دنیا بھر میں کشت و خون کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے تاہم اسلامی دنیا خاص کر عراق ، شام یا افغانستان ، پاکستان ، میانمار وغیرہ کے خون آشام منظر نامے کی ماضی میں نہ کوئی مثال ملتی ہے اور نہ نہ ہی دنیا کے دیگر غیر اسلامی ممالک میں ایسی خونین صورتحال ہے۔دنیا روز نت نئے مسائل و مشکلات کے اتھا ہ بھنور میں پھنس رہی ہے ۔ ہمارے مسائل روز برو ز گنجلگ اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ بسیار نظاموں اور ازموں کی موجودگی کے باوجود دنیا تباہی کے دہانے پر ہے اور اس تمام بھیانک صورتحال کا سرچشمہ موجودہ عیار و مکار سیاست ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ ’’جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ دنیا میں ہر سو چنگیزی کا دور دورہ ہے کیونکہ بے دین سیاست کی بنیاد ہی تشدد اور خونریزی پر استوار ہے، بے دین سیاست کی دنیا میں حصول اقتدار کیلئے قوم مذہب نسل و رنگ کے نام پر تشدد کی آگ بھڑ کانا لازمی ہے۔ یہاں خرمن امن کو نذر آتش کرن اصولوں کی فہرست میں سر فہرست ہے۔ اس دنیا میں راج گدی پر براجمان حکمران عوام کی خدمت کے بجائے عوام کو اپنی خدمت پر مامور کرتے ہیں۔ دنیا کے اطراف و اکناف میں تیزی سے پھیل رہی دہشت گردی کوئی نیا معمہ یا منصوبہ نہیں بلکہ بے دین سیاست کی ایک لونڈی ہے جس کا استعمال بے دین سیاست کے گلستان کی آبیاری کیلئے کیا جارہاہے۔
بانی انقلاب اسلامی ایران حضرت امام خمینیؒ اسی دین سے عاری اور اخلاقیات سے جدا سیاست کی قلعوں کو زمین بوس کرنے کیلئے ایک حقیقی اور اسلامی اصولوں پر مبنی سیاست کا بین الاقوامی نظریہ پیش کیا۔ آپ نے سیاست کے حقیقی اور اصلی مفہوم و معنی کو پیش کر اسلامی انقلاب برپا کرکے اس کی عملی تفسیر و تفصیل پیش کی۔ دنیاکے سیاسی مفکرین نے سیاست کو اسلام سے جدا پیش کرنے کیلئے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زاہد اور متقی سیاست دان نہیں ہوسکتا کیونکہ زہد و تقویٰ کا سیاست سے دو رکا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ایک آدمی جس قدر مکار وعیار ہوگا اسی قدر ایک اچھا سیاست دان ہوگا۔ بعض نے تو علماء کو مشورہ دیا کہ وہ سیاست جیسی بد معاشی سے بچیں۔ نتیجتاً سیاست کی ایک ایس کڑی پیش کی گئی کہ علماء اور متقی لوگ اس سے کنارہ کشی کرتے رہے اور عیار و مکار لوگ اس میں جوق درجوق داخل ہوتے گئے اور پھر دنیا تباہی کی کس ڈگر پر پہنچ گئی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
امام خمینیؒ نے اس تمام فرسودہ اور باطل پروپگنڈے کے خلاف اسلامی سیاست کا نظریہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام کی اساس سیاست ہے اور سیاست اور اخلاق ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ امام کے نزدیک اسلامک سیاسی دین ہی ہے جس کی ہر چیز یہاں تک کہ عبادت بھی سیاسی ہے۔ امام فرماتے ہیں کہ زہد و تقویٰ فقط ایک اخلاقی فضیلت نہیں بلکہ ایک سیاسی ضرورت بھی ہے۔ کیونکہ ایک سیاست دان جس قدر متقی اور پرہیز گار ہوگا اسی قدر عوام کے حقوق کا پاس و لحاظ رکھے گا۔ ایک پرہیز گار حاکم ہی پرہیز گار معاشرے کی تعمیرمیں کلیدی رول ادا کرکے امن و سکو ن کے ماحول کو قائم کرسکتا ہے۔ ایک ایسے سماج کو وجود میں لاسکتا ہے جس میں تمام مکاتب ہائے فکر کے لوگ سکون کی زندگی بسر کررہے ہوں اور جس میں مستضعف طبقہ سر اٹھاکر جی رہا ہو۔
امام خمینیؒ اخلاق و سیاست کی وحدت کے نظریے پر تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسلامی کے اخلاقی احکام بھی سیاسی ہے اور اخلاق ہی ایک معاشرے کی رشد و ترقی کا ضامن ہے۔ امام راحل سیاسی رہنماؤں سے سادہ زندگی بسر کرنے کی تاکید کرتے ہیں ۔ آپ کا نظریہ ہے کہ سادہ زندگی بسر کرنے سے ہی دو جہاں کی کامیابی اور سرفرازی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ چنانچہ صحیفہ امام میں رہنماؤ ں سے مخاطب ہوکر رقمطراز ہیں کہ اگر آپ بغیر کسی خوف و ہراس کے باطل کے مقابلے میں کھڑا ہونا اور حق کا دفاء کرنا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ بڑی طاقتیں جدید ترین اسلحہ ، ان کی سازشیں اور شیاطین آپ کی روح کو متاثر نہ کرسکیں اور نہ ہی شکست دے سیکں تو اس کیلئے آپ کو سادہ زندگی بسر کرنے کی عادت ڈالنی پڑے گی ۔ اور مال و دولت جاہ و مقام سے دلی طور پر پرہیز کرنا پڑے گا۔آپ فرماتے ہیں کہ جن عظیم لوگوں نے اپنی قوم و ملت کی خدمت کی ہے وہ اکثر سادہ زندگی گزارتے تھے اور دنیاوی مال و منال سے لاتعلق رہتے تھے۔ جو لوگ اپنی پست نفسانی و حیوانی خواہشات کے اسیر ہوتے ہیں وہ ہر قسم کی ذلت و خواری کو قبول کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگ شیطانی طاقتوں کے زر و زور کے سامنے خاضع اور کمزور عوام کیلئے ظالم و ستم گر ہوتے ہیں لیکن آزاد حریت پسند لوگ اس کے برعکس ہوتے ہیں کیونکہ شاہانہ اصراف پر مبنی زندگی انسانی و اسلامی قدروں کی حفاظت نہیں کرسکتی۔
اسلامی جمہوریہ ایران کا مقدس وجود امام راحل کے ان ہی افکار و تعلیمات کا نتیجہ ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ امام خمینیؒ کے افکار کی عملی تفسیر اسلامی جمہوریہ ایران ہے جو تن تنہا دنیا کے تمام متکبر سامراجی طاقتوں کے خلاف سینہ سپر ہوکر نہ صرف انہیں للکارتا ہے بلکہ ان کیلئے ایک ایسا درد سر بن گیا ہے کہ جس کے علاج کی بسیار کوششوں کے بعد اب انہیں محسوس ہونے لگا ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی اور اسلامیہ جمہوری ایران کی خارجہ پایسی کا بنیادی اصول لاشرقیہ لا غربیہ نہ صرف عالم اسلام بلکہ تمام دنیا کیلئے دنیا میں امن و امن قائم کرنے کیلئے ایک کیمیائی نسخہ ہے۔
امام خمینیؒ کے فلسفہ سیاست میں دنیا بھر کے مسائل و مشکلات کا حل مضمر ہے اور امام نے جو خطوط و اصول سربراہان مملکتوں کیلئے مرتب کئے ہیں۔ اگر ان پر عمل کیا جائے تو دنیا کو جنت کا نمونہ بنایا جاسکتا ہے۔ اسلامی دنیا کا خون چکاں منظر نامے کا حل بھی امریکہ ، برطانیہ یا اقوام متحدہ کے بجائے امام خمینیؒ کے پیش کردہ سیاسی نظام میں مضمر ہے۔ مصر ، لیبیا اور تیونس نے امام کے فلسفہ سیاست کو مشعل راہ بنایا ہوتا تو شاید ان ممالک کے عوامی انقلابات کو ناکامی کا منہ نہیں دیکھنا پڑتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام دنیا کے سربراہان نام نہاد عالمی طاقتوں کی مکار وعیار سیاست کے بجائے امام خمینیؒ کے فلسفہ سیاست کو اپنائے تب ہی مسلمان اپنی سطوت رفتہ کو بحال کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
(مقالہ نگار پیشہ سے صحافی اور پارس آباد بڈگام کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں)