تہران/ولایت ٹائمز نیوز سرویس/ولادت باسعادت پیغمبر ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے موقع پر 38ویں عالمی وحدت اسلامی کانفرنس کے تمام مہمانوں اور حاضرین کی خدمت میں مبارکباد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ صدر مملکت اسلامی جمہوریہ ایران جناب ڈاکٹر مسعود پزشکیان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے ہماری دعوت کو قبول کیا۔ میں خیر مقدم کرتا ہوں اپنے ان تمام مہمانوں کا کہ جنہوں نے تہران اور ملک سے باہر ہماری اس دعوت کو قبول کیا اور قدم رنجہ فرمایا۔ ان باتوں کا اظہار ایران کے معروف عالمی شہرت یافتہ عالم دین اور مجمع جہانی تقریب مذاہب کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر حمید شہریاری نے 38ویں عالمی وحدت کانفرنس کی افتتاحی تقریب کے دوران کیا۔
مسئلہ فلسطین پر تاکید کے ساتھ، امت واحدہ کی قربت کی ڈپلومیسی اور ڈائیلاگ کے ہدف اور مشترکہ اقدار کے حصول کے لئے اسلامی تعاون کے عنوان سے 38 ویں عالمی وحدت اسلامی کانفرنس کا اہتمام ہوا ہے ہے۔ صدر مملکت اسلامی جمہوریہ ایران کے انتہائی شکرگذار ہیں کہ انہوں نے عراق کے سفر کے دوران اس بنیادی مفہوم کی جانب اشارہ کیا اور ایک اساسی مطالبے کے طور پر اسکی تاکید کی۔ یہ گہری فکر جس کی بنیاد بانی اسلامی جمہوریہ ایران حضرت امام خمینی قدس سرہ نے رکھی تھی خاص اور سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے۔
وحدت اسلامی کانفرنس کے گذشتہ چار ادوار کے دوران ہمارا اصلی ہدف یہ رہا ہے کہ اسلامی معاشرے قرآن کے اس آئیڈئل مفہوم کی جانب حرکت کریں، اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچائیں، تاکہ اسلامی ممالک کی سرحدیں کم رنگ ہوں، ایک اسلامی کرنسی رائج ہو اور ایک ایسی پارلیمنٹ بنائی جاسکے جس میں مشترکہ قوانین کو اجماع کے ساتھ تصویب کیا جاسکے۔
تاریخ کے اس انتہائی حساس موقع پر کہ جب دنیا بحرانی اور نابود کردینے والی جنگوں میں گرفتار ہے مندرجہ ذیل امور پر تاکید کرنا چاہتا ہوں:
قرآن کریم انسانیت کے لیے واحد حفاظت شدہ وحی ہدایت ہے۔ مسلمانوں اور انکے ہم پیمان قوموں کے درمیان امن اور دوستی اور استکبار کے ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت اس کی حیات بخش تعلیمات میں سے ہیں۔ انسانی معاشرے میں تین مشترکہ اقدار یعنی انسانی وقار، انصاف اور سلامتی خطے میں پائیدار ترقی کے مشترکہ اسلامی اہداف ہیں۔ انسانی وقار ایک خدائی تحفہ ہے جو خدا نے انسانوں کو یکساں طور پر ہر انسان کے خیالات اور عقائد سے قطع نظر عطا کیا ہے۔ اس انسانی عظمت کی خصوصیات کا ایک مجموعہ، جو خدا کے بارے میں تفکر اور اسے تلاش کرنا ہے، انسان کو دنیا کی دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، زندگی گذارنے کا حق اور آب و غذا اور جائے مسکن تک رسائی کا حق ان سب سے واضح حقوق میں سے ہیں جو انسانوں کو اس کرامت کے عطا ہونے کی وجہ سے واضح ہو گئے ہیں۔
ان حقوق کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی ظلم کی واضح مثال ہے۔ اور انصاف ایک عقلی اور الٰہی حکم ہے تاکہ بنی نوع انسان ایک مستحکم حکومت قائم کرسکے جس میں نسلی، مذہبی اور دینی وابستگیوں سے قطع نظر تمام انسانوں کے حقوق کا یکساں احترام کیا جائے اور منصفانہ سماجی میل جول کی بنیاد حاصل کی جائے۔ دنیا کے حریص اور مستکبر لوگ ہمیشہ اپنے فائدے کے لیے دھونس اور دھمکیوں سے دوسروں کے حقوق غصب کرنے کے درپے رہتے ہیں اور مزید فائدے کے حصول کے لیے کسی بھی ظالمانہ اقدام سے دریغ نہیں کرتے اس لیے اب غزہ اور مقبوضہ علاقوں میں بے گناہوں کو قتل کر رہے ہیں، بچے، عورتیں اور بوڑھے متاثر ہورہے ہیں، اور اس ملکوتیوں کے اس تاریخی قول کی یاد تازہ کررہے ہیں کہ “اتجعل فیھا من یفسد فیھا و یسفک الدماء”۔ خدا کی ملامت ان لوگوں کے شامل حال ہو جنہوں نے بنی اسرائیل کی طرح اس حقیقت کے باوجود کہ انہوں نے بے گناہوں کا خون نہ بہانے اور کسی کو ان کے گھروں سے نہ نکالنے کا عہد کیا تھا لیکن انہوں نے عہد کی خلاف ورزی کی۔
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ// ثُمَّ أَنْتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ …
اور آج ہم اس الہی وعدے کا مشاہدہ کررہے ہیں، یعنی غاصب صیہونی حکومت کی خیانت۔ واضح طور پر فوجی میدان میں بغیر کسی کامیابی کی شکست کے طور پر، سیاسی میدان میں اندرونی اختلافات کے طور پر، سماجی میدان میں جنگ کے خلاف سڑکوں پر مظاہرے، ثقافتی میدان میں عالمی وقار اور سیاحوں کی کی جانب سے متروکہ علاقہ قرار دینے، اور اقتصادی میدان میں بدنامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے خاتمہ کے طور پر، یہ ذلت اور رسوائی سب ہی کے سامنے نہایت آشکار اور قابل مشاہدہ ہے۔
عالمی سلامتی کا انحصار دنیا کے مستکبرین کی خود غرضی اور مفاد پرستی کی روک تھام پر ہے۔ خطے کے اسلامی اور ہمارے ہمسایہ ممالک کو جان لینا چاہیے کہ پائیدار ترقی کے اہداف عالمی اور علاقائی سلامتی کے متقاضی ہیں اور اس مشترکہ قدر کے حصول اسلامی تعاون کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ علاقائی تعاون سے ہم ان جنگی جرائم کو روک سکتے ہیں جو غزہ میں انجام پائے یا اب مغربی کنارے، مقبوضہ فلسطین اور لبنان میں انجام پا رہے ہیں اور ہم عملی میدان میں ان جرائم کو روک سکتے ہیں۔ خطے کی سلامتی کو یقینی بنانے کا انحصار غاصب حکومت کا مقابلہ کرنے اور فلسطینی عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں اسلامی ممالک کے عملی اتحاد پر ہے۔ ایک نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل کا انحصار مغربی ایشیائی ممالک کے حکمرانوں کی عقلانیت کو بروئے کار لا کر خطے کی سلامتی کو یقینی بنانے پر ہے۔ اسی طرح، ہم روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کو یورپ اور روس کے درمیان تصادم نہیں بلکہ امریکہ اور روس کی قیادت میں نیٹو کے درمیان تصادم گردانتے ہیں، اور ہم یورپی یونین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے مفادات کو امریکہ کے مفادات سے نہ جوڑے اور روس کے ساتھ مشترکہ مفادات کا جائزہ ایجنڈے میں شامل کرے۔ امریکہ اور انگلستان کی قیادت میں عالمی استکبار یورپی یونین کو مضبوط نہیں کرنا چاہتے اور یورپی یونین کے ٹوٹنے اور اس خطے میں یورو کی قدر میں گراوٹ میں اپنے مفادات دیکھ رہے ہیں۔ یورپ کو اس خطرناک عالمی جال سے بچنے کے لیے ہوشیار رہنا چاہیے۔
یہ بات باعث امید ہے کہ اسلامی دنیا ایک منصفانہ امن کی طرف بڑھ رہی ہے اور خطے سے عسکریت پسندی پر مبنی ڈائیلاگ کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔ ہم نے یمن اور شام میں بے نتیجہ جنگوں کے خاتمے کا خیر مقدم کیا اور ہم شام میں عرب ممالک کے سفارتخانے دوبارہ کھولے جانے پر مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم خطے میں پائیدار امن کے حصول کا واحد راستہ مذاکرات کو سمجھتے ہیں اور یہ کہ سعودی عرب اور ترکی جیسے سرکردہ اسلامی ممالک نے تکفیریت اور انتہا پسندی سے جدا ہو کر مکہ اور استنبول میں اسلامی مذاہب کے درمیان رابطوں کے لئے پل کا کردار ادا کرنے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا اور مشترکہ کوششیں کیں جسے ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ تحریک خطے کے دوسرے مضحمل ممالک کے لیے ایک نمونہ بن سکتی ہے اور یہ تاثر پیدا کر سکتی ہے کہ بیرونی حکومتیں کبھی بھی خطے میں دیرپا امن فراہم نہیں کر سکتیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ممالک کے درمیان علم اور ٹیکنالوجی، علاقائی سلامتی، سیاسی طاقت اور فائدہ مند اقتصادی اور ثقافتی تبادلوں کے میدان میں ہم آہنگی باہمی تعاون کا باعث بنے گا۔ اور میڈیا کی مضمحل کیفیت مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کا سبب بنے گی اسی طرح اسلامی ممالک کی یونین کے قیام کے لیے سازگار زمینہ فراہم ہوگا۔
امارت اسلامیہ افغانستان کے قیام نے طالبان کو تمام نسلی گروہوں اور مذاہب کی منصفانہ اور دیانتداری سے خدمت کرنے کا منفرد موقع فراہم کیا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ امارت اسلامیہ افغانستان تمام شہریوں کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے اور ان کے لیے مساوی مواقع پیدا کر کے نسل پرستی اور امتیازی سلوک کو ختم کر دے گی۔ نسلی اور لسانی تعصبات سے ماضی کی طرح کے نقصانات اور قومی اختلافات کے علاوہ کوئی اور نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اس کے علاوہ، عالمی جلس تقریب مذاہب اسلامی، امارت اسلامیہ افغانستان کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے اپنے بھرپور تعاون کا اعلان کرتی ہے۔
ہم پوری اسلامی دنیا خصوصاً پاکستان میں اسلامی اسکولوں اور تعلیمی اداروں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ انتہا پسندی اور تکفیریت کی تعلیمات کو اپنے اندر سے نکال باہر کریں اور اب جب کہ اسلامی ممالک ایک دوسرے کے قریب ہوچکے ہیں۔ انہیں ایسے طلباء کی تربیت کرنی چاہیے جو عالمی استکبار اور طواغیت وقت کی جانب اپنے تیز دھار پیکان اور قلم کا رخ کرلیں اور عالم اسلام میں تفرقہ اور تصادم پیدا کرنے سے گریز کریں جو کہ عالم اسلام کے دشمنوں کی سازش ہے اور آپس میں محبت اور رحمت کو فروغ دیں۔ مسلمانوں کی بخشش اور اجر عظیم کا دارومدار تمام نسلوں، قوموں اور اسلامی مذاہب کی باہمی دوستی پر ہے۔
آخر میں ایک بار پھر، میں معزز صدر مملکت اور تمام حاضرین علمائے کرام اور دانشوروں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، خاص طور پر ان مہمانوں کا جنہوں نے بیرون ملک اور تہران کے باہر سے ہماری دعوت قبول کی اور قدم رنجہ فرمایا۔ خدا کی نصرت اور مدد بحول و قوہ الہی نزدیک ہے۔ و اخری تحبونها نصرٌ من الله و فتحٌ قریب و بشر المؤمنین۔ و السلام علکیم و رحمت الله و برکاته