کانگری کشمیر کا ہر گوشہ اپنی مظلومیت اور بے بسی ظاہر کرتی رہتی ہے ، یہاں کے قدرتی مناظر اپنی شان بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ویرانی کی داستاں بھی سناتے ہیں ، یہاں کے آبشار ، یہاں کے باغات و جنگلات ، یہاں کی صنعت ، یہاں کی حرفت، یہا ں کی ثقافت ، یہاں کی گرمی ، یہاں کی سردی، ہر ایک اپنی شان بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے درباریوں کے فضل و کرم سے اپنی مظلومیت بھی بیان کرتے رہتے ہیں۔ کشمیر جو کہ آب ہوا کے اعتبار سے سرد سیر علاقہ ہے لیکن یہ دنیا کا واحد ملک نہیں کہ جہاں پر سردی زیادہ ہوتی ہے ، دنیا بھر میں سرد سیر علاقے بہت ہیں اور ان سرد علاقوں میں رہنے والے ارباب اقتدار نے عوام کو سردی سے نجات دلانے کیلئے منصوبہ بند عمل اختیار کیا ہوا ہے جس میں آئے روز بہتری لائی جاتی ہے مگر کشمیر اس میں بھی الگ ہے دنیا اگر آگ بڑتی ہے بڑھنے دیجئے ہم تو بہت ذہین اور قابل لوگ ہیں ہم پیچھے چل کر اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم صدیوں سے کانگری کا استعمال کرتے آئیے ہیں اگر چہ ہمیں اس سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونا پڑے ،سستے سے گراں قیمت اشیاء تک کو، ہر سال اسکے نذر کرنا پڑے ، شاز و نادر کے طور کسی ایک کا کپڑا اسکے جلنے سے محفوظ رہ سکے مگر پھر بھی اس میں بہتری اور چارہ جوئی نہیں کریں ہے۔ کیونکہ ہم کشمیری ہیں۔غلام ہیں ، آزاد نہیں۔
خدا بہشت بریں عطا کرے اس انسان کو جس نے کانگری کو ایجاد کرکے مظلوم کشمیری عوام کی خدمت انجام دے کر صدقہ جاریہ اپنے لئے فراہم کیا ہے۔ کانگری سے جس قدر سردیوں میں خدمات حاصل کئے جاتے ہیں یہ ایک مثالی امر ہے البتہ وقت گذرنے کے ساتھ اسکے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے مضر اثرات کا پلا بھاری نظر آتا ہے۔ جب اس کانگری کو ایک ایجاد کے طور پر دیکھیں تو ایک قابل قدر ایجاد ہے البتہ ہر انسانی ایجاد میں وقت کے ساتھ ساتھ اس میں ارتقا بھی دیکھنے کو ملتا ہے جوکہ ہماری کانگری میں نہیں پایا جاتا ہے ، اس کے کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہم میں اپنے مفادات دیکھنے سے زیادہ غیروں کے مفادات کا خیال رکھنے کی ترغیب و تربیت ہوتی چلی آرہی ہے ، ہمیں آزادی کے نام پر غلامی سکھائی جاتی ہے اور ترقی کے نام پر پسماندہ رکھا جاتا ہے ،یہ سلسلہ کب شروع ہوا اور اس کے محرکات کیا ہیں اس پر کبھی اور بحث کی جاسکتی ہے۔ اس وقت ایک ہی پہلو کی طرف نظریں دوڑایں گے کہ کانگری کا استعمال اگر چہ صدیوں سے کشمیر میں چلا آرہا ہے اور کشمیر کی علامت ہے۔ کیا اس میں وقت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ بدلاو کی ضرورت نہ تھی ، کیا اس نے کشمیری عوام میں جمود اور کہالت پیدا نہیں کیا ہے، کنہی کانگری کی طرف عدم توجہی کا سبب سیاسی تو نہیں جو کہ عوامی زندگی کے ساتھ منسلک ہے۔
کیا سردی سے بچنے کیلئے دنیا کے معیار کے مطابق زندگی بسر کرنا کشمیریوں کا حق نہیں بنتا۔مثال کے طور اگر یہاں گاف کورس بنانا ہو، ٹولپ کا باغ بنانا ہو ، سیاحوں کے لئے جاذب نظر بنانے کیلئے کوئی بھی کام کرنا ہو اسکے لئے دنیا کی پیش رفت کا حوالہ دے کر موازنہ کیا جاتا ہے دنیا کے معیار کو ملاک رکھا جاتا ہے، لیکن موسم سرما سے بچنے کے لئے عوامی حالت زار کے بارے میں نہ دنیا سے موازنہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے نہ عوام کی ضروریات کا عادلانہ اور عاقلانہ راہ حل فراہم کرنا لازم سمجھا جاتا ہے۔ سردی کے آتے ہیں ، درباری لوگ گرمی کی طرف دوڑتے ہیں اور وہاں جب گرمی ستائے تو واپس لوٹ آتے ہیں۔ کیونکہ سردی درباریوں کو نہیں چھونی چاہئے۔ویسے بھی کشمیری عوام کوہمیشہ حقیر تصور کیا جاتا ہے۔
کشمیری عوام تو بس تجوریاں بھرنے کا وسیلہ ہے ، اس کے بغیر اسکی کوئی اوقات نہیں اور ایسا غیر نہیں سوچتے بلکہ وہی کشمیری جو عمر بھر یہی عمومی سختیاں جھیلتا رہا اور اب جب کسی حد تک رفاہ اور آرام کی زندگی کرنے لگا ہے یا دربار کے صفوں میں شامل ہوا ہے کشمیری عوام کی ہر سختی کو بھول کراپنا الو سیدھا کرنے لگتا ہے اور خود کو عقلمند اور دوسروں کو بیوقوف تصور کرنے لگتا ہے۔ ایسے افراد کو کشمیر کی مظلوم عوام تب یاد آتے ہیں جب مال و متاع کا کوئی بڑا لقمہ حلق سے اْتارنا ہو تو عوام میں آکر عوام دوستی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ جب ان کے پیچھے پیچھے چل کر عوام زندہ باد ، زندہ باد کہتی نظر آئے تو کشمیری عوام کی ہر اعتبار سے داد تحسین دیتے ہیں اور جب وہی عوام ان کے کسی اقدام کو زیر سوال لاتے ہیں یا اپنے کسی ایک حق کی مانگ کرے تو اسے تحقیر کیا جاتا ہے۔ غرض کشمیری عوام مجموعی طور مظلوم ہے۔
قوموں میں انفرادی اور اجتماعی رجحان کا عمل ہر میدان میں حاکم ہوتا ہے انفرادی سطح کی ہر وہ حرکت ، جو اجتماعی سطح تک پہنچنے سے قاصر رہے وہ عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔یہاں سردیوں سے بچنے کیلئے انفرادی سطح پر جو اقدام ہوتے ہیں ان میں اجتماعی سطح تک پہنچنے کیلئے بہت زیادہ فنی مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ان میں اجتماعی رجحان کا فقدان ملتا ہے جبکہ سردی کے حوالے سے یہاں حمام کا بھی رسم ہے اور بخاری کا بھی چلن ہے لیکن ہر دو مخصوص طبقوں میں استعمال ہوتی ہے لیکن کانگری کسی بھی طبقے کیلئے مخصوص نہیں ہے۔ البتہ یہ بات غور طلب ہے کہ مخصوص اور محدودیت کے ساتھ استعمال میں آے والے حمام میں روز بہ روز ارتقا دیکھنے کو ملتا ہے اور بخاری جو کہ متوسط طور استعمال میں لائی جاتی ہے اس میں بھی ارتقاء اور پیش رفت نظر آتی ہے مگر کانگری جو کہ کسی بھی محدویت کے ساتھ ، ہر طبقے میں استعمال میں آتی ہے اس کے بارے میں کسی بھی قسم کا بدلاو نظر نہیں آتا۔
کیوں ، کیوں کہ یہ یہاں کے عوام کو ضرورت ہے ، غیروں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے ، اس لئے یہ کانگری بھی اپنی صدیوں پرانی شکل کے ساتھ ابھی تک موجود ہے اور اسکے استعمال میں آنے کی رسم بھی اپنے آب وتاب کے ساتھ زندہ اور صدا بہار ہے ، اگرچہ اسکے استعمال سے بہت زیادہ مضر اثرات اور عمومی نقصانات بھی لاحق ہوتے ہیں اسلئے اور بھی ضروری بنتا ہے کہ یہ کانگری معاشرے کا ’’جز لاینفق‘‘ بنا رہے کیونکہ ان مضر اثرات سے سب سے زیادہ متاثر یہاں کا پسماندہ طبقہ ہوتا ہے جو کہ یہاں کی حالت بدلنے میں نمایاں رول ادا کرسکتا ہے اسلئے غیر شعوری طورانہیں نا تواں ہونے کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ کہ شکر ہے کہ کانگری تو ملتی ہے ، شکر ہے کہ بجلی کبھی کبار نظارہ دکھاتی ہے ، شکر ہے کہ سڑکیں ہیں ، سکول ہیں ، کالیج ہیں۔ شکر کرو کہ وغیرہ و و و۔۔۔ ہر نعمت پر شکر کرنا مسلمانی عمل ہے لیکن یہاں پہلے درباریوں کو عوامی خدمت انجام دے کرشکر کے مرحلے تک پہنچنا ہے تب جا کر عوام کے شکر کا مرحلہ آپہنچتا ہے۔
جبکہ، عوام کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں پھر بھی شکرانہ بجا لانا ہے۔سردیوں میں بجلی اور انرجی کا مناسب اور مطلوب نظام فراہم نہ کرنے پر کانگری کو پھرن میں لے کر اپاہچ کے مانند رہنے پر شکر کرنا ہے۔ اس کانگری سے ہماری بے بسی اور بے کسی کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ ہم بابا آدم کے زمانے کے لوگ ہیں۔ دنیا بھر کے سرد علاقوں کی طرف جب نظر کرتے ہیں، جہاں یہاں سے بہت زیادہ سردی ہوتی ہے وہ کس طرح زندگی کرتے وہ ہم سے زیادہ متحرک اور فعال ہیں۔ کیونکہ ان پر نہ ہی ہندوستان جیسا ملک نہ ہی پاکستان جیسا ملک مسلط ہے اور نہ ہی وہ خود اتنے ناداں ہیں کہ اپنے مفادات کو بھول کر دوسروں کے تلوے چاٹتے رہیں۔ وہ آزاد ہیں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے خود منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ کس کو فکر لاحق ہوگی کہ ان سردیوں میں عوام کے گھروں اور کام کے مکانوں میں گرمی فراہم ہو، تا کہ وہ اپنے وقت کا مناسب استعمال کر سکیں۔اب جب درباریوں کو اس کی فکر نہیں ، تو کیوں نہ ہم خود اسکے بارے میں فکر کریں۔شکر ہے کہ کانگری کے خلاف ابھی تک عالمی ادارے میں کو ئی قرارداد پیش نہ ہو ئی جو اس کے استعمال کو یہ کہہ کر بین الاقوامی سطح پر بندش کی سفارش کر تے کہ اس کے استعمال سے کبھی کبھار کشمیر ی مظلوم وہ کام لیتے ہیں جو ایٹم بم بھی کر نے سے قاصر ہیں۔
کیوں نہ ہم راہ چلتے وقت کانگری کو پھرن کے نیچے رکھنے کے بجائے باہر نکال کر ہاتھوں میں لے کر چلا کریں اور بیٹھتے وقت پھرن کے نیچے رکھا کریں جس سے ہم اپنے آپ کو گرم بھی رکھ سکتے ہیں اور دیکھنے والوں کے لئے اپنے پسماندگی کا مظاہرہ بھی کرسکتے ہیں۔ باہر سے ہر دیکھنے والے کیلئے سوال پیدا ہو جائے یہ کشمیری لوگ ہاتھوں میں کیا لے کر پھرتے ہیں، جس سے معلوم پڑے گا کہ کس قدر عوام کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے اور جب کوئی ہمارے حقوق کی آواز کو دبانا چاہے اس پر اسی کانگری سے وار کرکے اپنے غصے کا مظاہرہ کریں ، نہ گرنیڈ کی ضرورت ہے نہ کلاشنکوف کی ، ہم اپنی ہر جنگ اپنے ہتھیاروں سے مظلومیت کے ساتھ لڑیں گے۔
ڈائریکٹر عالمی خبر رساں ادارہ نیوز نور
agaabdulhussain@gmail.com