عظیم مرثیہ نگار میر انیس کی شخصیت اور شاعری کا مطالعہ

یہ قدرت کا اصول رہا ہے کہ ہر زمانے میں کسی بھی صاحب فضل و کرامات نے خود اپنا تعارف نہیں کروایا بلکہ ایسی ہستی ہمیشہ موجود رہی جو اس صاحب کرامت کا تعارف کرواتی رہتی تھی اگر ہم یہ سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت علی علیہ الصلوۃ والسلام سے شروع کریں تو بات سمجھ میں آ جائے گی، رسول اللّہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے ہر پل وہر لمحہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی شخصیت کا تعارف کروایا اور تعارف کا یہ سلسلہ غدیر خم پر منتہی ہوا۔ا سی سنت اور طریق کے تحت موجودہ تحریر میں یہ کوشش کی گئی کہ میر انیسٓ کی شخصیت کو ہند و پاک کے عظیم شعرائےکی دید اور نظر سے دیکھا جائے تاکہ نہ فقط اس مرد نفیس کی شاعری بلکہ شخصیت کو بھی پہچانیں۔

تحریر:سید حسن علی کاظمی

ای میل:hassankazmi2393@gmail.com

کسی نے تری طرح سے اے انیسٓ

عروسِ سخن کو سنوارا نہیں

یہ قدرت کا اصول رہا ہے کہ ہر زمانے میں کسی بھی صاحب فضل و کرامات نے خود اپنا تعارف نہیں کروایا بلکہ ایسی ہستی ہمیشہ موجود رہی جو اس صاحب کرامت کا تعارف کرواتی رہتی تھی اگر ہم یہ سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت علی علیہ الصلوۃ والسلام سے شروع کریں تو بات سمجھ میں آ جائے گی، رسول اللّہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے ہر پل وہر لمحہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی شخصیت کا تعارف کروایا اور تعارف کا یہ سلسلہ غدیر خم پر منتہی ہوا۔ا سی سنت اور طریق کے تحت موجودہ تحریر میں یہ کوشش کی گئی کہ میر انیسٓ کی شخصیت کو ہند و پاک کے عظیم شعرائےکی دید اور نظر سے دیکھا جائے تاکہ نہ فقط اس مرد نفیس کی شاعری بلکہ شخصیت کو بھی پہچانیں۔

میر ببر علی انیسٓ ان شاعروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اردو کی رثائی شاعری کو اپنی خلاقی سے معراج کمال تک پہنچا دیا۔ صنف مرثیہ میں انیس کا وہی مقام ہے جو مثنوی کی صنف میں ان کے دادا میر حسن کا ہے۔ انیسٓ نے اس عام خیال کو باطل ثابت کر دیا اردو میں اعلی درجہ کی شاعری صرف غزل میں کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے رثائی شاعری کو جس مرتبہ تک پہنچایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انیسٓ آج بھی اردو میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعروں میں سے ایک ہیں۔

میر ببر علی انیسٓ 1803ء میں فیض آباد میں پیدا ہوئے، ان کے والد میر مستحسن خلیق خود بھی مرثیہ کے ایک بڑے اور نامور شاعر تھے۔ انیسٓ کے پر دادا ضاحک اور دادا میرحسن(مصنف مثنوی سحر البیان)تھے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس خاندان کے شاعروں نے غزل سے ہٹ کر اپنی الگ راہ نکالی اور جس صنف کو ہاتھ لگایا اسے کمال تک پہنچا دیا۔ میر حسن مثنوی میں تو انیس مرثیہ میں اردو کے سب سے بڑے شاعر قرار دیئے جا سکتے ہیں۔

شاعروں کے گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے انیسٓ کی طبیعت بچپن سے ہی موزوں تھی اور چار پانچ برس کی ہی عمر میں کھیل کھیل میں ان کی زبان سے موزوں شعر نکل جاتے تھے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم فیض آباد میں ہی حاصل کی۔ مروجہ تعلیم کے علاوہ انہوں نے سپہ گری میں بھی مہارت حاصل کی۔ ان کا شمار علماء کی صف میں نہیں ہوتا ہے تاہم ان کی علمی معلومات کا سب کو اعتراف ہے۔ ایک بار انہوں نے سر منبر علم ہیئت کی روشنی میں سورج کے گرد زمین کی گردش کو ثابت کر دیا تھا۔ ان کو عربی اور فارسی کے علاوہ بھاشا(ہندی) سے بھی بہت دلچسپی تھی اور تلسی و ملک محمد جائسی کے کلام سے بخوبی واقف تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لڑکپن میں خود کو ہندو ظاہر کرتے ہوئے ایک برہمن عالم سے ہندوستان کے مذہبی صحیفے سمجھنے جایا کرتے تھے۔ اسی طرح جب پاس پڑوس میں کسی کی موت ہو جاتی تھی تو وہ اس گھر کی خواتین کی نالہ و زاری اور اظہار غم کا گہرائی سے مطالعہ کرنے جایا کرتے تھے۔ یہ مشاہدات آگے چل کر ان کی مرثیہ نگاری میں بہت کام آئے۔

انیسٓ نے بہت کم عمری میں ہی باقاعدہ شاعری شروع کر دی تھی۔ جب ان کی عمر نو برس تھی انہوں نے ایک سلام کہا۔ ڈرتے ڈرتے باپ کو دکھایا۔ باپ خوش تو بہت ہوئے لیکن کہا کہ تمہاری عمر ابھی تحصیل علم کی ہے۔ ادھر توجہ نہ کرو۔ فیض آباد میں جو مشاعرے ہوتے، ان سب کی طرح پر وہ غزل لکھتے لیکن پڑھتے نہیں تھے۔ تیرہ چودہ برس کی عمر میں والد نے اس وقت کے استاد شیخ امام بخش ناسخ کی شاگردی میں دے دیا۔ ناسخ نے جب ان کے شعر دیکھے تو دنگ رہ گئے کہ اس کم عمری میں لڑکا اتنے استادانہ شعر کہتا ہے۔ انہوں نے انیسٓ کے کلام پر کسی طرح کی اصلاح کو غیر ضروری سمجھا، البتہ ان کا تخلص جو پہلے *حزیںٓ* تھا بدل کر *انیسٓ* کر دیا۔ انیسٓ نے جو غزلیں ناسخ کو دکھائی تھیں ان میں ایک شعر یہ تھا۔

سبب ہم پر کھلا اس شوخ کے آنسو نکلنے کا

دھواں لگتا ہے آنکھوں میں کسی کے دل کے جلنے کا

تیرہ چودہ برس کی عمر میں انیسٓ نے اپنے والد کی غیر موجودگی میں گھر کی زنانہ مجلس کے لئے ایک مسدس لکھا۔ اس کے بعد وہ رثائی شاعری میں تیزی سے قدم بڑھانے لگے اس میں ان کی محنت اور ریاضت کا بڑا ہاتھ تھا۔ کبھی کبھی وہ خود کو کوٹھری میں بند کر لیتے، کھانا پینا تک موقوف کر دیتے اور تبھی باہر نکلتے جب حسب منشاء مرثیہ مکمل ہو جاتا۔ خود کہا کرتے تھے، “مرثیہ کہنے میں کلیجہ خون ہو کر بہہ جاتا ہے۔” جب میر خلیق کو، جو اس وقت تک لکھنؤ کے بڑے اور اہم مرثیہ نگاروں میں تھے، پورا اطمینان ہو گیا کہ انیسٓ ان کی جگہ لینے کے قابل ہو گئے ہیں تو انہوں نے بیٹے کو لکھنؤ کے باذوق اور نکتہ رس سامعین کے سامنے پیش کیا اور میر انیسٓ کی شہرت پھیلنی شروع ہو گئی۔ انیسٓ نے مرثیہ گوئی کے ساتھ مرثیہ خوانی میں بھی کمال حاصل کیا تھا۔ محمد حسین آزاد کہتے ہیں کہ انیسٓ قد آدم آئینہ کے سامنے، تنہائی میں گھنٹوں مرثیہ خوانی کی مشق کرتے۔ وضع، حرکات و سکنات اور بات بات کو دیکھتے اور اس موزونی اور نا موزونی کی خود اصلاح کرتے۔ کہا جاتا کہ سر پر صحیح طریقہ سے ٹوپی رکھنے میں ہی کبھی کبھی ایک گھنٹہ لگا دیتے تھے۔

اودھ کے آخری نوابوں غازی الدین حیدر، امجد علی شاہ اور واجد علی شاہ کے زمانہ میں انیس نے مرثیہ گوئی میں بے پناہ شہرت حاصل کر لی تھی۔ ان سے پہلے دبیر بھی مرثیے کہتے تھے لیکن وہ مرثیہ خوانی کو کسی فن کی طرح برتنے کی بجائے سیدھا سادہ پڑھنے کو ترجیح دیتے تھے اور ان کی شہرت ان کے کلام کی وجہ سے تھی جبکہ انیسٓ نے مرثیہ خوانی میں کمال پیدا کر لیا تھا۔ آگے چل کر مرثیہ کے ان دونوں استادوں کے الگ الگ مداح پیدا ہو گئے۔ ایک گروہ انیسیا اور دوسرا دبیریا کہلاتا تھا۔ دونوں گروپ اپنے اپنے ممدوح کو برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے اور دوسرے کا مذاق اڑاتے۔ انیسٓ اور دبیرٓ ایک ساتھ کسی مجلس میں مرثیہ نہیں پڑھتے تھے۔ صرف ایک بار شاہی گھرانے کے اصرار پر دونوں ایک مجلس میں یکجا ہوئے اور اس میں بھی انیسٓ نے یہ کہہ کر کہ وہ اپنا مرثیہ لانا بھول گئے ہیں، اپنے مرثیے کی بجائے اپنے بھائی مونسٓ کا لکھا ہوا حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ایک سلام صرف ایک مطلع کے اضافہ کے ساتھ پڑھ دیا اور منبر سے اتر آئے۔ مونس کے سلام میں انہوں نے جس فی البدیہ مطلع کا اضافہ کر دیا تھا وہ تھا۔

غیر کی مدح کروں شہ کا ثنا خواں ہو کر

مجرئی اپنی ہوا کھووں سلیماں ہو کر

یہ در اصل دبیر پر چوٹ تھی جنہوں نے حسب روایت مرثیہ سے قبل بادشاہ کی شان میں ایک رباعی پڑھی تھی۔ اس کے باجود عمومی طور پر انیسٓ اور دبیرٓ کے تعلقات خوشگوار تھےاور دونوں ایک دوسرے کے کمال کی قدر کرتے تھے۔ دبیر بہت منکسر المزاج اور صلح کل انسان تھے جبکہ انیسٓ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ان کی پیچیدہ شخصیت اور نازک مزاجی کے واقعات اور ان کی مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی نے انہیں ایک افسانوی شہرت دے دی تھی اور ان کا شمار لکھنؤ کے ممتاز ترین شہریوں میں ہوتا تھا۔ اس زمانہ میں انیسٓ کی شہرت کا یہ حال تھا کہ صاحب اقتدار امیر، نامور شہزادے اور عالی خاندان نواب زادے ان کے گھر پر جمع ہوتے اور نذرانے پیش کرتے۔ اس طرح ان کی آمدنی گھر بیٹھے ہزاروں تک پہنچ جاتی لیکن اس فراغت کا زمانہ مختصر رہا 1856ء میں انگریزوں نے اودھ پر قبضہ کر لیا۔ لکھنؤ کی خوشحالی رخصت ہو گئی۔ گھر بیٹھے رزق پہنچنے کا سلسلہ بند ہو گیااور انیسٓ دوسرے شہرں میں مرثیہ خوانی کے لئے جانے پر مجبور ہو گئے۔ انہوں نے عظیم آباد(پٹنہ)، بنارس، الہ آباد اور حیدرآباد میں مجلسیں پڑھیں جس کا اثر یہ ہوا، دور دور کے لوگ ان کے کلام اور کمال سے واقف ہو کر اس کے مداح بن گئے۔

انیسٓ کی طبیعت آزادی پسند تھی اور اپنے اوپر کسی طرح کی بندش ان کو گوارہ نہیں تھی ایک بار نواب امجد علی شاہ کو خیال پیدا ہوا کہ شاہنامہ کی طرز پر اپنے خاندان کی ایک تاریخ نظم کرائی جائے۔ اس کے لئے نظر انتخاب انیس پر پڑی۔ انیسٓ نے پہلے تو اخلاقاً منظور کر لیا لیکن جب دیکھا کہ ان کو شب و روز سرکاری عمارت میں رہنا ہو گا تو کسی حیلہ سے انکار کر دیا۔ بادشاہ سے وابستگی، اس کی کل وقتی ملازمت، شاہی مکان میں مستقل سکونت دنیوی ترقی کی ضمانتیں تھیں۔ بادشاہ اپنے خاص ملازمین کو خطابات دیتے تھے اور دولت سے نوازتے تھے۔ لیکن انیسٓ نے شاہی ملازمت قبول نہیں کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن انگریزوں نے اودھ پر قبضہ کر کے ان کا رزق چھینا تھا وہی ان کو پندرہ روپے ماہوار وظیفہ اس لئے دیتے تھے ک کہ وہ میر حسن کے پوتے تھے جن کی مثنوی فورٹ ولیم کالج کے نصاب اور اس کی مطبوعات میں شامل تھی۔

جس طرح انیسٓ کا کلام سحر آمیز ہے اسی طرح ان کا پڑھنا بھی مسحور کن تھا۔ منبر پر پہنچتےہی ان کی شخصیت بدل جاتی تھی۔ آواز کا اتار چڑھاؤ آنکھوں کی گردش اور ہاتھوں کی جنبش سے وہ اہل مجلس پر جادو کر دیتے تھے اور لوگوں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا تھا۔ مرثیہ خوانی میں ان سے بڑھ کر ماہر کوئی نہیں پیدا ہوا۔

خیال خاطر احباب چاہئے ہر دم

انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ

چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

انیس ایک نابغہ ٔ روزگار شخصیت تھے۔ اگر وہ مرثیہ کی بجائے غزل کو اظہار کا ذریعہ بناتے تب بھی ان کا شمار بڑے شاعروں میں ہوتا۔ غزل پر توجہ نہ دینے کے باوجود ان کے کئی شعر خاص و عام کی زباں پر ہیں۔

انیس کا کلام اپنی فصاحت، منظر نگاری اور زبان کے ساتھ ان کے خلاقانہ برتاؤ کے لئے ممتاز ہے۔ وہ ایک پھول کے مضمون کو سو طرح پر باندھنے پر قادر تھے۔ ان کی شاعری اپنے عہد کی نفیس زبان اور تہذیب کی آئینہ دار ہے۔ انہوں نے مرثیہ کی تنگنائے میں گہرائی سے غوطہ لگا کر ایسے بیش بہا گوہر نکالے جن کی اردو مرثیہ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

1874ء میر ببر علی انیس کی زندگی کا آخری سال تھا ،جس کے آخری مہینے میں ان کی وفات ہوگئی۔ آخری عمر میں انہوں نے مرثیہ خوانی بہت کم کر دی تھی۔

میر انیسٓ کی زندگی کے آخری ماہ کا ایک واقعہ جسے نقل کرنے کا مقصد میر انیسٓ کے آخری اوقات میں بھی دبدبہ کی جھلک کا ہونا ظاہر ہے۔

(29 شوال 1291ھ) مرض الموت میں وہ اپنے منجھلے بھائی میر مہر علی اُنسٓ سے آزردہ تھے ۔ اسی زمانے میں میر انسٓ نے انیسٓ کے ایک عقیدت مند حکیم سید علی کو خط میں لکھا “میر ببر علی صاحب کی طبیعت بہت علیل ہے رجب کے مہینے سے ماندے ہیں، میں نے جانے کا قصد کیا تھا لیکن فرمایا کہ اگر وہ آئیں گے تو میں چھریاں اپنے مار لوں گا اور میرے جنازے پر بھی آئیں گے تو جب تک وہ نہ جالیں گے تو اگر تین دن گزر جائیں تو میرا جنازہ نہ اٹھانا اور اس طرح بہت کلمات کہلا بھیجے ہیں میں ابھی تک نہیں گیا مگر میرا دل نہیں مانتا.”

(مکتوب میر مہر علی بہ نام حکیم سید علی
رمضان 1291ھ ذخیرۂ ادیب)

کچھ دن بعد انہیں حکیم سید علی کو میر اُنسٓ نے لکھا:

“تمام ماہ رمضان میں دن بھر تو میں اپنے حال میں بہ سبب صوم گرفتار رہتا تھا اور بعد افطار کے بھائی صاحب کی علالت کی خبر سن سن کر رویا کرتا تھا اور دعائیں پڑھ پڑھ کر نصف شب کو ان کی صحت کی دعائیں کیا کرتا تھا اور بے تاب ہو کر میں میر نواب سے کہتا تھا کہ” بھائی! اب میں گُھٹ گُھٹ کے ان سے پہلے مر جاؤں گا۔” تو وہ کہتے تھے کہ” خدا کے واسطے آپ نہ جائیے !کس واسطے کے وہ اپنے لڑکوں سے وصیت کر چکے ہیں کہ میر مہر علی کو میرے جنازے پر نہ آنے دینا۔”

(مکتوب اُنس بہ نام حکیم سید علی ، شوال 1291ھ ذخیرۂ ادیب)

یہ سن کر میں چپ ہو رہتا تھا۔ عید کے دن میر نواب میرے پاس آئے تو میں مثل بیماروں کے منھ لپیٹے پڑا تھا۔ جب وہ آئے تو میں اٹھا اور بھائی کا حال میں نے پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ “میں وہیں سے آتا ہوں، آج نہایت غشی ہے کہ انکھ نہیں کھولتے اور پاؤں پر نہایت ورم آگیا ہے۔” بس یہ سنتے ہی میں قریب تھا کہ غش کھا کر گر پڑوں اور اس طرح میرا خون اونٹا کہ میں چیخیں مار مار کر رونے لگا۔ ساری گھر کی عورتیں بھی رونے لگیں۔ جب بعد دیر کے میرا دل تھما تو میں نے میر نواب سے کہا کہ “بھائی! اب مجھ کو تاب نہیں ہے۔آج شام کے قریب میں ضرور جاؤں گا۔” الغرض چار پانچ گھڑی دن رہے، میں عالم بے تابی میں اپنے گھر سے چلا تو بہ خدائے لم یزل راہ میں میرے آنسو بہے چلے جاتے تھے۔ جب پہنچا تو میں دیوان خانے میں دم بھر بیٹھا اور میر خورشید علی کو اور عسکری کو اُن کے گھروں سے بلوا بھیجا۔ جب وہ آئے تو سہمے ہوئے تھے۔ میر خورشید علی کا رنگ بھی فق ہو گیا اور عسکری کا بھی۔ میں نے پہلے کیفیت مزاج کی پوچھی تو کہا کہ “آج غشی بہت ہے.” میں نے کہا کہ “کوئی پوچھنے والا تو نہیں ہے؟” کہا کہ “فقط خالہ آپ سے چھپتی ہیں.” میں نے کہا کہ “تم بڑھو اور ان سے فقط کہہ دو کہ ہٹ جائیں ، اور کچھ اطلاع بھائی سے نہ کرنا۔” وہ اندر گئے اور میں بھی اندر گیا تو تینوں لڑکے دوسرے دالان میں مارے خوف کے چھپ گئے اور بہنیں میری بھی ہٹ گئیں۔

الگ الگ سب تھر تھر کانپتے تھے کہ دیکھئے کیا ہوتا ہے غرض جہاں بھائی کا پلنگ تھا وہاں میں گیا تو دیکھا میں نے آنکھیں بند کیے ہیں۔ میں نے سرہانے بیٹھ کے گال پر گال رکھ کر رو رو کے کہا کہ “میں اس نقاہت کے تصدق ہو گیا ہوتا اور میری آنکھیں اندھی ہو گئی ہوتیں کہ یہ حال نہ دیکھتا۔ برائے خدا آنکھیں کھولیے کہ میں مہینا بھر سے تڑپتا ہوں” یہ جو میں نے چِلّا چِلّا کے کہا اور عالمِ بے تابی میں منھ سے منھ ملا تو گوغشی میں تھے مگر میری آواز پہنچانی اور ایسا روئے کہ آنسو تکیے پر ٹپکنے لگے اور میں نے رو رو کر عالم بے تابی میں کہا کہ “خداوندا , واسطہ اپنی خدائی کا، مجھ سے ان کی نقاہت کی صورت نہیں دیکھی جاتی ، ان سے پہلے مجھ کو اٹھا لے۔ ” تو پھوٹ پھوٹ کر خود بھی رونے لگے اور آہستہ فرمایا کہ “ارے بھائی! کیوں اپنے تئیں مارے ڈالتے ہوئے میں تو اب اچھا ہوں، اور میرے سر کی قسم، سکوت کرو نہیں تو میرا دم اکھڑ جائے گا۔” اس مابین میں تینوں لڑکے اور لڑکیاں اور بہنیں سب کا ہجوم ہوا، بس، پھر میں چپ ہوا تو آہستہ آہستہ ساری حقیقت مجھ سے کہی۔ پاؤں کا ورم دکھلایا۔ دس بجے شب تک میں بیٹھا رہا اور باتیں رہیں پھر مجھ سے کہا کہ “رات بہت آتی ہے گھر دور ہے اب تم جاؤ۔”

اس بیان سے انیسٓ کی نازک مزاجی کے ساتھ ساتھ اُن کی شخصیت کے اُس رُعب اور دبدبے کا بھی اظہار ہوتا ہے جو مرض الموت کی بے بسی میں بھی برقرار تھا۔ یہ انیس کی شخصیت کے نمایاں عناصر تھے جنہوں نے ان کے دوسرے اوصاف، خصوصاً شاعرانہ کمالات کے ساتھ مل کر ان کو ایک بادشاہ کی سی حیثیت دے دی تھی۔

انیسٓ کی اس شخصیت کی تعمیر فیض آباد سے شروع ہوتی ہے جہاں 1803ء( 1218 ھ)میں ان کی ولادت ہوئی اور اس عہد ساز مرثیہ خواں اور خدائے سخن نے 1874ء (1291ھ ) میں لکھنؤ میں اپنی روح پرودگار عالم کے سونپی ۔

میر انیسٓ شعراء کرام و علماء کی نظر میں

انیسٓ ناسخٓ کی میں نظر

ناسخ نے پیشینگوئی کی تھی کہ انیسٓ ایک دن عظیم شاعر ہوں گے اور ایسا ہی ہوا۔ ناسخٓ اپنے شاگردوں کو (جن میں خواجہ وزیرٓ، صبآ، میر اوسط علی رشکٓ، محمد رضآ برق، شیخ امداد علیٓ،بحرٓ،منیرٓ شکوہ آبادی وغیرہ مشہور ہیں ) ان الفاظ میں ہمیشہ نصیحت کی کہ :-
“اگر تمہیں صحیح معنی میں اُردو زبان سیکھنا ہے تو میرانیسٓ اور اُن کے خاندان کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔”

(واقعات انیسٓ، میر مہدی حسن لکھنؤی 1974ء)

میرانیسٓ آتش کی نظر میں

خواجہ حیدر علی آتش کو اخلاقی شاعری کا بادشاہ کہا گیا ہے۔ وہ ایسی سچائیوں کا آئینہ بھی بنتے ہیں کہ سننے والوں نے انہیں خرزجاں بنایا ہے۔ آتش جب بھی کسی شخصیت پر تبصرہ کر تے ہیں تو محض سر سری طور پر نہیں بلکہ حقیقت بیانی سے کرتے ہیں۔
ایک دن میر انیسٓ مرثیہ پڑھ رہے تھے۔ خواجہ حیدر علی آتشٓ بھی اسی مجلس میں موجود تھے ۔ میر انیسٓ نے تلوار کی تعریف میں یہ بند پڑھا :-

قد کتنا خوش نما ہے،بدن کس قدر ہے گول

جوہر شناس ہے تو اسے موتیوں میں تول

مفتاحِ فتح ہے درِنصرت کو اس سے کھول

وہ تیغ ہے خراجِ صفا ہاں ہے جس کا مول

اور جب یہ بیت پڑھی:

اشراف کا بناؤ ،رئیسوں کی شان ہے شاہوں کی آبرو ہے،سپاہی کی جان ہے

تو آتشٓ پہلے سے ہی جھوم رہے تھے اور عالمِ وجد طاری تھا نصف قد سے کھڑے ہوگئے اور با آوازِ بلند کہا :

”کون بیوقوف کہتا ہے کہ تم محض مرثیہ گو ہو۔ واللہ باللہ تم شاعر گر ہو۔ اور شاعری کا مقدس تاج تمہارے سر کے لئے موزوں بنایا گیا ہے۔خدا مبارک کرے۔” بھئی اس میدان میں کوئی تمہارا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ انیس کے مرثیہ پر سیکڑوں غزلوں کے دیوان صدقے کئے جا سکتے ہیں۔“

(اساتذہ کے تاثرات ۔ ظفر جعفری )

انیسٓ میرزا اسد اللّٰہ خاں غالبٓ کی نظر میں

” ہندوستان میں انیسٓ و دبیرٓ جیسا مرثیہ گو نہ ہوا ہے نہ آئندہ ہوگا۔ “

( یادگار غالبٓ ،میرزا اسد اللّٰہ خاں غالبٓ)

میر انیسٓ کے انتقال پر مرزا دبیرٓ نے کچھ ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا :

آسماں بے ماہِِ کامل ، سدره بے روح الامین طورِ سینا بے کلیم الله، و منبر بے انیسٓ

چکبستٓ

زبان اور شاعری کی آئندہ اصلاح و ترقی کے لیے میر انیسٓ کے انداز سخن اور رنگ بیان کا صحیح اندازہ کرنا ہمارے لیے نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ جس غیر صحیح مذاقِ سخن کی بنیاد پر ہم قدیم رنگِ سخن کی قدر نہ کر سکے اس کی مدد سے ہم زبان و شاعری میں نئے جوہر نہیں پیدا کر سکتے۔
مضامین چکبست صفحه 268، پنڈت برج نارائن لکھنؤی 1923ء)

سر عبد القادر

انیسٓ کی شاعری میں علاوہ صداقت واثر کے شاعری کے دیگر لوازمات تمام و کمال پائے جاتے ہیں ، تشبیہ و استعارے کے وہ بادشاہ ہیں اور کبھی تشبیہ کےمعاملے میں اپنے طبقے کے دیگر شعرا کی تقلید میں صحت مذاق کا خون نہیں کرتے بلکہ غیر معمولی نازک خیالی وحُسن بیان کا ثبوت دیتے ہیں ۔
( مخزن لاہور ، اگست 1901ء, شیخ عبد القادر )

مولانا شبلی نعمانی:

میرانیسٓ نے سینکڑوں ہزاروں مرثیے لکھے ہیں اور ہر مرثیہ بجائے خود ایک قصہ یا حکایت ہے لیکن کوئ واقعہ ایسا نہیں لکھا جو اقتضائے حال کے خلاف ہو۔،،

( موازنۂ انیسٓ و دبیرٓ، مولانا شبلی نعمانی, 1914ء)

مولوی ذکاءاللہ دہلوی:

میور کالج لاہور الہ آباد میں پروفیسر تھے ۔ میر انیسٓ کی ایک مجلس کا حال بیان کرتے ہیں جو الہ آباد میں منعقد ہوئی تھی۔

خاص و عام ہزاروں آدمی جمع تھے۔کمال اور کلام کی کیا کیفیت بیان کروں۔محویت کا عالم تھا وہ شخص منبر پر بیٹھا پڑھ رہا تھا اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ جادو کررہا ہے یہ بیت پڑھتے تھے اور مزے لیتے تھے،،

عمر گزری ہے اِسی دشت کی سیّاحی میں

پانچویں پشت ہے شبیرٔ کی مداحی میں

(مراۃ الشعر ، 446, اور حیات انیسٓ)

مولانا الطاف حسین حالی
میرانیسٓ کو اردو شعرا میں سب سے برتر ماننا پڑے گا۔،،

(مقدمہ شعر وشاعری، مولانا الطاف حسین حالی ، 1914ء

نظم طباطبائی

میرانیسٓ نے الفاظ میں نفسیات انسانی کو سمودیا ہے۔جن سے ان کے گہرے اور عمیق نفسیاتی تجزیہ کا ترشح ہوتا ہے،،

( مراثی انیسٓ مرتبہ نظم طباطبائی)

انیسٓ جوشٓ ملیح آباد کی نظر میں

“اے انیسٓ تیری شاعری کی مہکتی اور گھنی چھاؤں میں اس قدر معنی و بیان کے شہر آباد ہیں کہ جب انہیں گنا جاتا ہے تو اعداد کے ساتھ سانسیں رُک جاتی ہیں، تیرے پروازِ تخیٔل کے رَو میں سلیمان کا تخت ہوا کے دوش پر چکرانے لگتا ہے، تیری زبان کی روانی کے سامنے دجلہ و نیل کی موجوں میں زنجیر پڑ جاتی ہے، تیرے قلم کے سامنے تلوار تھر تھرانے لگتی ہے اور تیرے سلمائے سخن کے مکھڑے کی چھوٹ کو دیکھ کر تڑپتی ہوئی بجلیوں کی نبضیں ڈوب جاتی ہیں”۔

جوشٓ ملیح آبادی کا یہ شعر اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جوش کی نظر میں انیسٓ کا کیا مقام تھا ۔

تیری ہر موجِ نفَس روح الامیں کی جان ہے

تُو مِری اردو زباں کا بولتا قرآن ہے

(اقلیمِ انیسٓ)

مولانا محمد حسین آزاد

انیسٓ نے ثابت کردیا کہ حقیقی اور تخلیقی شاعر ہم ہیں کہ ہر رنگ کے مضمون،ہر قسم کے خیال،ہر ایک حال اپنے الفاظ کے جوڑ بند سے ایک ایسا طلسم باندھدیتے ہیں،چاہیں رلادیں، چاہے ہنسادیں چاہے حسرت کی مورت بنادیں۔

( آب حیات , مولانا محمد حسین آزاد 1910ء)

رتن ناتھ سرشار

انیسٓ مغفور کو خدا بخشے بااللّہ العظیم کلام کیا ۔ جواہرات کے ٹکڑے ، قندونبات کے ریزے ریزے ، نور کے مرثیے ہیں ۔

” جوہر شناس ہے تو انھیں موتیوں سے

تول”

فصحائے خطۂ پاکِ ایران تک کہتے ہیں کہ کجا فردوسیٓ ، کجا کمر بندِ مرصع کجا مثال طوسیٓ”

بزم میں وہ ڈھنگ رزم میں وہ رنگ کہ:-

مضمونِ انیسٓ کا نہ چربا اُترا

اُترا بھی تو کچھ بگڑ کے نقشا اُترا

نقّاش نے سو طرح کی خِفّت کھینچی

تصویر نہ کھینچ سکی تو چہرا اُترا

(فسانۂ آزاد رتن ناتھ سرشار 1895ء)

مولانا مرتضیٰ حسین فاضل

انیسٓ کا مطالعہ زبان میں لوچ ، شُستگی حُسن ، جن دیانت کا سبب ہے اس سے مشاہدے کی قوت میں وسعت و گہرائی حاصل ہوتی ہے نفسیات کے نکتے اُجاگر ہوتے ہیں۔ احساسات میں توازن و جوش آتا ہے۔ اسلامی تاریخ سے ربط اور مجاہدہ کربلا کے لیے بصیرت ، عکاسی، تصویرکشی کے ماہرانہ خطوط ، ثقافت اور تاریخ کے واضح مجسّمے تخیٔل و شاعری کے مثالی ارتقا کو سمجھنے کے لیے مراثی انیسٓ کا مطالعہ ناگزیر ہے ۔

( مرثیہ ، زندگی اور پیام )

عزیزٓ لکھنوی

“آج انیسٓ کے کلام کی جتنی قدر ومنزلت تعلیم یافتہ اصحاب کے دلوں میں ہے۔ اتنی شاید ہی کسی شاعر کے کلام کی ہو۔ میرے خیال میں جو حضرات اردو شاعری کو اصول فطرت کے خلاف سمجھتے ہیں وہ صرف کلام انیسٓ کے مطالعہ سے سیراب ہو سکتے ہیں۔ مناظر قدرت کی مصوری میں انیسٓ کی دستگاہ دیکھئے۔ انیسٓ نے احساسات کی ترجمانی اور جذبات انسانی کی مصوری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ غرض یکہ مناظر قدرت اور رزم و بزم کی لاکھوں تصویریں انیسٓ کے معجزنما قلم نے ایسی کھینچی ہیں جن کے آگے مصوروں کے موقلم شکستہ ہیں۔”

(نیرنگِ خیال لاہور ، جولائی 1924ء )

امجد علی اشہری

تمام شہر عظیم آباد کے ہر فرقہ و مذہب کے لوگ کثرت سے شریک مجلس تھے۔ ہزاروں آدمیوں کا مجمع تھا اور جب میرٓ صاحب کو خبر ہوئی کہ مجلس تیار ہے تو خراماں فراماں تشریف لائے اور منبر پر جاکر سر اٹھایا اور پیشتر سے زیادہ بھری ہوئی مجلس کو دیکھ کر کہا کہ مجھ کو اس کا اندازہ کرنا مقصود تھا کہ انیسٓ کے دیکھنے والے کتنے ہیں۔ بحمد اللہ کہ آپ صاحبوں نے میری قدردانی کا ثبوت دیا۔ یہ کہہ کر مجلس کو اپنا گرویدہ بنالیا اور دو چار رباعیاں اور ایک سلام پڑھ کر مرثیہ شروع کیا ۔

جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے جلوہ کیا سحر کے رخ بے حجاب نے

دیکھا سوئے فلک شہ گردوں رکاب نے

مڑ کر صدا رفیقوں کو دی اس جناب نے

آخر ہے رات حمد و ثنائے خدا کرو

آخر ہے رات حمد و ثنائے خدا کرو

اس مرثیہ کے مسجع بندوں نے سخن شناس طبائع پر جو اثر کیا اس کا بیان نہیں ہو سکتا ۔ رزمیہ بندوں کے ہر شعر پر واہ واہ سبحان اللّہ کی پر جوش آوازوں سے تمام مکان گونج رہا تھا اور رنج والم کے جانگاہ بندوں پر دلوں میں بجلیاں تڑپ رہی تھیں ۔ میر صاحب نے کئی مرتبہ چاہا کہ اب مرثیہ ختم کریں لیکن ساری مجلس کے اصرار پر اور ان بے قرار دلوں اور ان کی خواہشوں کے جب تک پورا مرثیہ ایک ایک بند کر کے سن نہ لیا ان کا منبر سے اتر نا قبول نہ کیا بلکہ اکثر اصحاب مقطع کا بند سن کر مایوس ہوگئے کہ ابھی کیوں مرثیہ ختم ہو گیا اور کیوں میرٓ صاحب کی معجزبیانیوں کے لطفِ مزید کا موقع نہ رہا۔”

( حیات انیسٓ، حضرت مولانا سید امجد علی اشہری)

غیار و یاور

انیسٓ فصاحت بلاغت، روزمرہ، محاورہ، صنائع و بدائع، حسن تعلیل اور تلمیحات کے بادشاہ تسلیم کیے جاتے ہیں۔ مرثیہ کی طرح ان کی رباعیات میں بھی یہ اوصاف بدرجۂ اتم موجود ہیں۔

( طلوع افکار)

شاد عظیم آبادی

میر انیسٓ نے جو احاطہ کھینچا ہے اور دنیا بھر کے اعلیٰ مضامین کا درس اس طریقے سے بہادیا ہے کہ تازہ مضمون کا پیدا کرنا محال ہوگیا ہے،،

( فکرِ بلیغ)

مری قدر کر اے زمین سخن تجھے بات میں آسماں کردیا

سبک ہو رہی تھی ترازوئے شعر مگر پلّہ ہم نے گراں کردیا