سرینگر/ولایت ٹائمزنیوز سرویس/5اکتوبر2020/نوجوانوں کے ایک بڑے حصے کا نشہ آور ادویات اور دیگر منشیات کا شکار ہونا سارے معاشرے کیلئے انتہائی تشویش ناک اور تکلیف دہ امر ہے ،وہ نسل جس کے ذمہ کل سماج کی زمام کار اور پیشوائی ہوگی اس کا اس حد تک بگڑ جانا ہماری حساسیت پر ایک سوالیہ ہے۔ ان باتوں کا اظہار جمعیت اہلحدیث جموں و کشمیر کے صدر پروفیسر غلام محمد بٹ المدنی نے قدیم چھانہ پورہ سرینگر میں ایک بڑے جمعہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوںنے کہا کہ نسل نو کا اس حد تک بے قابو ہوکر اس بد ترین عمل میں ملوث ہونا سنگین معاملہ ہے، اور اس تعلق سے سماج کے بڑوں کی چشم پوشی بھی ایک سنگین جرم ہے، جسے نہ تاریخ معاف کرے گی اور نہ داور محشر کی عدالت میں ہم کل بچ پائیں گے۔ انہوں نے کہا کی اب دن کی پوری روشنی میں وادی کے مختلف مقامات پر پوری آزادی سے یہ کام ہورہا ہے اور اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو پھر چشم فلک بھی ہم پر چار آنسو ں بہانے پر آمادہ نہیں ہوگی۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم سب ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں بلاتفریق جٹ جائیں اور نسل نو کی درست تربیت ہم اپنے اُوپر لازم کر لیں۔ دریں اثناء جمعیت کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر عبداللطیف الکندی نے مرکزی جامع اہلحدیث گائوکدل سرینگر میں ہزاروں لوگوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اس موضوع کو چھیڑا کچھ تفاصیل فراہم کیں تو ہر شخص بحر غم میں ڈوب گیا کہ اس کربناک صورت حال کا اگر فوری ادراک نہ کیا گیا تو اللہ نخواستہ تباہی مقدر بن جائے گی اور پھر ہمارا ہر عذر خود ہم پر طنز کرے گا ۔انہوں نے کہا الٰہی اصول ہے کہ جو قوم خود اپنی حالت تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی کوئی غیبی طاقت اسے بدلنے کیلئے نہیں آتی اور تاریخ کا یہ بے لاگ سچ ہے کہ پھر جب اللہ کی دی ہوئی ڈھیل ختم ہوتی ہے تو جہاں آمدہ عذاب و عتاب کے شکار مجرمین ہوتے ہیں وہاں نیک، پارسا اور افعال شنیعہ سے بچنے والے خدا پرست لوگ بھی اس آٹے میں اس لیے گن کی طرح پس جاتے ہیں کہ انہوں نے خلق خدا کی اصلاح کے لیے کوئی کدو کاوش نہیں کی ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ معاشرے کے ہر فرد کیا والدین، کیا اساتذہ، کیا علماء ، کیا دانشوران قوم، کیا عوام و خواص سبھی کو اس تعلق سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہوگا، مدارس کو اس حوالے سے اپنا فریضہ نبھانا ہوگا اور والدین کو اساتذہ کو پورا تعاون فراہم کرنا ہوگا، اخلاقی اور اصلاحی نصاب ہی سیرت سازی کی شاہ کلید ثابت ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک شر کئی جرائم کا دروازہ کھول دیتا ہے، اس لئے شر کو انسانی معاشرے میں پنپنے سے روکنے کے لیے حکیمانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔