تعلیم ایک انسان کو ظلمت کدے سے نکال کر روشنی کی دنیا میں لاتی ہے، تعلیم غیر انسانی اور غیر اخلاقی اقدارو اطوار کیلئے مثل نشتر ہے ، تعلیم درندگی ، جہالت ، بد اخلاقی اور بد کرداری کی بیخ کنی کا بہترین ہتھیار ہے ۔ تعلیم ایک انسان کو معراج انسانی کراتی ہے ۔ اور ایک انسان کو انسانی خصائل سے آراستہ وپیراستہ کراتی ہے ، غرض کہ تعلیم انسان کو ایک ایسا انسان بناتی ہے کہ جس کو اشرف المخلوقات کے خطاب سے نوازاگیا ہے ۔
محمد افضل بٹ
تعلیم کی اہمیت و افادیت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، تعلیم پر ہی ایک معاشرے کی ہمہ گیر وہمہ جہت تعمیر وترقی کا انحصار ہے ، لیکن تعلیم کا مقصد فقط حصول روزگار نہیں بلکہ ا نسان کو حقیقی معنوں میں انسان بنانا تعلیم کا بنیادی اور منتہائے مقصد ہے ، تعلیم محض مختلف شعبہ ہائے حیات میں ترقی کانام نہیں ہے بلکہ تعلیم انسان کے فہم وادراک ، عقل وشعور کی بتدریج ترقی کا موثر ذریعہ ہے ، تعلیم صرف بعض مضامین میں امتیازی مقام حاصل کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ تعلیم اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے اور اپنے وجود کے اندر پنہاں انسانی اور اخلاقی خصائل کو اجاگر کرنے کا نام ہے ،۔
تعلیم ایک انسان کو ظلمت کدے سے نکال کر روشنی کی دنیا میں لاتی ہے، تعلیم غیر انسانی اور غیر اخلاقی اقدارو اطوار کیلئے مثل نشتر ہے ، تعلیم درندگی ، جہالت ، بد اخلاقی اور بد کرداری کی بیخ کنی کا بہترین ہتھیار ہے ۔ تعلیم ایک انسان کو معراج انسانی کراتی ہے ۔ اور ایک انسان کو انسانی خصائل سے آراستہ وپیراستہ کراتی ہے ، غرض کہ تعلیم انسان کو ایک ایسا انسان بناتی ہے کہ جس کو اشرف المخلوقات کے خطاب سے نوازاگیا ہے ۔
عصر حاضر میں تعلیم کا کافی زور وشور ہے ۔ ہر سو خواہ وہ شہر ہوں یا دیہات ، تعلیم وتعلم کا خاصا چرچا ہے ۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں ، یونیورسٹیوں ، کالجوں ، کی تعداد میں ہر سال خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے ، اور سرکاری و نجی سطح پر اسکولوں کی بہتات ہے ۔ جن میں لاکھوں طلبا و طالبات تحصیل علم کرنے میں مشغول ہیں ۔ اس کے علاوہ بیشمار کوچنگ سینٹروں ، جو ہر گلی اور کوچے میں قائم ہیں ، میں ہزاروں طالبات کا مزید تحصیل تعلیم کیلئے تانتا بندھا رہتا ہے ، تاکہ اپنے پسندیدہ میدانوں میں بازی مار سکیں ، اور سرکاری سطح پر بھی جملہ تعلیمی اداروں میں بہتر سے بہتر سیلیبس کی ترتیب وتدوین کی جاتی ہے طلبا جملہ علوم میں امتیازی شان حاصل کر سکیں ۔ نیز طلبا کو عصری علوم سے کماحقہ بہرہ ور ہونے پر تمام تر وسائل بروئے کار لانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جارہا ہے ۔ بہترین معالج ، بہترین انجینئر ، بہترین اساتذہ اور بہترین افسران کو تیار کرنے پرتمام تر توجہ مرکوز کی جارہی ہے ۔ جو انتہائی خوش آئند بھی ہے اور معاشرے کی اہم ترین ضرورت بھی ۔لیکن ایک انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنانے کا نہ ہی کوئی ادارہ ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا بندوبست ، مقام حسرت و افسوس ہے کہ نہ صرف ہمارے تعلیمی ادارے بلکہ والدین بھی اپنے بچوں کو بڑے بڑے ڈاکٹرس ،انجینئرس ، یا افسران بنانے پر دن رات ایک کرتے ہیں لیکن شاید ہی کوئی ایسا والد ہوگا جس کو اپنے بچے کو بہترین انسان بنانے کی فکر دامن گیر ہوگی ، بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کا داخلہ کرنے کیلئے والدین سرتوڑ کوشش کرتے ہیں ، اپنی جمع پونجی صرف کرتے ہیں ، اپنے تمام تر اثر ورسوخ کو بروئے کار لاتے ہیں ، ان کی ایک اہم ذمہ داری بھی ہے ، تاکہ اپنے بچے کو اعلیٰ تعلیم اور معیاری تعلیم سے آراستہ وپیراستہ کرسکیں لیکن ان کی اخلاقی و انسانی تربیت کیلئے نہ ہی کوئی خاص فکر کررہے ہیں اور نہ کوئی خاصاانتظام کر کے پیسہ خرچ کرتے ہیں ۔ ہمارا حال تو اب یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو فرفر کر انگریزی یا اردو بولتے اور جدید لباس وحلیہ میں دیکھ کر فخر وانبساط محسوس کرتے ہیں ، بلکہ اپنے بچے کو بڑے اسکول میں داخل کرانا اورا س کو اردو یا انگریزی میں بات کرانا اب ایک فیشن اور محلے اور معاشرے میں ایک وقار بن گیا ہے جبکہ سادگی اور اسلامی آداب کے مطابق اپنے بچوں کو سنوارنا کرشان سمجھا جاتا ہے۔
خیر ہمارے تعلیمی اداروں میں اخلاقی تعلیم وتربیت کے فقدان کا ہی نتیجہ ہے کہ ان اداروں سے ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں اعلیٰ تعلیمی سندیں لیکر تو نکلتے ہیں لیکن شاید ہی کوئی اخلاقی اقدار سے سرشار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس قدر تعلیم کے زور وشور کے باوجود نت نئے غیر اخلاقی مسائل پیداہورہے ہیں ہر دن اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی طرف ایسے کارنامے اخباروں کی شہ سرخیاں بن جاتے ہیں کہ جنہیں پڑھ کر ہر ذی شعور انسان شرمسار ہوجاتا ہے ۔یہ تعلیم یافتہ افراد نہ صرف اپنے پیشوں کے ساتھ نا انصافی کرتے ہیں جیسے ڈیوٹی سے غیرحاضر ہوتے ہیں ، رشوت لیکر احمد کی ٹوپی محمد کے سر پر رکھتے ہیں ، ڈیوٹی اوقات کے دوران پرائیوٹ پریکٹس یا پرائیوٹ ٹیوشن کرتے ہیں بلکہ غیر اخلاقی کاموں کے تمام ریکارڑ توڑ کر اپنے ما تحت یا ہم پیشہ خواتین کے ساتھ دست درازی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں ۔ کس قدر مقام حسرت ہے کہ ہماری اس پیرء وار میں بھی دفتروں یا دوسری جگہوں پر خواتین کے ساتھ دست درازی کا گراف تشویش ناک حد تک بڑھ گیا ہے ۔
حال ہی میں رتنی پورہ میں ایک بنک ملازم نے ایک کمسن طالبہ کے ساتھ زیادتی کی جس کی وجہ سے وہ کمسن طالبہ از جان ہوئی ، اور گذشتہ ہفتہ ہی ا ودھم پور کے ڈپٹی کمشنر کی دو لڑکیوں کے ساتھ قابل اعتراض تصویریں وائریل ہوئیں ، اور نہ جانے کتنے ان سے بھی زیادہ سنگین نوعیت کے واقعات وقوع پذیر ہورہے ہوں گے جو منظر عام پر نہیں آرہے ہوں گے ، جنہیں ہماری مائیں ، بہنیں چپ چاپ بدنامی یا کسی دوسری وجہ سے برداشت کررہی ہوں گی۔
ان تشویش ناک حالات کی روشنی میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں ا خلاقیات کو لازمی مضمون کے بطور پڑھا یا جائے ، اخلاقی تعلیم و تربیت کیلئے بھی دیگر مضامین کی طرح مخصوص کورسز اور نشستوں کا انتظام کیا جائے ، اعلیٰ اخلاقی اقدار سے سر شار طلباء کو انعامات سے نوازا جائے ، نوکریوں کے حصول کیلئے اخلاقیات کے بھی خاص پوئینٹس مقرر کیے جائیں اور والدین کی خاص طور پر ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت کیلئے بھی خاص طور پر متفکر رہیں ، تب ممکن ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ رجحان کسی حد تک زوال پذیر ہوسکتا ہے ۔
مقالہ نگار ’’ولایت ٹائمز‘‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر اور پارس آباد بڈگام سے تعلق رکھتے ہیں۔