ولی محمد میر محمود آبادی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے, مرحوم نے کئی اسلامی کتابوں کا ترجمہ انجام دیا اور زندگی کا بیشتر وقت معارف اہلبیت ؑ کی اشاعت میں صرف کیا

سرینگر/ریاست جموں وکشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر سے12کلومیٹر کی دوری پر واقع ضلع بڈگام کے علاقہ ٹینگن کے بزرگ علمی شخصیت ولی محمد میر محمود آبادی داعی اجل کو ب لبیک کہہ گئے ۔مرحوم کے زندگی نامہ کو اگر بیان کیا جائے تو ایک مفصل تحریر تیار کرنی مطلوب ہے جس کیلئے ایک خاص وقت درکار ہوگا تاہم مختصر وقت میں اس مقالہ کے ذریعہ کوشش کریں گے مرحوم کے زندگی نامہ پر طائرانہ نظر ڈالیں

تحریر :امتیاز حسین

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
انا للہ وانا الیہ راجعون
ریاست جموں وکشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر سے12کلومیٹر کی دوری پر واقع ضلع بڈگام کے علاقہ ٹینگن کے بزرگ علمی شخصیت ولی محمد میر محمود آبادی داعی اجل کو ب لبیک کہہ گئے ۔مرحوم کے زندگی نامہ کو اگر بیان کیا جائے تو ایک مفصل تحریر تیار کرنی مطلوب ہے جس کیلئے ایک خاص وقت درکار ہوگا تاہم مختصر وقت میں اس مقالہ کے ذریعہ کوشش کریں گے مرحوم کے زندگی نامہ پر طائرانہ نظر ڈالیں
مرحوم 1938ء کو رکھ شالنہ ٹینگن ضلع بڈگام میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنا تخلص محمودآبادی رکھا تھا کیونکہ ان کے والد نے ٹینگن سے دو کلومیٹر کی دوری پر ایک میدان خاردار کو ایک باغ میں تبدیل کرکے وہاں رہائش اختیار کی تھی۔ مرحوم کے والد نے چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی لیکن کشمیری زبان سمیت اردو اور فارسی پر عبور حاصل ہونے کے سبب دقیق فارسی کتب کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ ان کے والد محترم ایک روحانی طبیب بھی تھے جنہوں نے ہزاروں مریضوں کا کشمیر اور بیرون کشمیر معالجہ کیا تھا۔ اس کا ذکرخود مرحوم نے اپنے والد کی سوانح عمری میں لکھا ہے۔
خود مرحوم نے اپنے ہی گاؤں میں اس زمانہ میں تعلیم حاصل کی جب علاقہ میں کوئی اسکول یا مدرسہ موجود نہ تھا حتیٰ دیگر علاقہ جات سے لوگ ٹینگن یا پانپور پڑھنے کے لیے جاتے تھے۔ مرحوم نے اپنے والد سے جوانمردی ، صبر و استقامت ، دینداری ، امانت داری، عفوو درگذربھی وراثت میں ملی۔ شاید والدین کی پاکیزگی اور طہارت ہی سبب بنی کہ جناب نے معارف اہلبیت ؑ کو تشہیر کرنے کا عزم و ارادہ اپنے والد ہی کی زندگی میں کیا۔ موصوف اظہار تاسف کرکے فرماتے ہیں کہ وہ اس کام کو اپنے والد کی زندگی میں نہ کرسکے۔ معارف اہلبیت ؑ کی اشاعت کر کے عوام میں مفت تقسیم کرنا ان کا دیرینہ عادت رتھی۔
آزادی ہندوستان کے دوران کشمیر کے حالات کے چشم دید گواہ تھے۔ الحاق کشمیر، افغان قبائل کا حملہ کشمیر پر، بیگاری ، بادشاہی دور،تحریک آزادی کشمیروغیرہ، کشمیر کی مظلومیت اور کشمیری عوام کا پاکستان کے تئیں جذبہ محبت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ۔ آزادی کشمیر کی راہ میں جددوجہد کرنے والوں اور کشمیر کے بزرگوں نے وصیت کی تھی کہ جب کشمیر آزاد ہوجائے تو ہماری قبروں پر پاکستان کا پرچم گاڑدیا جائے۔ موصوف زاہدانہ زندگی گذار رہے تھے اور شہرت سے پرہیز کیا تھا لیکن پھر بھی کشمیر میں بحیثیت ادیب و خطاط معروف تھے۔ جناب نے اپنی خداداد صلاحیتوں کواسلام کی راہ میں بقدرتوانا استعمال کیا۔ علماء کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کی راہ و روش کواپنایا۔
مرحوم ولی محمد میر اپنے علاقہ اور علمی طبقہ میں بحیثیت روحانی طبیب، مؤلف، مصنف، مترجم، ادیب وخطاط مشہور تھے۔ اس دور میں جبکہ مداری و جادوگر لوگوں کو اپنی ہوس اور بیہودہ باتوں کا شکار کیا کرتے ہیں موصوف نے معارف اہلبیت علیہم السلام سے استفادہ کرکے ان شیطانی افراد کا مقابلہ کیا اور لوگوں کی پریشانیووں کا علاج کیا۔ موصوف نے تقریباً 1973 کے بعد سے لکھنا شروع کیا۔ جس میں اپنے والد گرامی کی مختصر سوانح ، اپنے بیٹے کے غم میں کتابچہ ، محمودآبادکا پس منظروغیرہ شامل ہیں۔
موصوف نے 90 کی دھائی میں لوگوں کے سامنے امام حسین ؑ کے خطبات کا مجموعہ کشمیری زبان میں بنام بلاغت الحسین ؑ ، امام علی ؑ کے کلمات قصار کا مجموعہ بنام باب المختار، امام علی ؑ کا وصیت نامہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے نام، امام علی ؑ کا خط مالک اشتر کے نام (دستور حکومت) کو عوام کے استفادہ کے لیے آمادہ کیا۔
انہوں نے جن کتب کا ترجمہ کیا ان میں سے قابل ذکر کتاب نہج البلاغہ کلام امیرالمومنینؑ ہیں۔ جس کا مکمل ترجمہ ان کی دیرینہ خواہش تھی۔ اور خداوندعزوجل کی توفیق سے اس کو پایہ تکمیل تک پہونچایا۔
انہوں نے بیشتر عمرکلچرل اکادمی آف آرٹ، لنگویج اینڈ کلچرجموں کشمیر میں صرف کی۔ جہاں ان کو خطاطی میں وادی کے ایک معروف خطاط ہونے کی اعزازی سند سے نوازا گیا۔ ولی دارلکتابت نیز ریحان پبلی کیشنز کے نشریہ نام سے کتب کو چھاپ کیا گیا ہے۔ موصوف نے اپنے خانے کو اہلبیت ؑ کے اقوال سے مزین کیا تھا اور اقوال کو مختلف ڈیزاین میں خطاطی کی تھی۔ وہ ہفتہ نامہ ’’میراث‘‘جو کہ ایک کشمیری اخبار ہے کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر بھی تھے۔ قابل ذکر بات ہے کہ مراثی کا جتنا بھی لٹریچر ہے جناب نے ان کی خطاطی کا شرف حاصل کیا ہے۔موصوف آغا خاندان اور عباس انصاری صاحب کے مجلہ جات کی کتابت انجام دیا کرتے تھے۔
ان کی کتب جن کا ترجمہ کیاہے /مؤلف یا جن کو ترتیب دے کر چھاپ کرایا ہے:1۔ نہج البلاغہ (کامل)۔2۔ باب المختار (کلمات قصار کا مجموعہ)2 جلد۔3۔ وصیت نامہ امام علیؑ ۔4۔ دستور حکومت (مالک اشتر نخعی کے نام امام علی ؑ کا خط از علامہ نقن صاحب)۔4۔ میڑہ رلہ مت کروکھ یاد (مٹی میں ملے ہوؤں کو یاد کرو)۔5۔ بلاغت الحسین ۔6۔ سفر نامہ ایران و عراق (جس میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات کو مختصرابیان کیا ہے)۔7۔ قرآنی آیات و احادیث سے مرایض کا حل۔8۔ الفرصت تمر مرالسحاب وغیرہ
خداوند متعال ہمیں علمائے کرام اور علمی شخصیت کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی توفیق سے نوازے اور تمام مومنین کو جنت میں جگہ نصب فرمائے۔