لندن/ولایت ٹائمز نیوز سرویس/حجۃ الاسلام و المسلمین سید مرتضیٰ کشمیری نے کہا “امام علی علیہ السلام کی شہادت سے لے کر آج تک چودہ سو سال سے زائد زمانہ گزرجانے کے باوجود اور قیامت تک آپ(ع) ایک کامل نمونہ ، نظریات کا مظہر اور فضائل و کمالات کا معراج بنے رہیں گے۔آپ تمام خوبیوں و کمالات، فصاحت وبلاغت اور شجاعت کے وارث ہیں اور اسی وجہ سے دنیا میں مختلف فرقوں اور مذاہب کے ماننے والے آپ(ع) کی تعظیم اور تقدیس کے قائل ہیں اور اگر مسلمانان عالم آپ(ع)کی سیرت اور روش زندگی پر عمل پیرا ہونگے تو دنیا میں سب سے آگے قرار پائیں گے۔
ولایت ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق نمایندہ مرجع تقلید نے نبوت اور وحی کے وارث ، الٰہی پیشواء اور امامت کی پہلی کڑی کے امام حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شہادت کے مناسبت سے مزید کہا کہ ماضی کی طرح آج بھی دنیا بھر کی دینی مراکز، امام بارگاہوں اور مساجد میں بڑے عقیدت اور احترام کے ساتھ رات بھر مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ ہاں! ہاں ایسا کیسے نہیں ہو سکتا، وہ جس کی پرورش سید الانبیاء کے آغوش میں قرار پائے ، جو ایمان اور اخلاص کا کامل مجسمہ ہو گویا آپ علیہ السلام فضیلت کے اس درجہ پر فائز تھے کہ جیسے پیامبر خدا ایک روح دو بدنوں میں قرار پائی ہے۔
آپ نے مزید کہا کہ تاریخ اسلام کا وہ دور جب اسلامی معاشرہ تضادات اور فکری و اعتقادی رجحانات میں گرفتار تھا اور جہالت نے سماج کی بنیاد کو ختم کرکے رکھ دیا تھا تو اسی ہستی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کی اور لبیک کہا اور خلافت الٰہی کے منصب پر فائذ ہوئے ۔ ایسی رہبری اور خلافت کی باگ ڈور سنبھالی جس کی بنیاد عدل وانصاف اورالٰہی سیاسی منشور پر قائم کی۔آپ(ع) نے کبھی بھی خلافت کو ذاتی مفادات کیلئے استعمال نہیں کیا اور نہ ہی اپنے دور خلافت میں تعصبات اور اختلافات کے سبب اسلام کو کمزور ہونے دیا بلکہ الٰہی پیغام اور سیرہ پیغمبر کو معیار بناکر ہمیشہ اسلام کا دفاع کیا۔ امیر المومنین علیہ السلام قیامت تک زندگی، علم، جنگ، امن، قضاوت، قول وفعل میں بہترین نمونہ اور اسوہ تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام قومیں، حتیٰ کہ آپ کے دشمن بھی آپکے فضائل کے منکر نہیں اور نہ ہی اپنی تقاریر و نوشتار میں چھپا سکے بلکہ کتب آپکے فضائل اور کمالات سے بھرے پڑے ہیں لہذا اس میدان میں مسلمانوں کوچاہیےکہ تعصب کے بغیر کتابوں مخصوصا خصائص امیرالمومنین علیہ السلام نسائی، کنز العمال، تاریخ دمشق، ینابع المودہ وغیرہ کا جائزہ لیں اور مطالعہ کریں۔
احمد بن حنبل کہتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اصحاب میں سے کوئی بھی امیرالمومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام جیسے فضائل نہیں رکھتا ہےکہ جو مخصوص آپ(ع) کی شان و منزلت میں بیان ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر مسلم محققین نے بھی حضرت علی علیہ السلام کے بارے کتابیں لکھی ہیں جن میں کتاب المحمہ الغدیریہ تصنیف پولس سلامہ، صوت عدالتہ تالیف جارج جرداق اور دیگر عیسائی اور مغربی مصنفوں کے علاوہ مستشرقین مثلا انگریزی مصنف کارلائل قابل ذکر ہیں۔ اگران تالیفات اور متون پر ایک نگاہ ڈالی جائے تب ہمیں دنیا اور آخرت میں اس عظیم درجہ پرا فائز انسان اور امام کی بزرگی اور بلندی کا احساس ہوگا جو جہنم و جنت کوتقسیم کرنے والا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حوض کوثر پر ہونگے۔
نمایندہ مرجع تقلید نے مزید کہا “حضرت علی (ع) پیروکاروں اور ہدایت یافتگان کیلئے بہترین آئیڈیل اور اسوہ ہیں اور اگر مسلمانان آپ (ع) کی تعلیمات اور راستے پر گامزن ہونگے تو یقینی طور دنیا پر غلبہ حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ عصر حاضر میں ایسے بھی افراد موجود ہیں جو خودکو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام علیہ السلام کا پیروکار سمجھتے اور مانتے ہیں لیکن آپ علیھم السلام کے راستے اور طریقہ سے ہٹ کر اپنی آخرت کو دنیا کے ہاتھوں بیچ چکے ہیں اور حقیقتا دونوں ہستیوں کو کھودیا ہیں۔ قرآن کا ارشا ہے :وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ ۖ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ
ترجمہ:اور لوگوں میں بعض ایسا بھی ہے جو کنارے پر (کھڑا ہو کر) خدا کی عبادت کرتا ہے اگر اسکو کوئی (دنیاوی) فائدہ یا بھلائی پہنچے تو اس کے سبب مطمئن ہوجاتا ہے اور اگر کوئی آفت پڑے تو منہ کے بل لوٹ جاتا ہے۔ اس نے دنیا اور آخرت کا نقصان سمیٹا، یہی تو نقصان صریح ہے۔
خداوند متعال سے دعا گو ہیں کہ ہمیں آپ حضرت کی سیرت اور راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور قیامت میں آپ کی شفاعت سے محروم نہ کریں جس دن نہ مال اور نہ ہی اولاد کسی کے کام آئیں گے بلکہ فقط وہی کامیاب ہونگے جو اللہ کی جانب قلب سلیم لےکر آئے ہو۔ اے امیرالمومنین ! دورو سلام آپ پر جس دن متولد ہوئے اور جس دن شہید ہوئے اور آپکی زبان مبارک پر «فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَہ» کا کلام جاری تھا۔