اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی معاشی جدوجہد:ایک قومی سرمایہ کے ضیاع کی کہانی

گزشہ چند مہینوں میں ہماری وادی کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے کئی پی ایچ ڈی اسکالرز کی کہانیاں منظرِ عام پر آئیں، جنہیں خشک میوہ جات، جوس اور دیگر اشیاء ریڑھیوں پر بیچتے ہوئے دیکھا گیا۔ ان کہانیوں نے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر خاصی توجہ حاصل کی۔

از قلم:عابد حسین راتھر

گزشہ چند مہینوں میں ہماری وادی کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے کئی پی ایچ ڈی اسکالرز کی کہانیاں منظرِ عام پر آئیں، جنہیں خشک میوہ جات، جوس اور دیگر اشیاء ریڑھیوں پر بیچتے ہوئے دیکھا گیا۔ ان کہانیوں نے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر خاصی توجہ حاصل کی۔ اگرچہ ان معاملات کو ہمت، استحکام اور محنت کی مثالوں کے طور پر پیش کیا گیا، اور نوجوان اسکالرز کے انتخاب کو ایک تحریک کے طور پر دیکھا گیا۔ تاہم، اس بہادری کی ظاہری چمک کے پیچھے ایک تلخ حقیقت چھپی ہوئی ہے جو حکومت کی انسانی وسائل کو مؤثر طور پر استعمال کرنے میں ناکامی کی عکاسی کرتی ہے، کیونکہ یہ اسکالرز اپنی مرضی سے ایسے معمولی کام نہیں کر رہیں ہیں بلکہ کچھ مجبوریاں انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ یہ صورتحال انفرادی عزم و استقلال کی کہانی کے بجائے ہماری حکومت کے انتظامیہ نظام کی کمزوریوں، معاشی بدحالی، اور تعلیم یافتہ نوجوانوں خصوصاً تحقیق کے میدان میں مہارت رکھنے والے افراد کے لیے مواقع کی کمی پر سنجیدہ سوالات اٹھاتی ہے۔

جب پی ایچ ڈی اسکالرز، جو اپنے علم کے کسی خاص میدان میں مہارت حاصل کرنے کے لیے کئی سال گزارتے ہیں، اپنی بقاء کے لیے ریڑھیوں پر خشک میوہ جات اور دیگر اشیاء بیچتے نظر آتے ہیں، تو عوام کا ابتدائی ردعمل حیرت اور غلط طور پر تعریف کے درمیاں گردش کرتا ہے۔ بہت سے لوگ ان اسکالرز کی استقامت اور حوصلے کی تعریف کرتے ہیں اور انہیں مشکلات کے باوجود ہار نہ ماننے کی مثال قرار دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ کہانیاں زیادہ تشویشناک ہیں۔ تعلیمی اسکالرز کو ایسے معمولی کاموں پر مجبور کرنا کسی طور بھی تحریک دینے والا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے حکومتی نظام کی وہ ناکامی ہے جس کی وجہ سے ہمار قیمتی انسانی وسائل ضائع ہو رہیں ہیں کیونکہ ہماری حکومت اپنے سب سے اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں ابھی تک قاصر ہے۔

پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا کوئی معمولی اور آسان کام نہیں ہے۔ یہ کام ایک سخت تعلیمی عزم، کئی سالوں کی تحقیق، اور علم کے حصول کے لیے انتھک لگن کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک اسکالر کسی انتہائی مخصوص موضوع پر کام کرتا ہے اور ایک ایسی تحقیق پیش کرتا ہے جو کسی خاص علمی میدان یا مضمون کی اجتماعی سمجھ میں اضافہ کرتی ہے۔ بہت سے معاملات میں، پی ایچ ڈی اسکالرز مالی اور ذاتی قربانیاں دیتے ہیں جیسے کہ ازدواجی زندگی کو مؤخر کرتے ہیں، قرضوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، اور تحقیق کے غیر یقینی سفر کو جھیلتے ہیں۔

اس پس منظر میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ یہ اسکالرز، اپنی محنت سے حاصل کردہ مہارتوں سے لیس ہو کر معاشرے میں نمایاں کردار ادا کریں گے۔ وہ محقق بن سکتے ہیں جو اختراع اور ایجادات کی حدود کو بڑھا سکتے ہیں، حکومتی پالیسیوں کے تجزیہ کار بن سکتے ہیں، حکومتی فیصلوں میں مفید اور مثبت مشاور  اور صلاح کار بن سکتے ہیں، آئندہ نسلوں کو اعلٰی تعلیم دینے والے اساتذہ اور رہنما بن سکتے ہیں، یا ایسے ماہرین بن سکتے ہیں جو صحت، ٹیکنالوجی، یا سماجی علوم جیسے مختلف شعبوں میں کام کرکے ان کو ترقی کی اونچائیوں پر لے سکیں۔ کسی قوم کی طرف سے ان اسکالرز کے تحقیق کے کام میں لگایا گیا سرمایہ جیسے کہ تحقیقی کام کے  دوران سبسڈی یا تحقیقی گرانٹس کی شکل میں رقم اجرا کرنا وغیرہ دراصل قوم کے معاشی اور سماجی فوائد کیلئے ہوتا ہے۔ تاہم، جب یہیں پی ایچ ڈی اسکالرز ریڑھیوں پر خشک میوہ جات، جوس اور دیگر اشیاء بیچتے نظر آتے ہیں، تو یہ ایک تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ ہمارا حکومتی نظام انہیں ایک مؤثر اور معنٰی خیز افرادی قوت میں شامل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے لہذا یہ اسکالرز بطورِ ہمارا قومی سرمایہ ضائع ہورہا ہے۔

یہ صورتحال کئی اہم مسائل کو اجاگر کرتی ہے۔ اس صورتحال سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ جموں و کشمیر میں بے روزگاری کا بحران طویل عرصے سے موجود ہے اور اس کی شرح روز بروز بڑھ رہی ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق، جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی شرح بھارت میں مسلسل سب سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ پیریوڈِک لیبر فورس سروے کے مطابق جموں و کشمیر میں نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 32 فیصد ہے، جبکہ خواتین میں بے روزگاری کی شرح 53.6 فیصد ہے اور دونوں ہی بھارت میں سب سے زیادہ ہیں۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ہمارے جموں وکشمیر میں 25 لاکھ نوجوان نوکریاں تلاش کر رہیں ہیں اور ابھی تک بہت لوگوں کیلئے معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے وعدے حقیقت نہیں بن سکیں ہیں۔ اس کے برعکس، حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں تعلیم یافتہ افراد یا تو کم معاوضے پر ملازمت کر رہیں ہیں یا مکمل طور پر بے روزگار ہیں۔

اس کہانی کا سب سے تشویشناک پہلو تعلیم اور روزگار کے مواقع کے درمیان غیر متوازن تناسب ہے۔ پی ایچ ڈی اسکالرز کی تعداد، جو ہر سال تیار کی جا رہی ہے، تعلیمی شعبہ اور دیگر حکومتی محکموں میں دستیاب آسامیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ صورتحال ہمارے سرکاری انتظامیہ پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہے جو انتہائی تعلیم یافتہ افراد کو روزگار فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ اعلٰی سطح کی تعلیم، خاص طور پر ڈاکٹریٹ کی تعلیم، اُس مہارت کو فروغ دینے کے لیے ہوتی ہے جو تحقیق، سماجی ترقی، یا تدریس کے ذریعے معاشرے کو آگے بڑھا سکے۔ جب ان مہارتوں کا صیح استعمال یا حمایت نہ ہو، تو پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جو علاقے یا جو ممالک اپنے انسانی وسائل کو اس طرح ضائع کرتے ہیں، وہ دماغی صلاحیتوں کے انخلا (brain drain) کے خطرے سے دوچار ہوتے ہیں۔

پی ایچ ڈی اسکالرز کے یہ واقعات ایک ایسے سماج کی عکاسی کرتے ہیں ہے جس کا نظامِ حکومت اپنے قابل ترین افراد کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے اور ان کو روزگار فراہم کرنے کے لیے غیر ہم آہنگ اور ناکافی ہے، اور اس بحران کی بنیادی وجہ روزگار پیدا کرنے والے شعبوں میں سرکاری حکمت عملی کے تحت سرمایہ کاری کی کمی ہے۔ تعلیم یافتہ افرادی قوت کو جذب کرنے کے لیے صنعتیں قائم کرنے کی کوششیں بہت کم کی گئی ہیں۔ حالانکہ مقامی اور مرکزی حکومت نے کئی مواقع پر جموں و کشمیر کے لیے ترقی کے نئے دور کا وعدہ کیا ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں اور فل الحال زمینی حقایق افسوسناک ہے۔ نوکریوں کی اسکیمیں اور روزگار کے مواقع یا تو بہت کم دستیاب ہیں یا ناقص طریقے سے نافذ کیے گئے ہیں، حالانکہ جموں وکشمیر کے مختلف محکموں میں ہزاروں آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ مقامی حکومت کی طرف سے ابھی تک کسی بڑی بھرتی مہم کا آغاز نہیں ہوا ہے، اگرچہ 2024 کے اسمبلی انتخابات سے پہلے عام عوام سے وعدہ کیا گیا تھا کہ حکومت کے قیام کے بعد انہیں کئی ملازمت کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔

یہ صورتحال اس وسیع تر حقیقت کی عکاسی بھی کرتی ہے کہ کشمیر دہائیوں سے جاری تنازعات کی وجہ سے معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع کے لیے مزید مشکلات کا شکار ہے۔ مزید یہ کہ ہماری یونیورسٹیاں اور تحقیقی ادارے عموماً خالص نظریاتی علم اور تعلیمی طباعت پر زور دیتے ہیں، جبکہ تحقیق کو صنعت کی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں، بہت سے پی ایچ ڈی ہولڈرز ایسی مہارت کے ساتھ نکلتے ہیں جو تعلیمی دنیا کے باہر ملازمت کے قابل نہیں ہوتی۔

ان پی ایچ ڈی اسکالرز کی کہانیاں، جو سڑکوں پر معمولی کام کر رہیں ہیں، انتباہی کہانیاں ہیں جو ہمیں یہ احساس دلاتی ہیں کہ یہ نقصان صرف ان اسکالرز تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی ناکامی ہے جو پورے معاشرے پر اثر ڈالتی ہے۔ ہر پی ایچ ڈی اسکالر اختراع کرنے، حکومت کو بہتر بنانے، یا سائنسی فہم کو آگے بڑھانے کے ایک موقع کی نمائندگی کرتا ہے۔ جب ان اسکالرز کو معمولی کاموں تک محدود کر دیا جاتا ہے تو معاشرہ ان ممکنہ اختراعات سے محروم ہو جاتا ہے جو وہ پیش کر سکتے تھے، ان پالیسیوں سے جو وہ تشکیل دے سکتے تھے، یا ان طلباء سے جن کی وہ رہنمائی کر سکتے تھے۔

معاشی نقصانات کے علاوہ، اس تشویشناک صورتحال کے نفسیاتی اور سماجی نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔ جب ہمارے معاشرے کے انتہائی تعلیم یافتہ افراد اپنی توقعات پوری نہ ہوتے دیکھیں گے تو یہ ان میں مایوسی، بددلی، اور ذہنی صحت کے مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ یہ صورتحال نوجوان نسل کو بھی اعلٰی تعلیم، خاص طور پر تحقیق کے میدان میں داخل ہونے سے روک سکتی ہے جب وہ دیکھیں گے کہ اعلٰی تعلیم اور تحقیق مستقبل میں بہتر روزگار کے مواقع کی ضمانت نہیں دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں مستقبل قریب میں ہمارے معاشرے کو تحقیقی اسکالرز کی شدید کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔

سماجی طور پر، یہ رجحان اجتماعی مایوسی کا باعث بن سکتا ہے۔ جب ہمارے معاشرہ کے نوجوان اس بات کا مشاہدہ کریں گے کہ ہمارے معاشرے کے سب سے ذہین اور محنتی افراد اپنی تمام کوششوں کے باوجود روزگار کے جدوجہد میں مبتلا ہیں تو یہ معاملہ حکومتی اداروں اور حکام پر بداعتمادی کو فروغ دے سکتا ہے۔ اس طرح کا ماحول نہ صرف معاشرتی ترقی کو متاثر کرتا ہے بلکہ مجموعی طور پر قوم کی ترقی کی رفتار کو بھی کمزور کرتا ہے۔

اس مسئلے کے مذکورہ منفی اثرات کو دیکھتے ہوئے اس بحران کو ایک کثیر الجہتی حِکمت عملی کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے کشمیر میں معیاری ملازمتوں کے ذرائع کے فروغ پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ جو صنعتی اداروں کے قیام کو فروغ دے کر حاصل کیا جا سکتا ہے، جو تعلیم یافتہ افرادی قوت کو جذب کر سکیں۔ حکومت کو ان کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو ہمارے خطے میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش رکھتی ہیں، اور انہیں ٹیکس کی رعایتیں اور دیگر مراعات فراہم کرنے چاہیے۔ مقامی حکومت کو مختلف شعبوں کی ترقی پر بھی کام کرنا چاہیے، خاص طور پر ایسے شعبے جو ان اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد خصوصاً تحقیقی اسکالرز کو ملازمت فراہم کر سکیں۔

دوسرا، یونیورسٹیوں اور صنعتوں کے درمیان مضبوط تعاون ہونا چاہیے تاکہ تعلیمی تحقیق کو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق ہم آہنگ کیا جا سکے۔ اس سے پی ایچ ڈی اسکالرز کو صنعتوں میں آسانی سے شامل ہونے کا راستہ ملے گا۔

تیسرا، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی مہارتوں کے مطابق ایک ایسے کاروباری ماحول کی تشکیل، جو ان کے لیے موزوں ہو، انقلاب لا سکتی ہے۔ ریڑھی پر خشک میوہ جات یا جوس بیچنا ایک آخری انتخاب ہو سکتا ہے، لیکن تحقیق اور ترقی پر مبنی کاروباری اقدامات روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

چوتھا، جموں وکشمیر کے کمزور اور غیر مؤثر معاشی ڈھانچے اور بے روزگاری کی بلند شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے تحقیقاتی اسکالرز کو دیگر ترقی یافتہ خطوں یا بیرونِ ملک روزگار کے مواقع تلاش کرنے کی کوششیں کرنی چاہیے۔

پانچواں، چونکہ ان اسکالرز نے پہلے ہی جموں وکشمیر کے مختلف کالجز اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں کئی سال تدریسی عمل میں گزارے ہیں اور تدریس میں وسیع تجربہ حاصل کیا ہے، حکومت کو ان اسکالرز کے لیے ایک مناسب ملازمت کی پالیسی وضع کرنی چاہیے تاکہ ان کی بقا کی جدوجہد ختم ہو سکے۔

آخر میں، ہمارے اسکالرز اور تعلیم کے تئیں ہمارے معاشرتی نقطہ نظر میں ایک ثقافتی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ہر قسم کے کام کو اہمیت دینا ضروری ہے لیکن ہمارے معاشرے کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی فرد کی تعلیمی جدوجہد اس کے لیے موزوں اور مناسب ملازمت کے مواقع فراہم کرنی چاہیے۔ ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں خصوصاً اسکالرز کو ایسے معاشرے میں اپنی بقا کے لیے معاشی جدوجہد کرنے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے جو ان کی محنت، استقامت، لگن، اور انسانی علم کے فروغ کو سراہتا ہو بلکہ ہمیں ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس میں وہ عزت کی زندگی گزار سکیں۔