امام خامنہ ای کا کشمیری مظلوموں کی حمایت :اب کشمیریوں کو مسئلہ کشمیر کو حقیقی رنگ چڑھانے کی ضرورت ہے

ایران دنیا ایسا واحد ملک ہے جس نے ڈرگس پر کنڑول کیا ہے ۔ چنانچہ افغانستان ک کی سرحد سے عالمی مافیا ڈرگس گینگ جو ہر ملک میں اپنا اثر و نفوذ رکھتی ہیں ایران میں بھی جانے کی کئی بار کوشش کی ہین جس میں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ جس کی وجہ سے بہت سارے ایرانی فوجی اس عظیم کو انجام دیتے دیتے اپنی جاج بھی نچھاور کر گئے ، غرض ایران نے اس حکومت کی سرحدوں کو بچانے کے لئے کئی ساری قربانیاں دی ہین جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ حکومت مسلمانون کے لئے باعث افتخار بنے اور مظلوموں کی حمایت میں اس نظام کو زیادہ سے زیادہ قوی کریں چونکہ اس نظام کا مقصد امام مہدی ؑ کے ظہور کے لئے زمینہ سازی کرنا ہے تاکہ پوری دنیا میں ایک نظام عدل کا بول بالا ہو ۔ واضح رہے امام مہدی ؑ کے ظہور کے حوا لے سے سے تمام مسالک و ادیان کے کتب میں روایات موجود ہیں ۔
جاوید حسین دلنوی
اسلامی انقلاب و اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنے ایک حالیہ خطاب میں کشمیری عوام کو مظلوم عوام سے تعبیر کیا اور بھارت کو طاغوت کہہ کر ان افراد کو دندان شکن جواب دیا جو انقلاب اسلامی ایران کو فقط شیعوں کے انقلاب سے تعبیر کرتے ہیں ۔ امام خامنہ ای نے نمازعید الفطر کے دوران لاکھوں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ بحرین ، یمن اور کشمیر کے مظلوم عوام پر بے حد ظلم کیا جا رہا ہے ۔ اور ایران ہمیشہ مظلوم کی پشت پناہی سے دریغ نہیں کرے گا ۔ عالم اسلام کو چاہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی طرح اپنا موقف کھل کربیان کرے۔اس کے علاوہ ملک کے عدلیہ کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے زور دیا ایرانی عدلیہ عالم مسائل بشمول میانمار، نائیجریہ کے شیخ زکزکی کی رہائی اور کشمیر جیسے غور طلب مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنا کردار نبھائے۔
کشمیر کے بارے میں جمہوری اسلامی ایران کی ہمیشہ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ کشمیری مظلوم عوام کی حمایت سے دریغ نہیں کیا ہے ۔لیکن حریت قیادت میں وحدت کا فقدان ہونے کی وجہ سے شاید ایران کا بعض اہم موقعوں پر خاموش رہنا ایک علت کے طور پر گردانا جاتا ہے ۔ تاہم ایران نے بعض خاص موقعوں پر کشمیری عوام کو فر اموش نہیں کیا ہے ۔ دو ہزار دس میں کشمیر میں ہوئی شورش میں رھبر انقلاب نے خاص طور پر کشمیر کے مظلوم عوام کی حمایت کی تھی جس پر بھارت نے دہلی میں رہ رہے ایرانی سفیر کو بلا کا مزکورہ بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کیا تھا اور اس دوران ایران اور بھارت کے خارجہ پالیسی میں کافی دراد پڑگیا تھا ۔ انقلاب اسلامی ایر ان کے آئین میں مظلوموں کے حمایت ثبت ہے کہ دنیا کے ہر مظلوم کی حمایت کی جائے اور جس میں مسلمانوں کو خصوصیت حاصل ہیں ،اور ہر ظالم و ستمگر کو کیفر کردار تک پہچانا جائے ، جن میں اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ کو اولین ظالمین کے طور پر تصور کیا جاتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی کھبار ظالم سے سرد جنگ میں اپنی پالیسی میں لچک لانا ایران کا خاصا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ایران کو بڑا دشمن شناس اور تدبیر گر کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے ۔ تاریخ میں صلح حدیبیہ کا واقع ہونا ایک اہم تدبیر سے تعبیر کیا جاتا ہے ، رسول اللہ ﷺ کا اصل ہدف فتح مکہ تھا ،جس میں وہ ظالم و ستم گر سے صلح بھی کرتے ہیں اور پھر اپنے مقصد کو پہنچ جاتے ہیں گرچہ اس دوران دشمن صلح کا پاس نہ کرتے ہوئے ۔ جب امام خمینی رہ نے ایران مین انقلاب اسلامی برپا کیا تو دنیا کے تمام مظلومو ں کی نظریں اس انقلاب کے تئیں مرکوز ہوئیں ، جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کی اس انقلاب کے بانی کا پہلا نعرہ لا شرقیہ لاغربیہ تھا ۔ یعنی اسلام میں کسی طرح کی بھی سرحد کی قید نہیں ہیں ، یعنی اسلام شرق وغرب میں یعنی پوری دنیا میں اپنا جھنڈا گھاڈنے کا تصور رکھتا ہے ۔اور عدل الہی کے تئیں پورے دنیا کے مظلوموں اور ستم رسیدہ لاگوں کو حق دلانے کا وعدہ پورا کر نے ک کی یقین دہانی کرتا ہے اگرچہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو ۔ موجودہ ایرانی نظام اور امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کے دور کے ایرانی نظام میں میں کوئی فرق نہیں دکھائی دے رہا ہے چونکہ امام خمینی نے اپنے نائب چننے میں کوئی خطا نہیں کی ہیں۔ امام نے اس شخص کو اپنا نائب چنا ہے جو زندہ و شب بیدار ہے ، اور انہی کی طرح دنیا کے تمام مظلوم انسانوں کے لئے اور خصوصا مظلوم مسلمانوں کے لئے درد رکھتا ہے اور ظالم اور ستمگر ان سے اتنی ہی نفرت رکھتے ہیں ۔ جس کی ایک بڑی مثال سلمان رشدی کا قرآن کے خلاف برحرمتی کا واقع ہیں جس میں بغیر ایران کے کسی بھی مسلم ملک نے سلمان رشدی کو قانونی طور پر فاسد قرار نہیں دیا ہے ،یہ ایرانی حکومت اور امام خمینی کو ہی امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے قانونی طور پر سلمان رشدی کو فاسد و مرتد قرار دیا اور اس کا خون بہانا جائز قرار دیا ، جس فتوی کو آج بھی قانونی حیثیت حاصل ہیں ، اس دوران اگرچہ ایران پر برطانیہ اور کچھ یورپی ممالک کا کافی دباو بڑا اور انہوں نے ایران سے اپنے سفارت کاروں کو اپنے اپنے ملک واپس بلوایا تھا ۔ لیکن پھر بھی ایران نے اپنے موقف میں تبدیلی نہیں لائی ۔ مغربی میٖڈیا نے بیچ میں اگرچہ مزکورہ فتوی کو واپس لینے کی بات کی تو موجودہ رھبر نے اس بات کو رد کر کے یہ فرمایا کہ اس حکم کوامام خمینی نے صادر فرمایا ہے اور ان کے علاوہ اس حکم کو کوئی بھی واپس لینے کا حق نہیں رکھتا ہے ۔ تو دوسری جانب ایران کی ایک کمپنی نے سلمان رشدی کو قتل کرنے کے حوالے سے مزید انعامی رقم کو بڑھانے کا اعلان کر دیا ۔ واضح رہے امام خمینی کے دور میں ایرانی حکا م نے یہ اعلان صادر کر دیا کہ اگر کوئی سلمان رشدی کو قتل کرے گا اسے ایک بڑی انعامی رقم دی جائے گی ۔ جس کے بعد سلمان رشدی نے برطانیہ سے سیاسی پناہ لے لی۔
میری نظر میں جہاں تک انقلاب اسلامی ایران اور وحدت اسلامی کا تعلق ہے یہ بلا مبالغہ ایک دوسرے سے متوسط اور باہم ربط رکھتے ہیں ۔آج کل کے پر آشوب دور میں اپنی آنکھو ں کو کھلا رکھنا بہت ہی کمال ہے ۔ اور بصیرت کا مظاہرہ کرنا بھی ایک طرح کا ہنر ہے ۔ بہ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیشتر افراد بغیر کسی تحقیق کے کچھ بھی لکھ لیتے ہیں ، جسکی وجہ سے وحدت وحدت پارہ پارہ ہوکر رہ جاتی ہیں ۔ ایران نے ہمیشہ مسلمانوں میں باہمی وحدت کو برقراد رکھنے کے حوالے سے بے حد کوشش کی ہیں جو آج بھی جاری و ساری ہیں ،آج فلسطین کے مظلوموں ،کشمیر کے مظلوموں اور میانمار کے مظلوموں اور سیاہ فام افریقی مظلوموں کی بات تنہا ایران کے سوا کون کر رہا ہے جہاں پر عوام کی اکثریت اہل تسنن کی ہی ہیں ۔ایران کیو ں فلسطین کو زیادہ اہمیت کا حامل سمجھتا ہے یہ نکتہ بھی ناقدین کے نظر میں ایک سوالیہ کے طور پر دیکھا گیا ہے ۔ میری نظر میں فلسطین کا مسئلہ فلسطینی عوام سے مربوط نہیں ہیں بلکہ تاریخی حیثیت سے اسلام سے مربوط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نے فلسطین کو اپنے protocol میں اول دیا ہے ، ۔ قبلہ اول مسلمانوں کی میراث ہیں جس پر غاصب صیہونیوں کا قبضہ ہے جو آئے دن مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں ، آپ خود اس چیز کو مشاہدہ کر رہے ہونگے کہ کون اسلامی ملک فلسطین کو اولین درجہ دیتا ہے تو کون اسے ثانوی درجہ بھی دیتا ہے ۔ جہاں تک ایران میں اھل تسنن کی حقوق ی بات ہے یہا ں پر ان سے پوچھنا بہتر ہوگا کہ وہ یہاں پر کتنے خوش و خرم ہیں یہ کہنا ہی بالکل غلط ہے اور تعصب کی آمیزش رکھتا ہے کہ ایران میں اھل تسنن پرظلم ہیں ۔ یہاں پر اھل تسنن بڑی ہی آرام اور امن کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔اور اھل پورے ایران میں ایران دس ہزار مسجدیں بہ بانگ دہل اعلان کر رہی ہیں کہ ایران میں کس قدر اس مسلک کو آزادی حاصل ہیں جبکہ دارلخلافہ تھران میں خلفائے راشدین کے نام سے موسوم ایک بڑی مسجد واقع ہے ۔ میرے خیال میں آج کے ڈیجیٹل دور میں ان چیزوں کا مشاہدہ کرنا بہت ہی آسان ہوم گیا ہے ۔ جہاں تک شام میں ایران کی مداخلت کی بات ہے تو وہ شامی عوام اور بشارالاسد کی محبت یا مہربانی میں نہیں ہیں بلکہ نواسہ رسولﷺ روضے کی حفاظت کیلئے پوری دنیا سے جوان جاکے وہاں بی بی زینبؑ کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ، جنہیں مدافعان حرم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، یہ وہی حضرت زینب ؑ نے جسے یذید کے حکم سے اسیر کیا گیا اور کوفہ سے شام تک کا ایک طویل اور اندوہناک سفر کروایا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کی زبردست سٹرٹجی سے شام میں عالمی داعش کا خاتمہ ہونے کے قریب ہیں اور جبکہ حال ہی میں ایران کی ہی مدد سے عراق میں کے اہم شہر میں جس میں داعش کو مرکزیت حاصل تھی کو کیفرکردار تک پہنچایا گیا ۔ایران دنیا ایسا واحد ملک ہے جس نے ڈرگس پر کنڑول کیا ہے ۔ چنانچہ افغانستان ک کی سرحد سے عالمی مافیا ڈرگس گینگ جو ہر ملک میں اپنا اثر و نفوذ رکھتی ہیں ایران میں بھی جانے کی کئی بار کوشش کی ہین جس میں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ جس کی وجہ سے بہت سارے ایرانی فوجی اس عظیم کو انجام دیتے دیتے اپنی جاج بھی نچھاور کر گئے ، غرض ایران نے اس حکومت کی سرحدوں کو بچانے کے لئے کئی ساری قربانیاں دی ہین جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ حکومت مسلمانون کے لئے باعث افتخار بنے اور مظلوموں کی حمایت میں اس نظام کو زیادہ سے زیادہ قوی کریں چونکہ اس نظام کا مقصد امام مہدی ؑ کے ظہور کے لئے زمینہ سازی کرنا ہے تاکہ پوری دنیا میں ایک نظام عدل کا بول بالا ہو ۔ واضح رہے امام مہدی ؑ کے ظہور کے حوا لے سے سے تمام مسالک و ادیان کے کتب میں روایات موجود ہیں ۔