ایران کا معاشرہ مکمل طور پر اسلامی ہے اور وہاں کی خواتین اپنی مرضی سے حجاب کرتی ہیں اور چادر پہنتی ہیں۔

ولایت ٹائمز نے نقل کیا کہ ملت ٹائمز کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ایران کے معروف عالم دین نے کہا کہ مہسا امینی کی موت ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوئی تھی، لوگوں میں غصہ تھا اس لئے اس کی موت کے خلاف پہلے دن کچھ مقامی لوگوں نے پرامن مظاہرہ کیا اور احتجاج درج کرایا۔ یہ احتجاج پرامن اور غصہ کا اظہار تھا، حجاب کی ذرہ برابر اس میں کوئی مخالفت نہیں تھی لیکن عالمی طاقتوں، امریکہ اور مغربی ممالک نے اس احتجاج کی آڑ میں اپنا ایجنڈا نافذ کردیا، اپنے ایجنٹوں اور شرپسند عناصر کو احتجاج میں شامل کردیا جس کے بعد اگلے دنوں میں احتجاج پر تشدد ہوگیا۔ شرپسند عناصر نے موت کے خلاف ہورہے احتجاج کو حجاب کے خلاف احتجاج میں تبدیل کردیا جو پہلے سے طے شدہ ایجنڈا تھا، اس کے بعد شدت پسند عناصر نے ایک حادثے کے دوران پولس کی گاڑیوں پر فائرنگ کی، پتھراؤ کیا جس کے نتیجے میں 7 سات پولس اہلکار شہید ہوگئے، مجبوری میں پولس کو فائرنگ کرنی پڑی جس میں صرف تین الگ جگہوں پر کئی ایرانی شہریوں کی موت ہوئی، میڈیا میں احتجاج کے دوران ہلاکت کی جو تعداد بتائی جارہی ہے وہ مکمل طور پر جھوٹ پر مبنی ہے اور حقیقت کے خلاف ہے۔ شرپسند عناصر نے درجنوں پولیس کے اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتارا اور کئی جگہوں پر عام افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ سرکاری وعام لوگوں کی پراپرٹی کو نقصان پہنچایا گیا۔ زاہدن میں احتجاج میں ملوث عناصر کے تعلقات اور وابستگی شرپسند دہشت گروپ سے تھے، کچھ عناصر پاکستان کی جانب سے حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیم جیش العدل سے تعلق رکھتے تھے جس کا ان لوگوں نے اعتراف بھی کیاہے،

دہشت گرد تنظیم جیش العدل نے ایک مردہ شخص کومظاہرہ میں لاکر رکھ دیا اور اس کے قتل کا الزام بھی ایرانی پولس پر عائد کیا جس کا اعتراف تحقیق کے دوران خود جیش العدل کے دہشت گردوں نے کیا۔پاکستان کا ایران کے ساتھ لگنے والے بارڈر ایریا ہمیشہ سے ہمارے ملک کیلئے امنیت کے لحاظ باعث مشکلاترہا ہے او ر وہاں کی حکومت نے مذکورہ حادثے کے بعد کوئی ٹھوس اقدام انجام نہیں دیا ۔

سپریم لیڈر کے ہندوستان میں خصوصی نمائندہ آیت اللہ مہدی مہدوی پور نے مزید کہاکہ ایک طرف چند خواتین کا احتجاج عالمی طاقتوں کے تعاون سے حجاب کے خلاف تھا جس کو بڑھا چڑھا پیش کیاگیا لیکن دوسری جانب لاکھوں خواتین نے حجاب کی حمایت میں سڑکوں پر نکل کر نظام اسلامی کے ساتھ وفاداری اور وابستگی کا اظہار کیا جس کی مغربی میڈیانے کوئی تشہیر نہیں کی۔ تعجب ہے فتنوں اور شدت پسندانہ حوادث کو بڑے پیمانے پر میڈیا نے جگہ دی جبکہ حجاب کی حمایت میں ہونے والے احتجاج کی کیلئے کوئی جگہ نہیں جس سے یہ سمجھ آتا ہے کہ یہ سب ایران کی شبیہ خراب کرنے کے ایک خاص ایجنڈے کا حصہ ہے۔ عالمی میڈیا کا یہ طرزعمل بتاتاہے کہ وہ ایران کے خلاف صرف منفی پیروپیگنڈہ کرنا جانتے ہیں اور اس کی دلچسپی ایران کو بدنام کرنے اور اسلامی نظام کے خلاف سازش رچنے میں ہے۔

حجتہ الاسلام مہدی مہدوی پور نے مزید کہاکہ فرانس میں ایک لادین حکومت ہے جہاں مذہب پر عمل کرنا ممنوع سمجھا جاتاہے، وہاں حجاب پر پابندی ہے، حجاب اختیار کرنے پر سزا دی جاتی ہے، خواتین کو معاوضہ دینا پڑتاہے، سینکڑوں خواتین کو محض حجاب استعمال کرنے کی وجہ سے ملازمت سے نکال دیاگیا لیکن اس ظلم وزیادتی کو کبھی بھی عالمی میڈیا نے نہیں بتایا، جس دن ایران میں مہسا امینی کے موت کا واقع پیش آیا اس کے اگلے روز ہی امریکی فوج نے عراق میں ایک معصوم کمسن کا بہیمانہ قتل کردیا لیکن کسی نے اس پر زبان نہیں کھولی ، کسی نے بھی امریکہ کی بربریت پر اعتراض نہیں کیا، ابھی ایک ماہ پہلے کی بات ہے افغانستان میں کئی ایک مدرسہ پر خود کش حملوں میں دو سو سے زیادہ معصوم طلباء و طالبات ہلاک ہوگئے، ان واقعات کی کسی نے مذمت نہیں کی، کسی نے اس پر سوال نہیں اٹھایا کہ عالمی میڈیا کیوں خاموش تماشائی ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں مسلمانوں کا قتل کیا جارہاہے، ان پر بربریت جاری ہے لیکن میڈیا کا ایک طبقہ خاموش بیٹھا ہے ۔دوسری طرف ایران میں ایک خاتون کی مرض میں مبتلا کی وجہ سے موت واقع ہوتی ہے اور یہ ہنگامہ آرائی۔۔ چہ معنی دارد۔۔جواب واضح ہے کہ مغربی ممالک ایران کے خلاف میڈیا وار کی شروعات کررہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں ہر شعبہ میں خواتین نے بے پناہ ترقی حاصل کی ہے۔ ایرانی خواتین کو اتنی ترقی پہلے کبھی نہیں ملی، ایران میں ہر شعبہ میں خواتین کی بھر پور نمائندگی ہے، اعلی عہدوں سے لیکر چھوٹے کام، ہر جگہ وہاں خواتین نظر آتی ہیں اور پردہ کے ساتھ خواتین کام کرتی ہیں۔ میڈیا، میڈیکل، ایجوکیشن، پولس، انتظامیہ، عدلیہ سمیت تمام شعبوں میں خواتین موجود ہیں بلکہ خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ فعال ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اسپورٹس میں بھی خواتین حصہ لیتی ہیں، خواتین اسپورٹس کی ٹیم بھی ہے، ان کیلئے علاحدہ اسٹیڈیم بنے ہوئے ہیں، ہر طرح کی سہولیات موجودہے، ایران میں خواتین کبڈی ٹیم بھی ہے جس نے عالمی مقابلہ میں کچھ دنوں قبل ہندوستان کی کبڈی ٹیم کو شکست سے دوچار کیاہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ایران میں مکمل طور پر جمہوریت ہے،سرکار کی پالیسی اور دیگر معاملوں میں حزب اختلاف اور اپوزیشن پارٹیوں کو اختلاف، تنقید اور احتجاج کا مکمل حق حاصل ہے، عوام کو کبھی بھی احتجاج، تنقید اور اعتراض سے نہیں روکاگیا ہے، مہسا امینی کے معاملہ میں بھی شروع میں جوا احتجاج ہواتھا وہ پرامن اور عالمی سازش سے پا ک تھا لیکن مغربی ممالک کے ایجنٹوں نے اس کا فائدہ اٹھاکر اگلے دن ہی ایران کے خلاف سازش شروع کردیا اور اس کو میڈیاوار میں تبدیل کردیا، مہساامینی ایک کرد خاتون تھیں اس لئے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فارس اور کرد قوم کے درمیان بھی لڑائی کرانے یک کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہیں ملی، حجاب کی حمایت میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے اور پھر یہ احتجاج ختم ہوگیا، اب ایران میں کوئی احتجاج نہیں ہورہاہے، ہر طرف سکون ہے۔ولادت باسعادت خاتم الانبیاء جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآل وسلم و امام جعفر صادق علیہ السلام کی مناسبت سے ایران میں بین الاقوامی وحدت کانفرنس کا اہتمام ہوا جس میں دنیا بھر کے ممالک سے 500 اسکالرس اور علماء نے شرکت کی اور مختلف مقامات کا دورہ کیا ۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ ہندوستان کی میڈیا میں بھی ایران کے تعلق سے زیادہ تر خبریں عالمی میڈیا کے منفی پیروپیگنڈہ کے زیر اثر دکھائی جاتی ہیں، ایران کی اصل تصویر اور حقیقت پر مبنی خبریں یہاں کی میڈیا نشر نہیں کرتی ہے جو ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔