سرینگر/ ولایت ٹائمز ڈیسک/انڈین کشمیر میں ریاست کی خود مختاری ختم کرنے کے حکومتی فیصلے کے بعد کشمیریوں نے سکیورٹی فورسز پر مارپیٹ اور تشدد کے الزامات عائد کیے ہیں۔کئی دیہاتیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں لاٹھیوں اور بھاری تاروں سے مارا گیا اور بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔
ہمیں کئی دیہاتیوں نے اپنے زخم بھی دکھائے ہیں۔ تاہم بی بی سی حکام کی طرف سے ان الزامات کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
انڈیا کی فوج نے ان الزامات کو ’بے بنیاد اور غیر مُصدقہ‘ قرار دیا ہے۔
’’ولایت ٹائم‘‘نے نقل کیا ہے کہ سمیر ہاشمیبی بی سی نیوز، کشمیر کی رپورٹ کے مطابق شدید ترین پابندیوں نے کشمیر کو تین ہفتوں سے بھی زائد عرصے سے لاک ڈاؤن کی صورتحال میں دھکیل دیا ہے اور 5 اگست کو جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے اندرونی حالات سے متعلق معلومات بمشکل باہر آ رہی ہیں
خطے میں ہزاروں اضافی فوجیوں کو تعینات کیا گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق سیاسی رہنماؤں، کاروباری شخصیات اور کارکنان سمیت تقریباً 3000 افراد کو زیرِ حراست رکھا گیا ہے۔ کئی افراد کو ریاست کے باہر موجود جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق یہ اقدامات حفاظتی نوعیت کے ہیں اور علاقے میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے کیے گئے ہیں۔ جموں و کشمیر مسلمان اکثریت رکھنے والی انڈیا کی واحد ریاست تھی لیکن اب اسے دو الگ حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جو وفاق کے زیر انتظام ہوں گی۔
انڈین فوج کو یہاں تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے علیحدگی پسند جدوجہد کا سامنا ہے۔ انڈیا پاکستان پر خطے میں عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کے ذریعے تشدد کو ہوا دینے کا الزام لگاتا ہے تاہم کشمیر کا ایک حصہ کنٹرول کرنے والا اس کا پڑوسی ملک پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
انڈیا میں کئی افراد نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کی حمایت کی ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی کے اس ’نڈر‘ فیصلے پر ان کی تعریف کی ہے۔ انڈیا کے مرکزی دھارے کے میڈیا نے بھی اس فیصلے کی بھرپور حمایت کی ہے۔
تنبیہ: نیچے دیا گیا مواد کچھ قارئین کے لیے تکلیف دہ ہوسکتا ہے
میں نے کشمیر کے جنوبی اضلاع کے کوئی آدھ درجن دیہاتوں کا دورہ کیا۔ یہ وہ علاقے ہیں جو گذشتہ کچھ برسوں سے انڈیا مخالف عسکریت پسندی کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ میں نے ان تمام دیہاتوں میں کئی لوگوں سے رات گئے چھاپوں، مارپیٹ، اور تشدد کی ملتی جلتی کہانیاں سنی ہیں۔
ڈاکٹرز اور محکمہ صحت کے حکام صحافیوں سے کسی بھی مریض کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتے، چاہے انھیں کوئی بھی بیماری ہو۔ لیکن دیہی علاقوں میں رہنے والوں نے مجھے اپنے زخم دکھائے اور ان کا الزام سکیورٹی فورسز پر لگایا ہے۔
ایک گاؤں میں دیہاتیوں کا کہنا تھا کہ انڈیا کی جانب سے اپنے زیرِ انتظام کشمیر اور دہلی کے درمیان خصوصی انتظام کو ختم کرنے کے متنازع فیصلے کے چند گھنٹوں بعد ہی فوج گھر گھر گئی۔
دو بھائیوں کا الزام تھا کہ انھیں جگایا گیا اور باہر ایک علاقے میں لے جایا گیا جہاں ان کے گاؤں کے تقریباً ایک درجن دیگر مرد بھی جمع تھے۔ ہم جس سے بھی ملے، ان کی طرح یہ لوگ بھی اپنی شناخت ظاہر ہونے پر سنگین نتائج کے خوف کا شکار تھے۔
ان میں سے ایک نے بتایا ’انھوں نے ہمیں مارا۔ ہم ان سے پوچھتے رہے ’ہم نے کیا کیا ہے؟ آپ گاؤں والوں سے پوچھ لیں اگر ہم نے کچھ غلط کیا ہے؟‘ مگر وہ کچھ بھی سننا نہیں چاہتے تھے اور انھوں نے کچھ بھی نہیں کہا، وہ بس ہمیں مارتے رہے۔‘
’انھوں نے میرے جسم کے ہر حصے پر مارا پیٹا۔ انھوں نے ہمیں لاتیں ماریں، ڈنڈوں سے مارا، بجلی کے جھٹکے دیے، تاروں سے پیٹا۔ انھوں نے ہمیں ٹانگوں کی پچھلی جانب مارا۔ جب ہم بے ہوش ہو گئے تو انھوں نے ہمیں ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے۔ جب انھوں نے ہمیں ڈنڈوں سے مارا اور ہم چیخے تو انھوں نے ہمارے منہ مٹی سے بھر دیے۔
ہم نے انھیں بتایا کہ ہم بے قصور ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ یہ کیوں کر رہے تھے؟ مگر انھوں نے ہماری ایک نہ سنی۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم پر تشدد نہ کریں، بس ہمیں گولی مار دیں۔ میں خدا سے موت کی دعا کر رہا تھا کیونکہ یہ تشدد ناقابلِ برداشت تھا۔‘
ایک اور نوجوان دیہاتی نے کہا کہ سکیورٹی اہلکار ان سے کہتے رہے ’پتھراؤ کرنے والوں کے نام بتاؤ‘۔ ان کا اشارہ ان عموماً نوجوان اور نوعمر لڑکوں کی جانب تھا جو گذشتہ ایک دہائی سے وادی کشمیر میں سویلین مظاہروں کا چہرہ بن چکے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ انھوں نے سپاہیوں سے کہا بھی کہ وہ کسی کو نہیں جانتے، جس پر انھیں عینک، کپڑے اور جوتے اتارنے کے لیے کہا گیا۔
’جب میں نے کپڑے اتارے تو انھوں نے تقریباً دو گھنٹے تک مجھے بے رحمی سے ڈنڈوں اور سلاخوں کے ساتھ پیٹا۔ جب میں بے ہوش ہو گیا تو انھوں نے مجھے ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے۔‘
انھوں نے کہا ’اگر انھوں نے میرے ساتھ یہ دوبارہ کیا تو میں کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ میں بندوق اٹھاؤں گا۔ میں یہ روز روز برداشت نہیں کر سکتا۔‘
ان نوجوان نے مزید بتایا کہ سپاہیوں نے گاؤں میں سب کو خبردار کرنے کے لیے کہا کہ اگر کسی اور نے بھی فورسز کے خلاف مظاہروں میں شرکت کی تو انھیں ایسے ہی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ہم نے تمام دیہاتوں میں جتنے بھی لوگوں سے بات کی، ان کا ماننا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے یہ دیہاتیوں کو ڈرانے کے لیے کیا تاکہ وہ احتجاج کرنے سے خوف زدہ رہیں۔
بی بی سی کو دیے گئے ایک بیان میں انڈیا کی فوج نے کہا ’الزامات کے برعکس اس نے کسی شہری کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا ہے۔‘
فوج کے ترجمان کرنل امن آنند نے کہا ’اس نوعیت کے کوئی بھی الزامات ہمارے نوٹس میں نہیں لائے گئے ہیں۔ یہ الزامات ممکنہ طور پر دشمن عناصر کی جانب سے پروان چڑھائے گئے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ سویلینز کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھائے گئے تھے مگر ’فوج کی جانب سے جوابی اقدامات کے نتیجے میں کوئی زخمی یا ہلاک نہیں ہوا ہے۔‘
ہم کئی دیہات سے گزرے جہاں کے زیادہ تر رہائشی علیحدگی کے حامی عسکریت پسند گروہوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اور انھیں ‘جنگجوئے آزادی’ قرار دیتے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے اس حصے میں ہی ایک ایسا ضلع ہے جہاں فروری میں ہونے والے ایک خودکش حملے نے 40 سے زائد انڈین فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا اور پاکستان اور انڈیا کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔
یہی وہ خطہ ہے جہاں مشہور کشمیری عسکریت پسند برہان وانی سنہ 2016 میں ہلاک ہوئے تھے، جس کے بعد کئی نوجوان اور غصیلے کشمیریوں نے انڈیا کے خلاف مزاحمت میں حصہ لیا۔
اس خطے میں ایک فوجی کیمپ ہے اور سپاہی یہاں باقاعدگی سے چھاپے مارتے ہیں تاکہ عسکریت پسندوں اور ان کے ہمدردوں کا پتا چلایا جا سکے، مگر دیہاتی کہتے ہیں کہ وہ اکثر ان کے بیچ میں پھنس جاتے ہیں۔
ایک دیہات میں میری ملاقات 20 کے پیٹے میں موجود ایک شخص سے ہوئی جس نے کہا کہ فوج نے انھیں دھمکی دی تھی کہ اگر وہ عسکریت پسندوں کے خلاف مخبر نہ بنے تو انھیں پھنسا دیا جائے گا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ان کے انکار پر انھیں اس بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی وہ کمر کے بل لیٹ نہیں سکتے۔
ان کا کہنا تھا ’اگر یہ جاری رہا تو میرے پاس اپنا گھر چھوڑ دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ وہ ہمیں ایسے مارتے ہیں جیسے جانوروں کو مارا جاتا ہے۔ وہ ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتے۔‘
ہمیں اپنے زخم دکھانے والے ایک اور شخص نے کہا کہ ’15 سے 16 سپاہیوں‘ نے انھیں زمین پر گرایا اور ’تاروں، بندوقوں، ڈنڈوں اور شاید فولادی سلاخوں سے‘ بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔
’میں نیم بے ہوش تھا۔ انھوں نے میری داڑھی اس بری طرح سے کھینچی کہ مجھے لگا جیسے میرے دانت باہر گر پڑیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ان پر ہونے والا تشدد دیکھنے والے ایک لڑکے نے انھیں بتایا کہ ایک فوجی نے ان کی داڑھی جلانے کی کوشش کے تھی مگر دوسرے فوجی نے انھیں روک دیا تھا۔
ایک دوسرے گاؤں میں میری ملاقات ایک اور نوجوان سے ہوئی جنھوں نے کہا کہ ان کے بھائی نے دو سال قبل کشمیر پر انڈیا کی حکومت کے خلاف لڑنے والے سب سے بڑے گروہوں میں سے ایک حزب المجاہدین میں شرکت اختیار کر لی تھی۔
انھوں نے کہا کہ حال ہی میں ان سے ایک فوجی کیمپ میں تفتیش کی گئی تھی جہاں انھوں نے الزام لگایا کہ ان پر تشدد کیا گیا تھا اور ایک ٹانگ توڑ دی گئی تھی۔
وہ کہتے ہیں ’انھوں نے میرے ہاتھ باندھ دیے اور مجھے الٹا لٹکا دیا۔ انھوں نے مجھے دو سے زائد گھنٹوں تک شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔‘
مگر انڈیا کی فوج ان تمام الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
بی بی سی کو دیے گئے ایک بیان میں انھوں نے کہا وہ ‘ایک پیشہ ور ادارہ ہے جو انسانی حقوق کو سمجھتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں‘ اور یہ کہ تمام الزامات کی ’فوری تفتیش‘ کی جاتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این ایچ آر سی) کی جانب سے پچھلے پانچ برسوں میں اٹھائے گئے 37 کیسز میں سے 20 بے بنیاد تھے، 15 میں تحقیقات جاری ہیں اور ’صرف تین کیسز میں الزامات کو قابلِ تفتیش پایا گیا۔‘ بیان میں کہا گیا کہ قصوروار پائے جانے والوں کو سزا دی جاتی ہے۔
مگر اس سال کے آغاز میں کشمیر کی دو نمایاں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ تین دہائیوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سینکڑوں مبینہ کیسز کو قلمبند کیا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی جامع اور آزادانہ بین الاقوامی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن آف انکوائری تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس نے خطے میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے مبینہ زیادتیوں کے بارے میں ایک 49 صفحوں پر مشتمل رپورٹ بھی جاری کی ہے۔
انڈیا نے ان الزامات اور اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔بشکریه بی بی سی