چلتے چلتے خبر نہ تھی کہ زندگی کا سفر یوں تمام ہوا؟

سرینگر/ریاست جموں وکشمیر کے معروف صحافی، شاعر، ادیب،کالم نویس، فوٹوگرافر اور براڈ کاسٹر مقبول ساحل گذشتہ ہفتہ سرینگر کے علاقہ لال بازار میں راہ چلتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ان کے انتقال کی خبر پھیلتی ہے وادی کے ادبی، سیاسی اور صحافتی حلقوں میں غم و ماتم کی لہر پھیل گئی ۔وہ کئی مقامی اْردو اخبارات کے ساتھ وابستہ رہے ہیں اور بلند کشمیر اور کشمیر پرچم نامی اخبارات کے اہم ارکان میں شمار ہوتے تھے۔مقبول ساحل اْردو اخباروں کے ساتھ وابستہ تھے تاہم اْنہیں پہاڑی زبان پر بھی عبور حاصل تھا جبکہ گاہے گاہے انگریزی میں بھی لکھتے تھے اور فوٹو گرافی کا بھی شوق رکھتے تھے۔صحافی ہونے کے علاوہ وہ ادیب اور شاعر بھی تھے۔چناچہ اْنکی کئی کتابیں چھپ چکی ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ مقبول ساحل کے اچانک گر جانے کے ساتھ ہی آس پاس سے گذرنے والے کئی لوگ اْنکی مدد کو آئے تھے تاہم وہ تب تک ٹھنڈے ہوچکے تھے۔بتایا جاتا ہے کہ اْنہیں دل کا شدید دورہ پڑا تھا جو جان لیوا ثابت ہوا ہے۔مقبول ساحل اصل میں پہاڑی ذات کھوکھر تھے اور وہ جنوبی کشمیر کے کوکرناگ علاقہ کے باشندہ تھے تاہم کام کے سلسلے میں دہائیوں پہلے سرینگر آئے تھے اور تب سے یہیں اْنکی بودوپاش تھی۔وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے صحافی اور مصنف مرحوم مقبول ساحل کے لواحقین کے حق میں پانچ لاکھ روپے واگزار کئے۔ وزیر اعلیٰ نے پہاڑی فن کو فروغ دینے اور ریاست میں صحافت کو مضبوط کرنے کے لئے مرحوم مقبول ساحل کی خدمات کی سراہنا کی۔اس دوران ان مقبول ساحل کی وفات پر ادبی، صحافتی برادری کے علاوہ متعدد سیاسی، سماجی شخصیات نے گہرے دکھ اور صدمے کا اظہار کیاہے۔ان کی یاد میں متعدد تعزیتی اجلاس منعقد ہوئے جس میں موصوف کی بے وقت موت پر افسوس ظاہر کیاگیا۔پہاڑی مشاورتی بورڈ جموں میں ایک تعزیتی اجلاس منعقد ہوا جس میں پہاڑی طبقہ سے وابستہ سیاستدانوں، اراکین قانون سازیہ، ادبا، وکلاکے علاوہ صحافتی اور ادبی دنیا سے جڑی متعدد شخصیات نے شرکت کی۔ اس تعزیتی اجلاس کی صدارت ایم ایل سی اور کلچرل اکیڈمی کے نائب صدر ظفر اقبال منہاس نے کی۔ مقررین نے ساحل مقبول کی وفات کو ادبی اور صحافتی برادری کے لئے عظیم نقصان قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ مرحوم ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔انہوں نے ہمیشہ زندگی کے ساتھ ہمت، خود اعتمادی اور دلیری سے لڑائی لڑی۔ معاشی حالت خستہ ہونے کے باوجود کبھی بھی مالی فوائید کے لئے اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ظفر اقبال منہاس نے صدارتی خطبہ میں کہاکہ مرحوم ساحل مقبول قلمی مزدور تھے، اس سی انہوں نے جوکمایا، اپنی اور اہل وعیال کی کفالت کی، یہی ان کی بود وباش کا ذریعہ تھا۔ انہوں نے بتایاکہ سال 1985کو دل محمد ڈار جوکہ مرحوم شمیم احمد شمیم کے رشتہ دار تھے، کے ذریعہ ساحل مقبول سے ان کا تعارف ہوا۔انہوں نے کہاکہ ساحل جب جیل سے رہاہوئے تو کوئی بھی انہیں قبول کرنے کوتیار نہیں تھا، ہرکوئی ڈرتا تھاکہ شاہد ایسا کیا تو انہیں سیکورٹی فورسز تنگ وطلب نہ کریں۔ لیکن انہوں نے اس وقت ان سے تعاون کیا اور وہ دوبارہ کیرئر شروع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ساحل مقبول کی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا بڑا صحافی بنے۔ظفراقبال منہاس نے کہاکہ ساحل مقبول میں اعتماد بہت تھا، انتھک تھا۔ انہوں نے کہاکہ افسوس کا مقام ہے کہ ہم جب کوئی مرجاتا ہے تو اس کی تعریف کرتے ہیں، اس وقت ہمیں اس کی اہمیت اور قدرومنزلت کا احساس ہوتا ہے، زندہ آدمی ہمیں نظر نہیں آتی، ہمیں چاہئے کہ دوران حیات شخص کی اہلیت، قابلیت اور صلاحیت کا صلہ دیاجائے، اس کی قدر کی جائے.۔