امام خمینی ؒ عصر حاضر کی تاریخ ساز شخصیت

طول تاریخ میں کھربوں انسانوںنے اس دھرتی پر جنم لیا اور مختصر مدت تک دنیا کو اپنا عارضی مسکن بناکریہاں سے کوچ کیا۔دہائیوں کے بعدمرحومین کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ عزیز و اقارب کے سوا کسی نے آہ تک بھی نہ کیا۔ لیکن انسانی تاریخ نے ایسے افرادفرشتہ صفت انسانوں کو بھی جنم دیا جواس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی اپنی ذہانت اور عظیم الشان کارناموں کے سبب ایک ابدی اور زندہ و جاوید حقیقت بن گئے۔

از قلم:مجتبیٰ ابن شجاعی، سرینگر کشمیر

طول تاریخ میں کھربوں انسانوںنے اس دھرتی پر جنم لیا اور مختصر مدت تک دنیا کو اپنا عارضی مسکن بناکریہاں سے کوچ کیا۔دہائیوں کے بعدمرحومین کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ عزیز و اقارب کے سوا کسی نے آہ تک بھی نہ کیا۔ لیکن انسانی تاریخ نے ایسے افرادفرشتہ صفت انسانوں کو بھی جنم دیا جواس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی اپنی ذہانت اور عظیم الشان کارناموں کے سبب ایک ابدی اور زندہ و جاوید حقیقت بن گئے۔ یہ روشن فکر طبقہ آنے والی نسلوں کے لیے نمونہ عمل بن گیا ۔حضرت امام خمینی ؒبھی اسی طبقہ سے وابسطہ ایک زندہ و جاوید حقیقت اور تاریخ ساز شخصیت کا نام ہے جس نے اپنی ذہانت ، جرائت ،عزم و ارادہ،ہمت و استقلال اور مذہبی جوش و جذبہ کے بنا پر سرزمین ایران میں ظلم واستبداد اور مطلق العنان حکومت کا خاتمہ کرکے اسلامی انقلاب برپا کیا اور اس طاغوتی سرزمین پر نظام شریعت نافذ کرکے اﷲ کی حکومت قائم کی۔

امام خمینی کا اصل نام سید روح اللہ موسوی تھا جو24ستمبر 1902ءکو ایران کے شہرِ خمین میں ایک مذہبی اور دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آبا و اجداد دین شناس تھے لہذا امام خمینی ؒ بھی اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم پر چل کر زندگی کے آخری سانس تک دین محمدی کے بے لوث خدمت گزار کے طور پر اُبھرے۔ زندگی کے شروعاتی دور میں ہی والد محترم آقا مصطفیٰ خمینی ؒ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا جس کے بعد والدہ گرامی کی آغوش میں تربیت حاصل کی والدہ محترمہ نے امام خمینی ؒ کی تربیت اس انداز سے کی کہ بچپن کے ایام میں ہی دین شناسی کا ماحول امام خمینی کی زندگی میں سرایت کرگیا۔ آپ حصول علم کے تلاش میں نکلے ۔اپنے آبائی شہر کے علاوہ امام راحل ؒ نے حصول کے خاطر اراک ایران کے دیگر ریاستوں کا سفر کیا لیکن تشنگی علم اس قدر تھی کہ دونوں جگہ پیاس نہ بجھ سکی جس کے بعدعراق کی جانب رُخ کیا اور وہاں کے علمی مرکز میں داخلہ لے کر جید و بزرگ علمائے کرام سے علم دین حاصل کرکے دینی علوم کی تکمیل کی۔

تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام کو ابتدا سے یہ افتخار حاصل ہے کہ دین شناس روشن فکر طبقہ نے اسلام کے تئیں بے پناہ خدمات انجام دی ہے اور ایک مدت تک زحمتیں اٹھا کر تکالیف برداشت کرکے اس دین کو زبان بہ زبان نسل بہ نسل منتقل کیا ہے ۔لیکن امام راحل امام خمینیؒ نے جس انداز سے مذہب اسلام کے تئیں خدمات انجام دی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔آپ نے انقلاب کربلا کی مثال دہرا کر کفر و طاغوت کی چوٹیوں پر اسلام کی کامیابی کا جھنڈا گاڑ دیا ۔ایک ایسی سرزمین جو طاغوت کے نرغے میں تھا ،جہاں طاغوت کی پیروی کی جارہی تھی اور احکام الٰہی کو پیروں تلے روندھا جارہا تھا۔
تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی انقلاب سے پہلے سرزمین ایران نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں ہزاروں سالہ شہنشاہیت اور مطلق العنان حکومتوں نے ایران کا بھیڑا غرق کردیا تھا۔سرزمین ایران پر مسلمانوں کی تاریخ اگرچہ پرانی تھی۔ لیکن اسلامی اور انسانی نظام مفلوج ہوکر رہ گیا تھا۔حکمران مسلمان تھے لیکن اسلامی قواعد و ضوابظ کا کوئی نام و نشان تک بھی نہ تھا ۔ہزاروں سالہ شہنشاہیت کے آخری دور میں حکمرانوں کی عیش پرستی اور مغرب نوازی سے ایران ادبی،مذہبی،تعلیمی نیز اقتصادی لحاظ سے زوال پزیری کی جانب گامزن تھا۔ظلم و استبداد کا دور دورہ تھا صدائے حق کا انجام سولی،گولی اورقید خانہ تھا ۔علمائے کرام کی توہین معمول اور خواتین کا عصمت غیر محفوظ تھا۔ اس معاشرے میں عورت کو ایک کھلونا کے طور پر پیش کی جارہی تھی،رسم و رسوم ،فیشن پرستی ،عریانیت اور بے ہودگی کو رواج اور پردہ کا مذاق اڑایا جارہا تھا۔

ان تمام مسائل و مشکلات کا خاتمہ کرنے کے لیے ملت اسلامیہ ایران کو ایک قائد اور صالحانہ قیادت کی ضرورت تھی۔روشن فکر علمائے کرام کی ایک بڑی تعداداگرچہ موجود تھی لیکن ظلم و واستبداد کے آگے ان کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے۔اس شیطانی نظام کے خلاف زبان کھولنے والوں کوگولی اورسولی کا تحفہ دیا جاتا تھا دیا۔اور عوام بھی تحریک آزادی سے ناآشنا تھے ۔ اس وقت ملت ایران کوظالم کے مقابلے میں جرائت، ہمت اور عزم و استقلال کی ضرورت تھی۔ایک نڈر قائد کی ضرورت تھی ۔اللہ تبارک و تعالٰی نے ملت ایران کے اس درد کا مداوا کرکے امام خمینی ؒکو مقام و منزلت عطا کیا۔امام خمینی ؒ ایرانی سیاست کے افق پر عظیم رہنما کی حیثیت سے ابھرے انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو سنھبالا اور ظلم و جبر کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار مانند کھڑا ہوا اور ملت ایران کو راہ حقیقت سے آگاہ کیا۔اسلام کے اصول اورتحریک آزادی سے آشنا کیا ۔اس زندہ و ضمیر شخصیت نے اسلامی حکومت کی تشکیل کا نظریہ پیش کیا ۔امام خمینی ؒ کا نظریہ” اسلامی حکومت“نظریہ تک محدود نہ رہا۔روشن فکر علمائے کرام نے امام خمینی ؒ کی قیادت میں ظالم حکومت کے خلاف درپردہ سرگرمیاں شروع کردی۔ قائد اور روشن فکر طبقہ کی انتھک کاوشوں سے انقلابی نظریات کی ترویج میں دن دوگنی رات چوگنی اضافہ ہوتا رہا ۔شہنشاہیت کے جڑ اکھڑنے لگے اور کئی سالوں بعد یہ تحریک کامیاب ہوگئی 11فروری1979ءکے دن ظلم و جور پر مبنی سلسلہ شہشاہیت کے خاتمے کااعلان ہوگیا اور ایرانی قوم نے اپنی تقدیر کے فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لیا۔

امام خمینیؒ فرد واحد کا نام نہیں بلکہ ایک مکتب کا نام ہے اس مکتب میں لاکھوں جوانوںنے تربیت حاصل کرکے طاغوت اور مطلق العنان حکومتوں کا بھیڑا غرق کردیا۔اس مکتب نے انسانیت کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لگایا اور خفتہ ضمیر افراد کو جگا جگاکر انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا۔اس مکتب کابانی کار حضرت امام خمینیؒ ایک غیر معمولی شخصیت کا حامل ہے جس نے بغیر ساز و سامان”ید اﷲ فوق ایدیھم “پر یقین محکم رکھ کر ظالم و جابر پہلوی حکومت کا مقابلہ بآسانی سے کیا ۔سولہ سال طویل جلاوطنی اور جسمانی و ذہنی اذیتوں کا سامنا کیا لیکن قوم کی خدمت گزاری اسلام و مسلمین کی سرفرازی اور مظلومین جہاں کی حمایت سے دستبرداری کا نام تک نہ لیا۔ اور اس لاقانونیت جارحیت و خوف و دہشت کے آگے کھبی ڈرنے، تھکنے،جھکنے یا بکنے کا احساس تک نہ کیا۔

عالم اسلام کے اس عظیم سپہ سالار قائد و رہبر نے ملک میں وحدانیت کا پرچم بلند کیا دعوت حق اور انسانیت کی بقاءکے خاطر دن کا کھانا اور رات کا سونا ترک کیا۔امام خمینی نے سوئے ہوئے ضمیروں کو جگا کر کہا کہ ہمارا دین ایک ایسا مکتب ہے جو انسان کی اس طرح تعلیم و تربیت کرتا ہے کہ وہ خداوند متعال کے سوا کسی طاقت یا فکر کے آگے نہیں جھکتا ہے لہذا آپ اپنے ملک کے مسئلہ کو کسی بھی طرح ہاتھ سے نہ دیں اور اپنی و دوسروں کی آزادی و خودمختاری کا دفاع کریں اس سلسلے میں لالچ خوف خود پرستی سے کام نہ لیں کیونکہ یہ بدبختی اور پریشانی کا سبب ہے۔

امام خمینی کی ولولہ انگیز قیادت نے اسلامی حکومت اور انقلابی نظریہ کو روز افزوں پروان چڑھایا غیور اور باہمت ملت نے اس قیادت پر مکمل اعتماد کیا اور من و عن اس قیادت کے ساتھ جُر گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 17 فروری 1979 کوشاہ ایران ملک سے فرار ہوگیا اور11فروری 1979کے دن اسلامی انقلاب کا سورج بڑی آب و تاب کے ساتھ طلوع پذیر ہوا اور ملک میں ہزاروں سالہ شہنشاہیت کا پردہ چاک ہوگیا اور سرزمین ایران پر حکومت الٰہی قائم ہوگئی۔
انقلاب مخالف اسلام دشمنوں نے اس انقلابی تحریک کو کچلنے کیلئے سازشوں کا دائرہ وسیع کردیا اقوام عالم کو گمراہ کرنے کے لیے دشمن نے اس انقلاب کو کھبی شیعہ ،کھبی خمینیؒ ،کھبی کرسی اور کھبی ایران سے منصوب کرنے کی کوشش کی اور اس انقلاب کو حقوق بشی خاص طور پر حقوق نسواں کے خلاف قرار دیا لیکن دشمن کی تمام تر کوششیں ایک ایک کرکے ناکام ثابت ہوئیں یہ تحریک دن بدن ترقی کے منازل تیزی کے ساتھ طے کرتی رہی۔انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی اس انقلاب نے دشمن کی سازشوں کا قلع قمع کرکے ترقی کے مراحل طے کیے۔یہ انقلاب ایرانی سرحدوں تک باقی نہیں رہا بلکہ دنیا بھر میں اس انقلاب کی کرنیں پھیل چکی ہیں اسی انقلاب کے بدولت حزب ا ﷲ لبنان کے ہاتھوں جدید ساز و سامان سے لیس غاصب اسرائیل کو ۳۶ دنوں میں بدترین شکست کھانی پڑی ۔فلسطین مزاحمت میں نئی روح داخل ہوگیا اور حال ہی میں امریکی نوزاد دہشتگروتنظیموں کو دنیا کے مختلف ممالک میں بدترین پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔

امام راحل امام خمینی ؒنے فرمایا کہ ہمارا انقلاب کوئی ظالم انقلاب نہیں ہے یہ ایک انسانی قیام ہے اسلامی قیام ہے ہم کتاب اور سنت پر عمل کرنا چاہتے ہیں آپ کو کتاب و سنت پر عمل کرنا چاہئے۔

امام خمینی ایک ہمہ گیر اور آفاقی شخصیت کا نام ہے جس نے بلا لحاظ مسلک و ملت اسلام و مسلمین کی سرفرازی کے لیے اپنے فرائض انجام دیے آپ ایک ایسے سیاست مدار تھے جس کے کارناموں سے دنیا بھر کے سیاست مداروں انگشت بہ دندان رہ گئے ۔امام خمینی ؒ ایک بے نظیر معلم ،عالم با عمل اور منادی اتحادتھے انہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کے لیے وقف کردیا جس کی اعلیٰ مثال فلسطینی عوام کی حمایت ہے ۔امام خمینی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے طند ماہ بعد سب سے پہلے یوم القدس کا تاریخ سا ز فتویٰ جاری کردیا اور بلا لحاظ مسلک و ملت مسلمانان عالم کو ایک ہی جنڈے تلے جمع ہونے کی پرزور تلقین کی ۔امام خمینیؒ کا دلی تمنا تھا کہ مسلمان فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر کلمہ لا الٰہ الا ﷲ کے جنڈے تلے جمع ہوجائیں ۔آپ نے لاشرقیہ لاغربیہ ۔اسلامیہ اسلامیہ کا نعرہ لگا کر امت کو متحد کرنے کی انتھک کوشش کی ۔امام خمینی ؒ فرماتے ہیں کہ ”تفرقہ شیطان کی طرف سے ہے اور اتحاد و وحدت رحمان کی طرف سے “۔

بانی انقلاب حضرت مام خمینی ؒ مجسمہ اخلاق تھے انہوں نے اپنے رہبر اعلیٰ پیامبر گرامی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے درس اخلاق حاصل کرکے اس کو اپنی زندگی میں عملایا ۔آپ نہایت ہی پارسا اور انسان دوست لیڈر تھے جو نہ صرف ایران بلکہ مسلمانان عالم کے دکھ درد کو اپنے سینے میں لیے ہوئے اس کو اپنا درد سمجھتے تھے۔انہوں نے اپنی تحریک کو مظلوم لوگوں کی آواز بنایا جن کی کوئی آواز نہ تھی ۔آپ نے تعلیمات قراانی اور سیرت ائمہ کو اپنی زندگی میں عملایا اور مسلمانوں کو درس دیا کہ وہ تعلیمات قرآنی اور سیرت اہلبیت الطاہرینؑ پر عمل پیرا ہوجائیں ۔امام خمینی ؒ فرمارہے ہیں کہ مسلمانوں کی پریشانی کا سب سے بڑا وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تعلیمات قرآنی اور سیرت ائمہ اطہار ؑ سے منھ موڑ کر دوسروں کے جنڈے تلے جمع ہوگئے ہیں ۔اگر مسلمان کلمہ توحید کے جنڈے تلے جمع ہوجائیں گے تو ان کے تمام مسائل کا حل بغیر کسی کے جنڈے تلے حل ہوجائیں گے۔

امام راحل ؒ اپنی آخری سانس تک مسلمانوں کی فلاح و بہبودی کے لیے کوشاں رہے اور مستضعفین ومظلومین جہاں کے لیے ایک مسیحا کے طور پر اُبھرے ۔امت مسلمہ کا یہ وسیع القلب ترجمان 4جون 1989ءکو مسلم امہ کو داغ مفارقت دے کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے امام خمینی ؒ کا جلوس جنازہ تاریخ کا منفرد جلوس جنازہ تھا ۔جس میں کروڑوں عقیدتمندوں نے اپنے رہنما کو پرنم آنکھوں سے سپرد خاک کردیا ۔امام خمینی کے وفات کے بعد افکار خمینی ؒ نے طاغوت اور اسلام دشمن قوتوں کا دائرہ حیات تنگ کردیا ۔آج بھی رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ؒ کی شکل و صورت میں افکار خمینی ؒ سامراج کے آنکھوں میں کانٹے کا کردار نبھا رہے ہیں ۔مکتب خمینی ؒ دن بدن پروان چڑ رہا ہے اس مکتب سے آج بھی آغا سید حسن نصر اﷲ،شہید قاسم سلیمانی ،شہید محسن حججی ،خالد مشعل ،شیخ نعیم قاسم ،شہید باقر نمر النمر اور شیخ ابراہیم زکزکی ،آغا سید جواد نقوی جیسے شاگرد تربیت پاکر دشمنان اسلام کے مقابلے میں سپر بن کر سامنے آجاتے ہیں ۔

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی ؒ کی 31ویں سالگرہ پر انہیں دل کی عمیق گہرائیوں سے سلام پیش کرتے ہیں اور مجاہدین راہ حق خاص طور پر شہید قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔