ماں کی دعا اورفریاد رنگ لے آئی،ماجد خان کی جنگجوئیت کی شروعات اور اختتام!

سرینگر// جنوبی کشمیر کے اسلام آباد ضلع میں ایک ابھرتے فٹ بال کھلاڑی ماجد خان کے جنگجو بن جانے کا ڈرامہ باالآخر انکے واپس آنے کے بعد ختم ہوگیا ہے جسکی وجہ سے انکے والدین نے راحت کی سانس لی ہے۔ماجد کے سرنڈر کے حوالے سے تاہم ابہام ہے کہ پولس نے نہایت احتیاط بھرتی ہوئی ہے جبکہ کئی سطحوں پر کئی طرح کے بیانات دئے جاچکے ہیں۔اس دوران وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ماجد خان کے ہتھیار چھوڑ دینے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک ماں کے پیار کی جیت کہا ہے جبکہ اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماجد کو تنگ طلب نہ کرکے عام اور پر سکون زندگی گذارنے کا موقعہ دیا جائے گا۔بعض حلقوں کا خیال تھا کہ اپنی خوبروئی اور مشہوری کی وجہ سے ماجد خان برہان وانی کے بعد کشمیری نوجوانوں کے درمیان کافی معروف پانے والا جوان ثابت ہوا۔ماجد خان،جو اپنے علاقے میں فٹبال اور کرکٹ کھیلنے کے علاوہ فرنگیوں کے جیسی اپنی شکل کیلئے مشہور ہیں،گذشتہ ہفتے گھر سے غائب ہوکر سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر بندوق لیکر ظاہر ہوئے تھے۔ماجد کے لشکر طیبہ کے ساتھ جاملنے کی خبر سے وادی کشمیر سے لیکر دور دور تک سنسنی سی پھیل گئی تھی اور یہ بحث شروع ہوگئی تھی کہ مسئلہ کشمیر کس طرح کشمیری نوجوانوں کے امکانی روشن کیرئر اور انکی زندگی کو کھائے جارہا ہے۔
کشمیر پولس کے چیف منیراحمدخان نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کے دوران ماجد خان کے بارے میں پوچھے جانے پر ماجد کے ساتھ ساتھ سبھی مقامی جنگجووں سے لوٹ آنے کی اپیل کی تھی۔آئی جی کشمیر نے کہا تھا کہ وہ ماجد خان کے گھروالوں کے ساتھ رابطے میں ہیں جو اپنے بیٹے کو واپس لے آنے کیلئے کوشاں ہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ وہ ان کوششوں میں مدد دینگے اور چاہیں گے کہ مذکورہ ہتھیار چھوڑ کر واپس معمول کی زندگی گذارنے کیلئے لوٹ آئے۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ اگر مقامی جنگجو سرکاری فورسز کے ساتھ جھڑپ ہونے کے دوران بھی ہاتھ کھڑا کریں تو انہیں بخش دیا جائے گا۔انکے اس بیان کے محض چند گھنٹوں کے بعد ہی ماجد خان کے سرنڈر ہونے کی خبر اسی سنسنی کے ساتھ پھیل گئی کہ جس طرح خود انکے اچانک جنگجو بننے کی نا قابلِ یقین خبر پھیل گئی تھی۔اننت ناگ کے ڈگری کالج میں کامرس کی ڈگری کے طالب عالم ماجد خان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ نہ صرف ایک اچھے کھلاڑی رہتے ہوئے کئی تمغے جیت چکے ہیں بلکہ وہ سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر شریک ہوتے رہے ہیں۔البتہ وہ شروع سے علیٰحدگی پسند خیالات کے حامل رہے ہیں اور اپنے علاقے میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور پھر سرکاری فورسز پر ہونے والی سنگ بازی کے جیسے واقعات میں بھی ملوث رہے ہیں۔تاہم اندازہ ہے کہ اگست میں انکے دوست یاور نثار شیر گوجری کے جنگجو بن کر فوج کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد ہی ماجد نے جنگجو بننے کا ارادہ کرلیا تھا۔یاور ہتھیار اٹھانے کے محض دس دن بعد اننتناگ قصبہ کے مضافات میں بانڈرپورہ نامی گاوں میں فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور ماجد خان کو اپنے دوست کے جنازے میں پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا جاچکا ہے۔اکتوبر29کو ماجد خان نے یاور کے راستے جانے کا عندیہ دیتے ہوئے یوں اپنا فیس بْک اسٹیٹس لکھا تھا’’جب شوقِ شہادت ہو دل میں تو سولی سے گھبرانا کیا‘‘۔ماجد کے والدین،جنکے وہ اکلوتے فرزند ہیں،نے سماجی رابطے کی ویب سائٹوں کے ذرئعہ ماجد کی واپسی کیلئے زبردست مہم چلائی۔چناچہ ماجد کی والدہ نے اس بات کی خوب تشہیر کی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کے گھر سے جانے کے بعد سے نوالہ تک نہیں اٹھایا ہے جبکہ انکے والد کودل کا دورہ پڑنے کے بعد ایک مقامی اسپتال میں بھرتی کرائے جانے کی تصویریں بھی وائرل ہوگئیں جن پر تبصرہ کرتے ہوئے لوگوں نے خان سے اپنے والدین کے پاس لوٹ آنے کی اپیل کی تھی۔ماجد کی والدہ عائشہ نے ایک ویڈیو پیغام بھی جاری کردیا تھا جس میں نڈھال ماں نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ وہ انہیں کس کے سہارے چھوڑ گئے ہیں اور آکر انہیں اپنے ہاتھوں سے قتل کیوں نہیں کردیتے کہ اگر وہ گھر لوٹنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
ریاست میں پولس کے ڈائریکٹر جنرل ایس پی وید نے تاہم ایک بیان میں کہا کہ ماجد نے سرنڈر تو نہیں کیا ہے البتہ وہ اپنے والدین کے پاس لوٹ آئے ہیں۔وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی،جنہوں نے گذشتہ دنوں مقامی جنگجووں کو سرنڈر پر آمادہ کرنے پر پولیس کیلئے انعام کی رقم دوگنا کردینے کی پیشکش کی ہے،نے ماجد کے لوٹ آنے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا ہے’’ایک ماں کے پیار کی جیت ہوئی ہے۔اسکی مشفقانہ اپیل نے ماجد،جو ایک ابھرتے ہوئے فٹبال کھلاڑی ہیں،کو گھر لوٹ آنے میں مدد دی ہے۔ہر بار جب کوئی نوجوان تشدد پر آمادہ ہوتا ہے یہ اسکا گھر ہوتا ہے جو سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے‘‘۔سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اسی طرح کے ایک ٹویٹ میں امید ظاہر کی ہے کہ ماجد خان کو تنگ طلب کئے بغیر عام زندگی گذانے کا موقعہ دیا جائے گا۔خود ماجد کے والد ارشاد خان نے کہا’’مجھے تو جیسے نئی زندگی مل گئی ہے،میں اب ٹھیک ہوگیا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ میں پھر اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہو سکتا ہوں‘‘۔سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر لشکر طیبہ کا ایک بیان بھی گشت میں رہا کہ جس میں تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ ماجد خان کے گھروالوں کی پریشانی دیکھ کر اس نے خود ہی خان کو والدین کی خدمت کیلئے فارغ کردیا ہے حالانکہ اس بیان کے اصل ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق ہونا باقی ہے۔