امام خمینیؒ حق کے داعی

قوموں کے عروج وزال کا انحصار جہاں افراد کے طرز حیات پر ہوتا ہے ۔ وہیں قومی قیادت بھی اسکی ذمہ د ار ہوتی ہے کہ وہ قوم کی فکری اور عملی رہنمائی کن خطوط پہ کرتی ہے۔ایران جہاں بادشاہی طرز حکومت صدیوں سے اپنی جڑیں مضبوط کرکے قوم کو پشت در پشت غلامی کے دلدل میں پھنساکرشاہی خاندان اپنے من پسندرویہ کو قائم رکھتے ہوے ایرانی قوم کی گردنوں پہ سوار تھا۔وہیں جمہوریت کے نام پر مغربی طرز زندگی اختیار کرنا شاہی حکمرانوں کی مجبوری بن چکی تھی۔جسکی وجہ سے مغربی معاشرہ کی تمام غلاظت ایران میں داخل ہو رہی تھی۔ لیکن رسالت محمد عربیﷺ کے بعد دنیاے انسانیت کو جونورانی فکر و نظرزندگی سنوارنے کیلئے میسر آچکی تھی۔ علماء کی صورت میں نور کی وہ شعاعیں ایرانی معاشرہ میں موجود تھیں۔ اگرچہ مغرب زدہ شاہی نظام کے حکمران نور کی ا ن کرنوں کو ختم کرنے کیلئے اپنے تمام تر زور لگا رہے تھے۔ لیکن حاکم حقیقی کے مرضی کے آگے بڑی سے بڑی قوت بے بس ہے۔ علماء حق شاہی نظام کے ذریعہ اشتراکی ذہنیت کے پھیلاو اور نظام کے اسلام سے دوری کا علاج کرنے کیلئے ایک طرف حکمرانوں کے طرز عمل کے مخالف تھے دوسری طرف اسلامی تعلیم و تربیت سے لوگوں کو ذہنی و عملی طور تیار کر رہے تھے کہ حکمرانی کا اختیار صرف اور صرف خالق کائینات کو ہے ۔اسکے نظام زندگی کے اصولوں کے بغیر ہر نظام زندگی باطل ہے۔ اس فکر کو پروان چڑھانے کیلئے ایران میں جہاں مختلف علماء کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن اس فکر کو عملی جامہ پہنانے کیلئے جس عالم باعمل پر عزم صاحب کردار قائد کی اس انقلابی تحریک کو ضرورت تھی وہ تھے امام آیت اللہ خمینیؒ ۔
آیت اللہ خمینی نے20 جمادی الثانی24ستمبر1906 میں ایران کے شہر خمین میں ولادت پائی انکے دادا سید احمد مولودی (لکھنوی) بھارت کی ریاست لکھنو سے خمین میں آباد ہوے تھے۔آیت اللہ خمینیؒ کے والد مصطفےٰ موسوی ایرانی خاتون سے تولد ہوچکے تھے ۔خمینیؒ کے سر سے انکی صرف پانچ ماہ کی عمر میں ہی والد کاسایہ اٹھ چکا تھا ۔امام نے اصفہان ،ارک ،مشہدمیں تعلیم حاصل کرکے قم کے حوزہ علمیہ سے۱۹۲۷ء اجتہاد کی سند حاصل کرلی۔امام خمینی نے علم کی حد کو اس قدر حاصل کیا کہ وہ ان چار مرجع علماء میں شامل ہوے جن کا رتبہ آیت اللہ سے بڑھکر ہوتا ہے باقی تین تھے۔ آیت اللہ کاظم شریعت مداری،آیت اللہ مرعشی اور آیت اللہ گلپا ئگانی،یوں یہ مرد حق علم کی قوت سے مالا مال ہوکر اپنی قوم کی رہبری کیلئے آگے بڑھا ہفتہ میں ایک دن انکے دروس نے جہاں عوام میں انہیں مقبول بنایا وہیں حکمرانوں کی بے چینی میں شدت پیدا کردی اور انکے خطبوں پر پابندی لگادی گئی۔ہر دور میں جب بھی حق پسندوں نے اظہار حق کیلئے زبان کھولی تو وقت کے ارباب اقتدار و اختیار نہ صرف انکے مخالف بنے بلکہ انکی زمین تنگ کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت کا استعمال کیا۔اسلئے یہ کیسے ممکن تھا کہ دارالعلوم میںآیۃ اللہ خمینی صاحب کے انقلابی درس حکمران برداشت کرتے۔ لیکن رضا شاہ اول کے بعد انکے بیٹے کے تخت نشین ہونے کے بعد خمینی صاحب نے دروس کا سلسلہ نہ صرف پھر سے شروع کیا بلکہ ان دروس میں مزید شدت کے ساتھ حکومت کے جبر تشدد اور غیر اسلامی اقدامات کی سخت تنقید شروع کردی۔
شاہی حکومت نے انہیں تنگ آکر ۵ جون۱۹۶۳ء کو گرفتارکرلیا اور جلاء وطن کرکے عراق بھیج دیا لیکن یہ مرد حُر عراق میں بھی حق وصداقت کی تحریک چلاتے رہے اور قرآن وحدیث کے دروس کا سلسلہ 15 سال تک جاری رکھا۔اس دورا ن خمینی صاحب کی جلاء وطنی کے خلاف ایران میں مظاہرے ہوے توحکمرانوں نے مظاہرین پر گولیاں چلاکر لوگوں کو شہید کیا جسکی یاد میں پھر ہر سال لوگ مظاہرے کرتے رہے اور گولیاں کھاتے رہے۔اس طرح عراق میں رہ کر بھی شاہی حکمرانوں کے خلاف خمینی صاحب نہ صرف درد سر بنے رہے بلکہ ایران میں انقلابی تحریک زور پکڑتی رہی۔ ۷۱ ء میں ایران میں شہنشاہی نظام کے اڑھائی ہزار سال مکمل ہونے کا جشن منایا گیا تو امام نے واضح طور کہا ۔ایران میں اڑھائی ہزار سال سے آزادی کا گلا گھونٹا جا رہا ہے ہر حکمران عوام کا استحصال کرتا رہا ہے اب شاہ بھی اسی بادشاہت کا جشن منا رہا ہے حا لانکہ سوگ منانا زیادہ مناسب تھا؛ جب شہنشاہی نظام کو استحصالی نظام امام نے کہا تو پھر کون سا نظام امام خمینی ؒ کے زیر نظر تھا ؟ اس حوالے سے انہوں نے وضاحت کرتے ہوے کہا :۔ بادشاہی نظام عوام کی سیاسی اقتصادی اور تہذیبی نشو نما میں حائل ہوتا ہے اور اسلامی جمہوریہ کے قیام کیلئے ضروری ہے کہ پہلے سیاسی استبدادی نظام کی تمام صورتوں کو ختم کیا جاے،گویا امام واضح طور عوام کو اسلامی نظام کے قیام کیلئے تیار اور شاہی نظام کے خاتمہ کیلئے کہ رہے تھے اور مغربی جمہوریت کے پر فریب نعروں کے بجاے اسلامی جمہوریہ کے پاکیزہ تصورات کی طرف مائل کر رہے تھے۔ اب بھلا ایرنی حکمران کیسے برداشت کرتے کہ عراق سے ہی امام ایرانی مسلمانوں کے دلوں پہ حکمرانی کر رہے ہیں اور یہاں انکی پوری شاہی قوت کمزور پڑ رہی ہے اسلئے ایران نے عراق پر دباو بڑھایاکہ امام خمینی ؒ کو وطن سے نکالا جاے جسکی وجہ سے امام ۶ اکتوبر ۱۹۷۸ء کو فرانس چلے گئے اور وہیں ر ہائش اختیار کرلی۔ اللہ کا کرنا یہاں بھی انکی قیام گاہ انقلابی تحریک کیلئے مرکز کی حیثیت اختیار کر گئی اور ایران میں امام کی رہنمائی میں تحریک نے اس قدر زور پکڑا کہ۱۶ جنوری ۱۹۷۹ء کو شاہ ایران ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور یکم فروری کو ہجرت پہ مجبور کئے گئے امام وطن واپس آئے تو استبدادی نظام شاہی کی دیواریں ڈھ چکی تھیں انقلاب کے امام کا استقبال کرتے ہوے فضا میں ایک اللہ کی حکمرانی کے نغمے گونج رہے تھے پھر یکم اپریل کو استصواب عامہ کے بعد ایران اسلامی جمہوریہ بنا (اللہ اکبر)
دیکھنا یہ ہے کہ خمینی نے انقلاب کیلئے وطنی، قومی، لسانی،معاشی یا اقتصادی نعرہ نہ دیا بلکہ کہا ،العرض لللہ والحکم لللہ یعنی یہ زمین اللہ کی ہے حکمرانی بھی اللہ کی ہی ہوگی،لا شر کیہ ولا غربیہ اسلامیہ اسلامیہ یعنی نہ ہم مشرکی ہیں نہ مغربی ہم اسلامی ہیں اسلامی،،ان نعروں اور انقلاب نے نہ صرف ایران کی تقدیر بدلی بلکہ یہ نعرے پوری دنیا میں مسلمانوں کی نئی کروٹ کا مرکز بنے مظلوم کشمیریوں نے بھی زندگی کی ایک نئی کروٹ لینے کیلئے ان نعروں کا انقلاب کیلئے اپنا لہو گرمایا لیکن ظاہر ہے انقلاب صرف نعروں سے ہی نہیں آیا کرتے اسکے لیئے قیادت کو عوام کے ساتھ ساتھ بے پناہ قربانیاں دینی پڑتی ہے انقلاب کی رہنمائی حکمرانوں کی حفاظت میں رہ کر محل خانوں سے نہیں کی جا سکتی بلکہ اسکے لئے ایک طرف گھر عیال اور وطن سے دوری کے زہریلے گھونٹ پینے پڑتے ہیں دوسری طرف قوم کی فکری وعملی رہنمائی کے نقوش چھوڑنے پڑ تے ہیں یہ سب کچھ اللہ کے اس بندے نے کرکے دکھایا تصنیفی میدان میں ۲۵ کتابوں کی تصنیفات میں ؛کشف الاسرار،بھی ہے جو اسلام مخالف کتاب اسرار ہزار رسالہ کے جواب میں لکھی گئی تھی دوسری کتاب ولایت فقیہ جو دنیا میں الحکومت الاسلامیہ، کے نام سے مشہور ہے بھی تھی۔ جنمیں ایک طرف مغربی طرز نظام کی تنقید دوسری طرف اسلام کے حیات بخش نظام کی خوبیاں اور رموز ہیں۔
امام خمینیؒ نے نہ صرف ایران کو ایک فکری اور عملی انقلاب کے ذریعہ بدل کر مغرب اور اسکے پرستاروں کو یہ جواب دیا کہ اسلام ہی کل بھی انسان کی تمام بے چینیوں اور پریشانیوں کا علاج تھا بلکہ آج بھی اور رہتی دنیا تک اسلام ہی کے سایہ میں انسان کو امن عدل اور اطمنان کا نظام فراہم ہوسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ خمینی نے اس وقت کی بڑی قوتوں روس اور امریکہ کے سربراہوں بش اور گوربا چوف کو اسلام کے سایہ میں آنے اوراپنے ممالک میں اس نظام کا فائدہ اٹھانے کی دعوت اور صلاح دی ۔یہ خمینی ہی تھے جس نے شرق وغرب کے دائروں سے نکل کر ارضوسماء کے مالک کی بندگی کی طرف دنیاے انسانیت کو دعوت دی۔لیکن افسوس آج خمینی کو امام کہنے والے مغرب سے خوف زدہ اور مرعوب ہوکراسلام کی انقلابی روح کو نکال کر غالب قوتوں کے رنگ میں اسلام کو رنگنے کیلئے آمادگی کا اظہار کر رہے ہیں ۔آج امام کے نام لیوا شیعہ اور سنی بنکر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے ہوے اسلام کے ان ازلی دشمنوں کو خوش کر رہے ہیں جن پر خمینی ؒ کے فکرونظر اور عمل نے لرزہ طاری کیا تھااصل میں یہ سب نہ خمینی صاحب کا کمال تھا نہ دعوی بلکہ یہ سب کمال تھا نغمہ توحید اور اتباع رسولؐ کا۔
اے دنیا کے مسلمان تو شیعہ نہیں سنی نہیں مسلم ہے صرف مسلم ۔ تو حنفی شافعی حنبلی مالکی نہیں مسلم ہے بس مسلم۔ کیوں تیری تلوار تیرے بھائی کی گردن پہ چل رہی ہے فرمان رسولﷺ کے مطابق ؛المسلم ہے اخوالمسلم۔ تو اللہ کا خلیفہ ہے ۔ تو محمدﷺ کی دعوت کا وارث ہے۔تو نوع انسانیت کا ہمدرد وخیر خواہ ہے۔تیرے سامنے اللہ کی ساری مخلوق عیال اللہ ہے۔توخود غرض نہیں ، تو دہشت گرد نہں، تو معصوموں کی زبان، عصمتوں کا نگہبان،مظلوموں کاترجمان، مسلمان ہے بس مسلمان۔
میرے نزدیک یہی امام آیت اللہ خمینی اور ہر دور میں انسانیت کے بہی خوا ہ رہنماؤں کے افکارات و نظریات و عملیات رہے ہیں اور رہیں گے ۔آیئے انہیں بنیادوں پر بکھرے انسانوں کی مالا کو اللہ بندگی محمدﷺ کی اتباع اور فکر آخرت کے تصورات میں پروتے ہوے اپنے شب و روز گزارنے کا عزم کریں۔
یہی امام خمینی سے لیکر تمام اولیاء صحابہ و انبیا کو خراج عقیدت بھی ہوگااور ظلم استبدادی نظاموں کے پہرہداروں کے خلاف علم بغاوت بھی کراہتی انسانیت کیلئے پیام امن و را حت بھی اور ہم سب کیلئے فلاح دنیا و آخرت بھی۔۔۔۔۔۔
وماعلینا الی البلاغ المبین
(مقالہ نگار مسلم ڈیمو کریٹک لیگ جموں کشمیرکے صدر ہیں)