قم المقدس میں ہندوستان کے علماء اور طلاب کیلئے “عبقات الانوار شناسی” خصوصی کورس منعقد، معروف دینی و علمی شخصیات نے کی شرکت

قم/ولایت تائمز نیوز سرویس/ دفتر نمائندہ ولی فقیہ ہندوستان اور ورلڈ امامت فاؤنڈیشن کے باہمی اشتراک سے اسلامی جمہوریہ ایران کے علمی شہر قم المقدسہ میں “عبقات الانوار شناسی کورس” کی اختتامی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں حوزہ علمیہ قم کے جید علماء اور اساتید کے علاوہ ہندوستان کے فضلاء و طلاب کی خاصی تعداد نے شرکت کی۔

ولایت تائمز کو موصولہ اطلاعات کے مطابق دفتر نمائندہ ولی فقیہ ہنداور ورلڈ امامت فاؤنڈیشن کے باہمی اشتراک سے عید غدیر اور کتاب عبقات الانوار کی آشنائی کے پہلےنوعیت کے خصوصی کورس کی اختتامی تقریب کا انعقاد قم میں کیا گیا جس میں حوزہ علمیہ کے معروف اساتید اور علمی شخصیت کے علاوہ وہاں مقیم ہندوستان کے علماء اور طلاب کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

مذکورہ  دورہ میں اساتید کرام نے برصغیر میں فقہی و کلامی ابحاث کی ابتدا، مدرسہ لکھنؤ کی کلام و عقائد پر مبنی خدمات، علامہ میر حامد حسین کی زندگی اور ان کی کتاب عبقات الانوار سے متعلق سیر حاصل گفتگو کی۔

اس تقریب کے آغاز میں حوزہ علمیہ قم کی ممتاز دینی شخصیت اور ورلڈ امامت فاؤنڈیشن کے مدیر حجت الاسلام والمسمین ڈاکٹر تقی سبحانی نے تبلیغ دینی کے نفاذ میں بین الاقوامی میدان میں سرگرم مبلغین کے بعض مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ واضح ہے کہ خداوند متعال علی علیہ السلام کے بغیر دین کو اسلام نہیں جانتا لہذاعلماء کرام کو بھی چاہئے کہ وہ حدالامکان اپنے بیانات اور تبلیغ میں ولایت امیرالمومنین علیہ السلام کا کماحقہ پرچار کریں۔

حجت الاسلام سبحانی نے کہا کہ ولایت کی پاسداری کے اپنے درجات ہیں اور ہر کسی کے لیے کسی بھی حالت اور شرائط میں کچھ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ طلباء کے لیے امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت سے تمسک کا سب سے اہم مصداق یہ ہے کہ وہ اس مسئلہ میں (بہترین علمی آمادگی کے ساتھ) موجود شکوک و شبہات، ابہامات اور دشمنانِ دین کے مختلف عقیدتی حملوں کے خلاف پہاڑ کی طرح مقابلہ کریں۔

طلاب کے لئے ولایت امیر المومین (ع)سے متمسک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ شبہات اور ابہامات کے مقابلے میں پہاڑ کے مانند گھڑا ہو جائیں، عمار یاسر کے مانند حریم امیر المومنین (ع) کا دفاع کریں، ولایت سے متمسک ہو کر علوم علوی اور علوم اہل بیت علیہم السلام کو کسب کریں اور اس علم کو دوسرتے لوگوں تک پہنچائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ جشن صرف عید غدیر کی آمد پر خوشیاں منانے کے لئے بلکہ اس جشن میں ایسے افراد بیٹھے ہوئے ہیں جنہوں نے امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی معرفت حاصل کی ہے اور مولائے کائنات (ع) کے حق کا دفاع کرنے کے لئے خود کو آمادہ کیا ہے، نہ صرف ان معارف کو حاصل کیا ہے بلکہ اسے لوگوں تک بھی پہنچائیں گے۔

ورلڈ امامت فاؤنڈیشن کے سربراہ نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے بین الاقوامی پیمانے پر دینی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں درپیش مشکلات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم ایک ساتھ جمع ہوئے ہیں تا کہ اس پیغام کو یاد کریں جو خدا وند متعال نے اپنے رسول کو بھیجا تھا، اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرمایا: یَا أَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ، اے پیغمبرؐ، آپ نے زندگی میں جو بھی مشکلات اور مصیبتیں برداشت کیں، جنگوں میں شرکت کی، جہاد کیا، اگر اس پیغام کو نہ پہنچایا تو گویا بالکل بھی آپ نے کار رسالت کو انجام ہی نہیں دیا، اس آیت کے انداز خطاب سے پتہ چلتا ہے کہ پیغام غدیر کی کتنی اہمیت ہے۔

اس دوران نمائندہ ولی فقیہ ہند آیت اللہ مہدی مہدوی پور نے عبقات شناسی کورس کی اختتامی تقریب سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غدیر صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے۔ دراصل غدیر میں خالص اسلام کی حقیقت اور اہل بیت علیہم السلام کے مقام و منزلت کو بیان کیا گیا۔ غدیر ہمارے حال اور مستقبل کا مسئلہ ہے کہ جس میں اسلام کے بارے میں تفکر اور جھکاؤ کی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے۔