کچھ قومیں بہت جلد آزادہوتی ہیں اور کچھ کا سفر طویل ہوجاتا ہے:سید علی گیلانی

سرینگر/کشمیری بزرگ حریت رہنما و حریت کانفرنس (گ) کے چیرمین سیدعلی گیلانی نے’’مسائل کے حل کیلئے شارٹ کٹس کوفضول مشق‘‘قراردیتے ہوئے واضح کیاہے کہ کسی بھی قوم کی جدوجہدِ آزادی ٹائیم باؤنڈ نہیں ہوتی ہے۔انہوں نے اپنے پالیسی بیان میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا سب سے اچھا آئیڈل اور قابل عمل حل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے نفاذ میں مضمر ہے اور اس کے بغیر کوئی بھی فارمولہ اس دیرینہ تنازعے کا پائیدار اور مستحکم حل ثابت ہوسکتا ہے اور نہ اس کے ذریعے سے خطے میں جاری سیاسی غیریقینیت کو ختم کیا جانا ممکن ہے۔
انہوں نے جموں کشمیر، لداخ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ایک جغرافیائی وحدت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ان تمام علاقوں کے 15ملین سے زائد لوگوں کے حقِ خودارادیت کا مسئلہ ہے اور جب تک لوگوں کے اس بنیادی اور پیدائشی حق کو واگزار نہیں کرایا جاتا، کشمیری قوم اپنی جدوجہد کو ہر صورت میں اور ہر قیمت پر جاری رکھے گی۔’
’ولایت ٹائمز‘‘ کوموصولہ بیان میں حریت(گ)چیئرمین سید علی گیلانی نے جدوجہدِ آزادی سے وابستہ تمام قائدین اور کشمیری عوام سے اپیل کہ وہ بانت بانت کی بولیاں بولنے کے بجائے اپنے موقف میں یکسانیت اور استحکام پیدا کرنے کی کوشش کریں اور کسی بھی ایسے فارمولے کی حمایت نہ کریں، جو مسئلہ کشمیر کے تاریخی پسِ منظر اور کشمیری قوم کی غالب اکثریت کی امنگوں اور آرزوؤں کے ساتھ مطابقت نہ رکھتا ہو۔
سید علی گیلانی نے معائدہ تاشقند، شملہ سمجھوتے، لاہور علامیے اور چارنکاتی فارمولہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ شاٹ کٹس (Short Cuts)کے ذریعے سے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے ماضی میں کوئی پیش رفت ممکن ہوسکی ہے اور نہ مستقبل میں اس طرح کی کسی اُچھل کود سے کوئی نتیجہ برآمد ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اسطرح کے کسی بھی عمل کا اعادہ صرف وقت کا زیاں ہوگا اور یہ عمل خطے کی موجودہ غیر یقینی صورتحال کو بدلنے میں کسی بھی طور مددگار ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔
آزادی پسند راہنما نے مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان اور اسکارٹ لینڈ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں لوگوں کے حقِ خودارادیت کا احترام کرنے کا رحجان دن بدن بڑھ رہا ہے اور زور زبردستی اور غنڈہ گردی کا دور ختم ہورہا ہے۔ بھارت اگرچہ آج اپنی ملٹری پاور کے ذریعے سے جموں کشمیر پر جبری قبضے کو جاری رکھنے پر مُصر ہے، البتہ یہ صورتحال بہت جلد ختم ہونے والی ہے اور یہ ملک ہمیشہ اپنے غیر حقیقت پسندانہ اسٹینڈ کو جواز فراہم نہیں کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت دنیا کی بڑی جمہوریہ ہونے کا دعویدار ملک ہے اور یہ سلامتی کونسل کی مستقل ممبرشپ کا امیدوار بھی ہے، البتہ کشمیر کے حوالے سے جو اس کا موقف ہے، وہ اس کے جمہوری دعوے کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور نہ اس کے ہوتے ہوئے اس کی مستقل ممبری والی خواہش کو مناسب سمجھا جاسکتا ہے۔
سید علی گیلانی کے مطابق یہی وہ وقت ہے، جب کشمیری آزادی پسند قیادت اور لوگوں کی طرف سے حوصلے اور دوراندیشی کے مظاہرے کی ضرورت ہے اور انہیں اس موقعے پر اپنے اسٹینڈ میں یکسانیت اور یکسوئی پیدا کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی قوم کی جدوجہدِ آزادی ٹائیم باؤنڈ نہیں ہوتی ہے، کچھ قومیں غیر ملکی تسلط سے بہت جلد آزاد ہوجاتی ہیں، جبکہ بعض کا سفر طویل بھی ہوجاتا ہے۔ برٹش راج کا تذکرہ کرتے ہوئے کشمیری راہنما نے کہا کہ بھارتی عوام نے اگرچہ 1857 سے ہی اس جابرانہ تسلط کے خلاف جدوجہد شروع کی تھی، البتہ اس کو منطقی انجام تک پہنچنے میں برابر 90سال کا عرصہ لگ گیا۔ اس دوران میں کئی ایسے مراحل بھی آئے، جب برٹش راج کے خاتمے کے دور دور تک بھی آثار نہیں دکھائی دیتے تھے، البتہ اس وقت کی قیادت نے حوصلہ ہارا اور نہ اس نے شاٹ کٹس کے ذریعے سے اس گُھتی کو سلجھانے کی کوشش کی۔ آخر وہ وقت بھی آگیا، جب انگریزوں کو اپنا بوریا بسترہ یہاں سے گول کرنا پڑا اور وہ لوگوں کی خواہش کو ہمیشہ کے لیے دبانے میں کامیاب نہیں ہوگئے۔ سید علی گیلانی نے کہا کہ عین یہی صورتحال یہاں بھی پیدا ہوجائے گی اور بھارت کو ایک دن کشمیریوں کی رائے کا احترام کرنے کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دوسری صورت میں اس ملک کا جمہوری دعویٰ پوری دنیا کے سامنے ایکسپوز ہوجائے گا اور اس کی اعتباریت داؤ پر لگ جائے گی۔ سید علی گیلانی نے کہا کہ اس مرحلے پر ہماری طرف سے آوٹ آف بکس حل کا تذکرہ مناسب نہیں ہے اور یہ صرف اور صرف بھارت کے غیر حقیقت پسندانہ روئیے کو تقویت پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے۔