سرینگر/دعوت دین اور اتحاد امت کے نام پر مسلک پروری اور نفرت انگیزی پھیلانے والوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ امت کے بگڑتے ہوئے شیرازے کو سمیٹنے کے بجائے آخر کیوں بکھیرنے کی ناپاک کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ایک سوچے سمجھے سازش کے تحت دو دہائیوں سے اہلسنت کے اکابرین، علماء کرام، صلحاء عظام، اولیاء کرام اور پیغمبران اعظام ؑ کے عظمت پر نت نئے حربوں نیز تحریروں اور تقریروں کے ذریعے سے حملہ کرکے امت مسلمہ کے دلوں کو بار بار مجروح کرنے کے نا پاک منصوبے کو عملایا جا رہا ہے جس سے علماء اہلسنت اور دانشوران امت مسلمہ کو اکسا کر مناظرہ بازی کے لئے مجبور کر رہے ہیں۔ اگر چہ چار سال قبل اس فتنے کی سر کوبی کے لئے وسیع تر مفادات کو مد نظر رکھکرعلماء اہلسنت ، دانشوران ملت اور قائدین قوم نے کچھ مثبت اقدام اٹھائے تاہم ان کوششوں کو مسلک پرور اور فتنہ پرور عناصر نے ڈھال بنا کر اپنا دفاع کیا۔ان باتوں کا اظہا ر امیر کاروان اسلامی پیر طریقت علامہ غلام رسول حامی نے متعدد مکتبہ فکر کے علماء کرام، سماجی قائدین اور کاروان اسلامی کی جنرل ایگزیکیٹیو باڑی اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ اختلاف کی گنجائش ہر مسلک اور مذہب میں موجود ہے اور تادم قیامت رہے گی تاہم اسمیں وسعت قلبی کا مظاہرہ کرکے تمام مسالک کے سربراہان اختلافی حالات میں سلف صالحین کے نقش قدم کو اپنا شعار بنائیں۔ کشمیر کی اسلامی تاریخ روز روشن کی طرح عیان ہے کہ کشمیر میں مسلک حق سات صدیوں سے قائم ہے اسلئے تمام مسالک کے لوگوں کو ماضی اور تواریخ کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے تاکہ وسیع تر مفادات کا دائرہ مظبوط ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر سمیت دنیا کے ۶۲ فیصد حصے پر اولیاء کاملین کی کوششوں سے اسلام پھیلا ہے اسلئے ریاست جموں و کشمیر میں بھی بانی اسلام میر سید علی ہمدانی ؒ ، شیخ العالم ؒ ، محبوب العالم جیسے عرفا ء نے ہم تک اسلام پہنچایاہے اسلئے کشمیر کے چپے چپے پر کتاب وسنت اور اولیاء کاملین کے عقائد کے مطابق عبادات، ذکر واذکار پر عوام الناس عمل پیرا ہیں جس کو مٹانے کے لئے کہیں دہائیوں سے اغیار کے ایما پر کاربند عناصر ثقافت اسلامیہ کو سبو تاژ کرنے کے در پہ ہیں اسی لئے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ان عناصر کی سرکوبی کرنے کے لئے ایک مثبت حکمت عملی کو ترتیب دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں شراب ومنشیات،بے رہ روی،غربت اور افلاسی کے ساتھ ساتھ ظلم وجبر کے شکار عوام کے تئیں خدمت خلق کے جذبے کو اجاگر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔اتحادامت کے نام پر اتحاد کے ہی خاکوں میں رنگ بھر کر عملی تدبیر نکالنے کی ضرورت ہے نہ کہ صرف اتحاد کا لبادہ اوڑھ کر مسلک پروری اور فتنہ انگیزی کو پروان چڑھایا جائے۔