کراچی/ امت مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ تکفیریت اور خارجیت ہے، خارجی فکر نے ہم سے امن، اعتدال پسندی چھین لی، انسانی خون بہانے کو جائز قرار دیا اور کفر کے فتوؤں کی فیکٹریوں کو عام کیا۔ 13 سو سال کی اسلامی تاریخ میں مسالک کے درمیان تما م تر اختلاف رائے کے باوجود قربتیں قائم رہیں، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مسلکی اختلاف کی بنیاد پر کسی کی جان لینے کو جائز قرار دیا گیا ہو، مگر آج فتنہ خوارج کے علمبرداروں نے قربتوں کو فاصلوں اور محبتوں کو نفرتوں میں تبدیل کر کے ایمان، عقائد اور سیاسی نظریات کو تبدیل کرنے کی مذموم کوشش کی اور اپنے باطل اور خارجی نظریات کو مسلط کرنے کیلئے بے دردی کے ساتھ انسانی خون بہایا اور خون بہانے کے اس مکروہ، غیر اسلامی عمل کو حلال قرار دینے کی نا پاک جسارت کی۔ان باتوں کا اظہارعالمی شہرت یافتہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں ہزاروں معتکفین سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہاکہ میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ امت مسلمہ اور نوجوانوں کو دہشتگردی اور فتنہ خوارج کے شیطانی جال سے بچانے پر صرف کر رہا ہوں۔ خارجی نظریات کے حامل دہشتگرد گروپس نوجوانوں کی دنیا اور آخرت دونوں برباد کر رہے ہیں اور امت مسلمہ کے ہر ذی شعور کو موجودہ اور آئندہ نسلوں کواس فتنے سے بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اس میں حکومتوں، اداروں، جماعتوں اور افراد کو اپنا قومی، ملی، دینی فریضہ ادا کرنا ہو گا۔ بے گناہ انسانی جانوں کے ضیاع پر خاموش رہنے والے ہر اس شخص سے قیامت کے دن سوال ہو گا جو انسانی جان کے تحفظ کے حوالے سے کوئی کردار ادا کر سکتا تھا اور اس نے کسی مصلحت کے تحت وہ کردار ادا نہیں کیا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہاکہ والدین اپنے بچوں کے نصابی، غیر نصابی مشاغل پر نظر رکھیں۔ آئندہ نسلوں کو خارجیوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ انہوں نے کہاکہ 13سو سال کی اسلامی تاریخ میں ہر دور میں ہر مکتب فکر اور مسلک نے اہل بیت اطہار سے محبت کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھامگرخارجی فکر نے ایمان کے اس درجے پر بھی حملے کئے اور خون بہایا۔ امت مسلمہ اپنے جماعتی، گروہی اور سیاسی مفادات سے بالا ہو کر خارجیت کے باطل نظریات کو جڑ سے کاٹ دے اور اپنی فکر میں راست گوئی، اعتدال پسندی لائے۔
انہوں نے کہاکہ اسلام امن اور اعتدال کا دین ہے۔ دین اسلام میں انتہا پسندانہ فکر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اعتدال پسندی سے انتہا پسندی اور دہشتگردی کبھی جنم نہیں لے سکتی، جنکی فکر اور طبیعتیں معتدل ہوتی ہیں وہ خون بہانے کی طرف کبھی مائل نہیں ہو سکتے۔ اعتدال کا امن کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خارجی فکر نے ہم سے اعتدال پسندی اور امن چھین لیا ہے۔