تہران/ولایت ٹائمز نیوز سرویس/رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ٹی وی پر اپنے خطاب میں پیغمبر ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی ملت ایران اور امت اسلامیہ کو مبارکباد پیش کی اور مسلمانوں کی مشکلات کے حل کے لئے عالم اسلام کے اتحاد پر زور دیا۔ استکبار سے مقابلے کے قومی دن 13 آبان مطابق 3 نومبر کو اپنے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کے تسلط پسندانہ عزائم کے مقابلے میں دانشمندانہ مزاحمت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ کی نپی تلی پالیسیاں امریکہ میں افراد کے اقتدار میں آنے جانے سے تبدیل نہیں ہوتیں۔رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں قرآن کریم کی کچھ آیتیں پیش کیں اور انسانی سماج کی آج کی صورت حال سے ان کی مناسبت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے کہ عوام الناس کے رنج و آلام پیغمبر اکرم کے لئے سخت تکلیف دہ ہوتے ہیں اور حضرت کو انسان کے اچھے مستقبل کی ہمیشہ فکر رہی اور آج بھی انسانی سماج ہمیشہ سے زیادہ رنج و آلام میں مبتلا ہے تو رسول اکرم کی روح مطہرہ یقینا آزردہ ہے اور آپ شفیق باپ کی مانند انسانی معاشروں کی ہدایت و خوش بختی کی فکر میں ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے استکباری طاقتوں کے ذریعے سائنس و ٹیکنالوجی کو ناانصافی، جنگ افروزی، شر انگیزی اور قوموں کے وسائل کی غارت گری جیسے منحوس مقاصد کے لئے استعمال کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ فرعون تو صرف مصر کی حدود میں مظالم ڈھاتا تھا جبکہ دور حاضر کا فرعون یعنی امریکہ سائنسی پیشرفت کا استعمال کرکے دیگر ممالک پر چڑھائی کرتا ہے اور جنگ، بد امنی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھتا ہے۔
اسلام سے استکبار اور صیہونزم کی ہمہ جہتی دشمنی کا حوالہ دیتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس خبیثانہ دشمنی کی تازہ مثال خاکوں کی زبان میں پیغمبر اکرم کی نورانی شخصیت کی شان میں گستاخی اور اس مذموم حرکت کی فرانسیسی صدر کی طرف سے حمایت ہے، جس سے ایک بار پھر ثابت ہوا کہ اس قسم کے مسائل کی پشت پر کچھ خفیہ ہاتھ کارفرما ہوتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا:کہتے ہیں کہ ایک انسان قتل کر دیا گيا ہے، ٹھیک ہے آپ افسوس اور اس سے ہمدردی کا اظہار کیجئے! کیوں ان خبیثانہ خاکوں کی صریحی حمایت کر رہے ہیں؟ فرانس اور بعض دیگر ممالک کی تلخ اور مذموم حمایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ان گستاخانہ حرکتوں کی پشت پر گزشتہ ادوار کی مانند خاص نیٹ ورک اور منصوبے کار فرما ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی پر پوری مسلم امہ میں پیدا ہونے والے اشتعال اور ناراضگی کو امت اسلامیہ کے پیکر میں زندگی کی حرارت موجود ہونے کی علامت قرار دیا اور فرمایا: “البتہ بیشتر حکومتوں کے برخلاف دنیائے اسلام کے کچھ رہنماؤں نے اس دفعہ بھی اپنی حقارت کا مظاہرہ کیا اور مذموم حرکت پر اعتراض سے گزیز کیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو انسانی حقوق اور آزادی اظہار سے جوڑنے کی فرانسیسی حکومت کی کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ دعوے وہ حکومت کر رہی ہے جو دنیا کے سب سے وحشی اور درندہ صفت دہشت گردوں کو اپنے یہاں پناہ دیتی ہے جن کے ہاتھ ہزاروں ایرانی شہریوں اور درجنوں ایرانی عہدیداروں کے خون سے آلودہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ آٹھ سالہ جنگ میں اس حکومت نے صدام جیسے خونخوار بھیڑئے کی سب سے زیادہ حمایت کی اور ہفتے کے روز مظاہرے کرنے والے اپنے شہریوں کی آزادی اور انسانی حقوق کے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ ساتھ بری طرح سرکوبی کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ پیغمبر رحمت کی نورانی شخصیت پر ان حرکتوں سے جو حالیہ دنوں ہوئیں اور اس سے پہلے بھی ہی چکی ہیں، کوئی داغ لگنے والا نہیں ہے، بلکہ روز بروز یہ آفتاب زیادہ تابناک ہوتا جا رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلام اور پیغمبر کو کوئی نقصان پہنچنے والا نہیں ہے لیکن یہ حرکتیں مغربی تمدن کی تاریک ماہیت کی علامت ضرور ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عالم اسلام کی مشکلات کے حل کے لئے امت اسلامیہ کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا اور اس سلسلے میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دور اندیشی کی قدردانی کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے والے افکار کی ترویج کے مراکز قائم کرنے، داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی تشکیل اور غفلت کے شکار افراد کو ایک دوسرے سے لڑوانے کو اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والے دشمنوں کے منصوبوں سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ بے شک ان دہشت گرد تنظیموں کی مالی واسلحہ جاتی مدد کرنے والی بعض علاقائی حکومتوں کا گناہ جاہلانہ طور پر ان تنظیموں میں شامل ہو جانے والے افراد سے زیادہ ہے، جبکہ اس قضیئے میں اصلی گنہگار امریکی اور سعودی حکام ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے افغانستان اور شام جیسے اسلامی ممالک پر لشکر کشی کو امریکیوں کا دوسرا بڑا جرم قرار دیا اور فرمایا کہ عراق میں غیور نوجوان امریکیوں کو پیر جمانے کا موقع نہیں دیں گے کیونکہ دنیا کے کسی بھی خطے میں امریکیوں کی موجودگی کا نتیجہ بدامنی، تباہی، خانہ جنگی اور حکومتوں کے باہمی تنازعے کے علاوہ کچھ نہیں رہا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ پانچ سال سے جاری جنگ یمن، بے گناہ عوام پر سعودی عرب کی بے رحمانہ بمباری اور مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرتے ہوئے امت اسلامیہ سے روگردانی کرنے والی ذلیل و رسوا حکومتوں کے مسئلے کو بھی اتحاد بین المسلمین کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کشمیر سے لیکر لیبیا تک مسلم اقوام اور حکومتوں کی مشکلات و آلام کا حل امت اسلامیہ کے اتحاد سے ممکن ہو جائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں 13 آبان 1358 ہجری شمسی مطابق 4 نومبر 1979 کو تہران میں جاسوسی کا اڈا بن جانے والے امریکی سفارت خانے پر ایرانی طلبہ کے قبضے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ دن استکبار سے ملت ایران کی جنگ کا مظہر اور طلبہ کا وہ اقدام استکبار کے خلاف جدوجہد کا مثالی اقدام تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ طلبہ کا یہ اقدام پوری طرح دفاعی اور عاقلانہ اقدام تھا۔ آپ نے فرمایا کہ امریکیوں کے خلاف ہم نے دشمنی کا آغاز نہیں کیا بلکہ امریکیوں نے اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد کانگریس میں قرارداد پاس کرکے، دہشت گرد تنظیمیں بنا کر، بغاوت کی سازشیں رچ کر اور اپنے سفارت خانے میں جاسوسی کی وسیع کارروائیاں کرکے ملت ایران کے خلاف دشمنی کا آغاز کر دیا تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کے انتخابات کے تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ آج امریکہ میں انتخابات ہیں، کچھ لوگ یہ باتیں کرتے ہیں کہ اگر فلاں جیتے گا تو کیا ہوگا وغیرہ، ممکن ہے کہ کچھ تبدیلیاں ہوں لیکن ہم سے کوئی مطلب نہیں ہوگا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ہماری پالیسی معین اور واضح ہے، افراد کے آنے جانے سے اس میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ کوئی فرق نہیں کہ امریکہ کے انتخابات میں کون فاتح ہوگا لیکن ایک بات واضح ہے اور وہ امریکی رژیم کا سیاسی، تمدنی اور اخلاقی انحطاط ہے۔ جب کسی رژیم کی یہ حالت ہو تو پھر واضح ہے کہ اس کی عمر زیادہ نہیں بچی ہے۔ البتہ ان میں بعض ہیں جو اقتدار میں آئے تو جلدی خاتمہ کریں گے اور بعض کچھ تاخیر سے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم سے امریکیوں کی دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ان کے ظالمانہ تسلط کو قبول نہیں کیا، ان کے دباؤ میں نہیں آئے، علاقے میں ان کی ظالمانہ پالیسیوں کو برداشت نہیں کیا اور فلسطین کے بارے میں ان کی پالیسیوں کو مسترد کر دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ دشمنی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک دشمن پوری طرح مایوس نہیں ہو جاتا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جاری جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ بہت تلخ اور علاقے کی امن و سلامتی کے لئے خطرناک ہے۔ آپ نے فرمایا کہ فوجی تصادم جلد از جلد بند ہونا چاہئے البتہ جمہوریہ آذربائيجان کے جن علاقوں پر آرمینیا کا قبضہ ان سارے علاقوں کو آذربائیجان کو واپس کیا جانا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ان علاقوں میں آباد ارمنی عیسائیوں کی حفاظت اور بین الاقوامی سرحدوں کے احترام پر زور دیا اور فرمایا کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق جو دہشت گرد اس علاقے میں پہنچے ہیں انھیں ہرگز ایران کی سرحدوں کے قریب نہیں آنے دینا چاہئے، اگر وہ قریب آتے ہیں تو یقینا ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔