کشمیرکے دونوں حصوں کو خود مختاربنانے کی ضرورت

انگریزی و اردو زبان سے زیادہ مادی زبان کو فروغ دینے کی ضرورت:ڈاکٹر فاروق عبداللہ

سرینگر/5دسمبر201/کشمیرکے دونوں حصوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینے کی بھرپور وکالت کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس صدر اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کنٹرول لائن کو غیر متعلق ، آر پارمسافروں کی آواجاہی اور تجارت کو آسان تر بنانے پر زور دیاہے۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بھارت اور پاکستان کو مفاہمت کی راہ اپنانے کا مشورہ دیا اورامید ظاہر کی کہ وزیر خارجہ سشما سوراج کا پاکستان کا مجوزہ دور ہ ہند پاک مذاکرات کی بحالی کیلئے مدد گار ثابت ہوگا۔سابق وزیر اعلیٰ نے اردو یا انگریزی زبان میں تقریر کرنے کی نامہ نگاروں کی درخواست پر عمل نہ کرتے ہوئے کشمیری زبان کو فروغ دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔کے ایم این سٹی رپورٹر کے مطابق نیشنل کانفرنس کے بانی اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی سالگرہ کے موقعے پر مرحوم کے مزار واقع نسیم باغ حضرت بل پر منعقدہ تقریب سے خطاب اور بعد میں نامہ نگاروں کے ساتھ گفتگو کے دوران پارٹی صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے مسئلہ کشمیر کے حل اور ہند پاک تعلقات کے بارے میں اپنے خیالات کاا ظہار کیا۔انہوں نے یہ کہتے ہوئے موجودہ مخلوط سرکار کی شدید تنقید کی کہ وہ 2014کے سیلاب زدگان کو راحت پہنچانے اور ان کی بازآبادکاری کے سلسلے میں مکمل طور ناکام ہوچکی ہے۔اس ضمن میں ان کا کہنا تھا کہ سابق سرکار نے سیلاب متاثرین کیلئے44ہزار کروڑ روپے کے پیکیج کا مرکز سے مطالبہ کیا تھا لیکن اس کے بجائے صرف8ہزار کروڑ روپے کی امداد کے نام پر سیلاب متاثرین کے ساتھ مذاق کیاگیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ سرکار کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں بقول ان کے ہر کوئی کشمیری مصیبت میں ہے۔ڈاکٹر عبداللہ نے کنٹرول لائن کے دونوں طرف مسافروں کی آواجاہی اور تجارت کا ذخر کرتے ہوئے یہ بات زور دیکر کہی کہ اس عمل کو آسان سے آسان تر بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔اس ضمن میں ان کا کہناتھا’’یہ کہتے ہیں کہ ہم نے راستے کھول دئے ہیں، لیکن وہاں کون جاسکتا ہے؟صرف وہ جس کا کوئی رشتہ دار ہو؟اس کو بھی لوازمات پورے کرنے میں کتنے دن لگتے ہیں؟‘‘انہوں نے کہا’’راستوں کا کھلنا تب مانیں گے جب اُدھر کا شہری اِدھر اور اِدھر کا شہری اُدھر بہ آسانی سے آجاسکے‘‘۔ڈاکٹر عبداللہ نے آر پار تجارت کو وسعت دینے پر زور دیتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کہا’’بیس بیس چیزوں کی تجارت کونسی تجارت ہے؟