میں اپنی حالت پر خود شرمندہ ہوجاتی ہوں۔ ہر مصیبت میں عوام کا سہارا بنی ہوں مگر آج پہلی بار میں خود کو کمزور اور کم تر محسوس کر رہی ہوں۔ پڑوسی کا پوتا میرے صحن میں کھلے پھولوں پر منڈلانے والی تتلیوں کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے اور اس کی ماں مجھے کہہ رہی ہے کہ 4 اگست کے بعد وہ خود اپنی ماں کی حالت سے بےخبر ہے جو صورہ کے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اس کے چہرے پر تشویش چھائی ہوئی ہے۔ بار بار آہیں بھر رہی ہے، آنکھیں نم ہو رہی ہیں۔ گِلا کر کے کہتی ہے کہ ’اللہ کسی کو اس دنیا میں مظلوم نہ بنائے اور کسی کو یہ سزا نہ دے جو ہمیں مل رہی ہے۔ مودی اور امت شاہ کسی ماں کی کوکھ سے پیدا نہ ہوں۔‘
از قلم:نعیمہ احمد مہجور
12 اگست، 2019 سرینگر/جموں کشمیر
میرے کمرے کی دیوار پر ٹنگے کیلنڈر پر لکھا ہے کہ آج عید قربان ہے۔ شاید یہ پہلی عید ہے جب میرے گھر میں نہ تو میرے اہل خانہ نے ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دی، نہ ہم نے صبح ایک ساتھ بیٹھ کر قہوہ نوش کیا، نہ قربانی کا بکرا آیا اور نہ میں اپنے بچوں سے رابطہ قائم کرسکی۔
میں زندگی کے ان لمحات کو پھر بھی جینے کی کوشش میں ہوں، بھلے پوری دنیا کی فوج میرے اوپر مسلط کیوں نہ کر دی جائے۔
کہیں سے کوئی آواز نہیں آ رہی ہے۔ سڑکیں سنسان ہیں، نہ جانے کیوں آج کتے بھی نہیں بھونک رہے ہیں۔ پڑوس میں جیسے گھر خالی ہوگئے ہیں، دل کو چیرنے والی خاموشی ہے۔
میرے گھر کے سامنے چار منزلہ مکان میں جموں سے چار ہندو خاندان کرائے پر رہ رہے تھے۔ تین خاندان 4 اگست سے پہلے چھوڑ کر چلے گئے تھے لیکن اوپر والی منزل پر ایک ہندو خاندان کل شام تک موجود تھا کیونکہ ان کا بیٹا ہر صبح اپنے آنگن میں فٹ بال کھیلتا رہتا تھا۔
آج اس منزل کی کھڑکیاں بھی بند ہوگئی ہیں اور یہ بھی چلے گئے ہیں یا ان کو بھی یہاں سے نکلنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کشمیری خوف میں مبتلا ہیں کہ شاید 5 اگست کے فیصلے کے بعد یہاں کچھ اور ہونے والا ہے۔ یہ سوچ کر میرے بدن میں کپکپاہٹ پیدا ہوتی ہے۔
مقامی مسجد سے اذان کی آواز آ رہی ہے۔ ہماری گلی سے ملنے والی بڑی سڑک پر اکا دکا لوگ نظر آنے لگے ہیں اور دور سے فوجیوں کے چلنے کی آوازیں بھی اب آ رہیں ہیں۔
اچانک میرے پڑوسی کے گیٹ کے کھلنے پر ان کا سات برس کا پوتا باہر آ کر زور زور سے رو رہا ہے جو اپنے والد سے انتہائی ناراض ہے کہ اس نے عید کے نئے کپڑے کیوں نہیں خریدے۔ وہ بغاوت کر کے سڑک پر جانے کی ضد کر رہا ہے۔ اس کے والدین بچے کو سمجھانے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
وہ میرے مکان میں داخل ہو کر میرے سامنے آنسو بہا رہا ہے۔ میں اس کو گود میں اٹھا کر سہلانے لگتی ہوں مگر وہ روئے جا رہا ہے۔ میں خود بھی جذبات پر قابو نہیں پا رہی ہوں اور اس کو گلے لگا کر زور سے رونے لگتی ہوں۔
مکان کی بائیں طرف کی پڑوسن ہماری حالت دیکھ کر ڈوپٹے کے پلو سے اپنے آنسو پونچھ رہی ہے۔ وہ عید مبارک کہنے کی بھر پور کوشش کرتی ہے مگر الفاظ حلق میں اٹک جاتے ہیں۔
میں اپنی حالت پر خود شرمندہ ہوجاتی ہوں۔ ہر مصیبت میں عوام کا سہارا بنی ہوں مگر آج پہلی بار میں خود کو کمزور اور کم تر محسوس کر رہی ہوں۔ پڑوسی کا پوتا میرے صحن میں کھلے پھولوں پر منڈلانے والی تتلیوں کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے اور اس کی ماں مجھے کہہ رہی ہے کہ 4 اگست کے بعد وہ خود اپنی ماں کی حالت سے بےخبر ہے جو صورہ کے ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اس کے چہرے پر تشویش چھائی ہوئی ہے۔ بار بار آہیں بھر رہی ہے، آنکھیں نم ہو رہی ہیں۔ گِلا کر کے کہتی ہے کہ ’اللہ کسی کو اس دنیا میں مظلوم نہ بنائے اور کسی کو یہ سزا نہ دے جو ہمیں مل رہی ہے۔ مودی اور امت شاہ کسی ماں کی کوکھ سے پیدا نہ ہوں۔‘
میں چاہتی ہوں کہ وہ بولتی رہے اور دل کی بھڑاس نکال دے مگر اس کا شوہر قریب آ کر اس کو گھر جانے کا اشارہ کر رہا ہے۔ میں ان کو قہوہ پلانا چاہتی ہوں جو ہماری عید کی روایت ہے۔ ان کا بیٹا گھر کی طرف بھاگ جاتا ہے اور وہ دونوں اس کے پیچھے لوٹ جاتے ہیں۔
خوف اور ڈر نے ہماری رسمیں بھی روند ڈالیں ہیں۔
کیا ہوا اگر ہم آج عید کا کھانا نہیں پکائیں گے۔ عید قربان نہیں کریں گے۔ بچوں کو نئے کپڑے نہیں پہنائیں گے، پارکوں میں محفل نہیں جمائیں گے، اپنے مرحومین کے لیے فاتحہ پڑھنے قبرستانوں پر حاضری نہیں دیں گے، اپنی بہو بیٹیوں کو عیدی دینے کی رسم نہیں نبھائیں گے، لیکن نماز کو ہم کبھی نہیں چھوڑیں گے اور ایسا ہی ہوا۔
مقامی مسجد میں سکیورٹی فورسز کی موجودگی میں عید کی نماز ادا کی گئی۔ کشمیر کے لیے دعا مانگی گئی، غاصب قوتوں کے دنیا سے نیست و نابود ہونے کی آہ و زاری کی گئی۔ یقین مانیے یہ دعائیں دل سے نکلیں ہیں اور انشا اللہ ضرور پوری ہو جائیں گی۔
عید کا کھانا میز پر لگ گیا۔ غریب کشمیریوں کی مقبول ترین غذا ہے ہاکھ (سبز پتے) اور چاول۔ آج میرے گھر میں بھی ہاکھ اور چاول بنے ہیں اور پانی میں سبز پتوں کو تیرتے دیکھ کر میری بھوک بڑھنے لگی اور میں عید کا اپنا غریب کھانا نوش کرنے بیٹھتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہی ہوں کہ اس کی رحمتوں نے ہمیں کتنا مالا مال کر دیا ہے۔ ہاکھ اور چاول کشمیر کی اپنی پیداوار ہے ورنہ ہندوستان کے موجودہ بادشاہوں نے پہلے اس کو بند کر کے ہم سے پہلے یہی چھینا ہوتا کیونکہ وہ کشمیریوں کو سبق سکھانے کی لمبی مہم پر گامزن جو ہیں۔
میری ذہنی کیفیت میں ذرا سا بدلاو آگیا ہے۔ مجھ میں زندہ رہنے، لڑنے اور اپنا حق حاصل کرنے کا عہد میرے ذہن و دل کو پھر جھنجھوڑنے لگا ہے۔
نہ جانے میرے جسم میں یہ کیسی طاقت آتی ہے کہ میں اپنا گیٹ کھول کر سڑک کا رخ اختیار کرتی ہوں اور اپنے پڑوسیوں کی خیرو و عافیت پوچھنے نکل جاتی ہوں۔ یہ میری لمبی جدوجہد کا پہلا قدم ہے۔
اس کے بعد کیا ہوا اس کا احوال اگلی قسط میں بتاؤں گی۔