بار خدایا! اس چھوٹی قربانی اور اپنی راہ کے مقتول کو ہم آل رسول(ص) سے قبول فرما۔ ایک محقق کا کہنا ہے کہ: زینب(س) کے القاب میں سے ایک “الراضية بالقدر والقضاء” ہے اور اس مخدَّرہ” نے شدائد اور دشواریوں کے سامنے اس طرح سے استقامت کرکے دکھائی کہ اگر ان کا تھوڑا سا حصہ مستحکم پہاڑوں پر وارد ہوتا تو وہ تہس نہس ہوجاتے، لیکن یہ مظلومہ بےکسی، تنہائی اور غریب الوطنی میں “كالجبل الراسخ۔۔۔” (مضبوط پہاڑ کی مانند) تمام مصائب کے سامنے استقامت کی۔
تحریر:سید آثار حیدر نقوی، آزاد کشمیر
آج ایک ایسی عظیم خاتون کا یوم ولادت ہے جس سے صابر ترین خاتون دنیا نے نہیں دیکھی ۔ان کا مشہور ترین نام زینب ہے جو لغت میں “نیک منظر درخت” کے معنی میں آیا ہے اور اس کے دوسرے معنی “زین أَب” یعنی “باپ کی زینت” کے ہیں۔ متعدد روایات کے مطابق حضرت زینب(س) کا نام پیغمبر خدا(ص) نے رکھا۔
جناب زینب کی پیدائش کے وقت رسول اللہ(ص) نے ان کا بوسہ لیا اور فرمایا: میں اپنی امت کے حاضرین و غائبین کو وصیت کرتا ہوں کہ اس بچی کی حرمت کا پاس رکھیں؛ بےشک وہ خدیجۃ الکبری(س) سے مشابہت رکھتی ہے۔
حضرت زینب(ع) پانچ جمادی الثانی سنہ 5 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئیں، القاب کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو حضرت زینب(ع) کے دسیوں القاب ہیں اور ان ہی میں سے ہیں: عقیلۂ بنی ہاشم، عالمہ غَیرُ مُعَلَّمَہ، عارفہ، موثّقہ، فاضلہ، كاملہ، عابدہ آل علی، معصومۂ صغری، امینۃ اللہ، نائبۃ الزہرا، نائبۃ الحسین، عقیلۃ النساء، شریكۃ الشہداء، بلیغہ، فصیحہ اور شریكۃ الحسین، اسی طرح حضرت زینب(ع) کی کنیت، ام کلثوم اور ام المصائب معروف و مشہور ہیں۔
آپ نے طفولت کے ایام میں اپنے والد علی(ع) سے پوچھا: بابا جان! کیا آپ ہم سے محبت کرتے ہیں؟ امیرالمؤمنین(ع) نے فرمایا: میں تم سے محبت کیوں نہ کروں گا، تم تو میرے دل کا ثمرہ ہو؛ حضرت زینب(س) نے عرض کیا: لایجتمع حبّان فی قلب مؤمن حبّ اللہ وحب الاولاد وان کان ولابد فالحب للہ تعالی و الشفقة للاولاد؛ (ترجمہ: دو محبتیں مؤمن کے دل میں جمع نہيں ہوتیں: خدا کی محبت اور اولاد کی محبت؛ پس اگر کوئی چارہ نہ ہو تو محبت (حُبّ) خدا کے لئے مخصوص ہے اور شفقت اور مہربانی اولاد کے لئے، امیرالمؤمنین(ع) نے بیٹی کا یہ جواب سنا تو ان سے اپنی محبت میں اضافہ کردیا۔ اسی طرح حضرت زینب(س) بچپن سے ہی حسین(ع) سے شدید محبت کرتی تھیں۔ جب کبھی حسین(ع) آپ کی آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے تو آپ بےچین ہوجاتی تھیں اور جب آپ کی نظریں بھائی کے جمال سے منور ہوتیں تو شاداب و باطراوت ہوجاتی تھیں ۔ اگر گہوارے میں رو پڑتیں تو بھائی حسین(ع) کا دیدار کرکے یا آپ کی صدا سن کر پرسکون ہوجاتی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر بیان کیا جائے تو حسین(ع) کا دیدار یا آپ کی صدا زینب(س) کے لئے سرمایۂ سکون تھی۔ اسی عجیب محبت کے پیش نظر، ایک دن حضرت زہرا(س) نے ماجرا رسول اکرم(ص) کو کو نقل کیا تو آپ(ص) نے فرمایا: “اے نور چشم! یہ بچی حسین(ع) کے ساتھ کربلا جائے گی اور بھائی کے مصائب اور رنج و تکلیف میں شریک ہوگی۔
حضرت زینب (س) کی نجی زندگی کے بارے میں اگر کچھ مکتوب کرنے کی جسارت کریں تو حضرت زینب (س) کی شادی حضرت عبداللہ بن جعفر سے ہوئی اور انکا مہر ان کی والدہ حضرت زہرا (س) کے مہر کے برابر 470 درہم قرار پایا۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ حضرت زینب(ع) نے ایک شرط رکھی کہ آپ حسین(ع) سے شدید محبت کی بنا پر ہر روز آپ کا دیدار کرنے جائیں گی اور سفر کی صورت میں بھائی کے کے ہمراہ جائیں گی اور جناب عبداللہ نے دونوں شرطیں مان لیں۔ خدا نے حضرت زینب(س) اور جناب عبداللہ کو پانچ اولادیں عطا فرمائیں: چار بیٹے (علی، عون، عباس اور محمد) اور ایک بیٹی ام کلثوم۔
حضرت زینب ایک بهت بڑی عالمانه شخصیت کی حامل تھیں .آپ کی طرف سے کوفہ، ابن زياد کے دربار نیز دربار یزید میں آیات قرآنی پر استوار عالمانہ کلام و خطبات، سب آپ کی علمی خصوصیات، فضائل اور مناقب علم کے ثبوت ہیں۔ آپ نے اپنے والد حضرت علی(ع) اور والدہ حضرت زہرا(س) سے احادیث بھی نقل کی ہیں ۔ علاوہ ازیں والد ماجد امیرالمؤمنین(ع) کی خلافت کے دور میں کوفی خواتین کے لئے آپ کا درس تفسیر قرآن بھی حضرت زينب(س) کی دانش کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔ حضرت زينب(س) رسول اللہ(ص) اور علی و زہراء(ع) کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ صحابیۃ الرسول(ص) تھیں اور منقول ہے کہ آپ روایت و بیان حدیث کے رتبے پر فائز تھیں چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔
اگر ہم حضرت زینب کی عباداتی پہلو پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ حضرت زینب كبری(س) راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں کبھی بھی نماز تہجد کو ترک نہيں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علی کہلائیں۔ آپ کی شب بیداری اور نماز شب دس اور گیارہ محرم کی راتوں کو بھی ترک نہ ہوئی۔ فاطمہ بنت الحسین(ع) کہتی ہیں: شب عاشور پھوپھی زینب(ع) مسلسل محراب عبادت میں کھڑی رہیں اور نماز و راز و نیاز میں مصروف تھیں اور آپ کے آنسوں مسلسل جاری تھے۔ خدا کے ساتھ حضرت زینب(س) کا ارتباط و اتصال کچھ ایسا تھا کہ حسین(ع) نے روز عاشورا آپ سے وداع کرتے ہوئے فرمایا:
“یا اختي لا تنسيني في نافلة الليل”۔ (ترجمہ: میری بہن! نماز شب میں مجھے فراموش نه کرنا۔
ج بھی جب کبھی حجاب اور پردہ کے بارے میں ذکر آتا ہے تو اس کی مثال آپ کے حجاب سے دی جاتی ہے آپ کے حجاب و پاکدامنی کے بارے میں تاریخ میں منقول ہے: جب بھی حضرت زینب(س) مسجد النبی(ص) میں اپنے جد امجد رسول اللہ(ص) کے مرقد انور پر حاضری دینا چاہتیں تو امیرالمؤمنین(ع) حکم دیتے تھے کہ رات کی تاریکی میں جائیں اور حسن و حسین علیہما السلام کو ہدایت کرتے تھے کہ بہن کی معیت میں جائیں چنانچہ ایک بھائی آگے ہوتا تھا، ایک بھائی پیچھے اور حضرت زینب(س) بیچ میں ہوتی تھیں۔ ان دو بزرگواروں کو والد بزرگوار کا حکم تھا کہ مرقد النبی(ص) پر لگا ہوا چراغ بھی بجھادیں تاکہ نامحرم کی نگاہ قامت ثانی زہراء(س) پر نہ پڑے۔ یحیی مازنی کہتے ہیں: میں مدینہ میں طویل عرصے تک امیرالمؤمنین(ع) کا ہمسایہ تھا؛ خدا کی قسم اس عرصے میں، مجھے کبھی بھی حضرت زینب(س) نظر نہ آئیں اور نہ ہی ان کی صدا سنائی دی۔ اگر صبر و استقامت پر بات کی جائے تو حضرت زینب(س) صبر و استقامت کی وادی میں کی بےمثل شہسوار تھیں۔ جب بھائی حسین(ع) کے خون میں ڈوبے ہوئے جسم کے سامنے پہنچیں تو رخ آسمان کی طرف کرکے عرض کیا:
بار خدایا! اس چھوٹی قربانی اور اپنی راہ کے مقتول کو ہم آل رسول(ص) سے قبول فرما۔ ایک محقق کا کہنا ہے کہ: زینب(س) کے القاب میں سے ایک “الراضية بالقدر والقضاء” ہے اور اس مخدَّرہ” نے شدائد اور دشواریوں کے سامنے اس طرح سے استقامت کرکے دکھائی کہ اگر ان کا تھوڑا سا حصہ مستحکم پہاڑوں پر وارد ہوتا تو وہ تہس نہس ہوجاتے، لیکن یہ مظلومہ بےکسی، تنہائی اور غریب الوطنی میں “كالجبل الراسخ۔۔۔” (مضبوط پہاڑ کی مانند) تمام مصائب کے سامنے استقامت کی۔